عام انتخابات تو شائد وقت پر ہو جائیں کہ رسم دنیا بھی ہے‘ موقع بھی ہے‘ دستور بھی ہے لیکن ان انتخابات کی ساکھ 2013ء کے انتخابات سے بہتر ہو گی یا نہیں؟ یہ اہم سوال ہے‘ میاں نواز شریف نے 28جولائی کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے‘ اپنے گریباں میں جھانکنے اور ذاتی و خاندانی غلطیوں کو سدھارنے کے بجائے چومکھی لڑنے کا فیصلہ کیا۔ عدلیہ‘ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو عضو ضعیف سمجھ کر اپنی نااہلی کا ملبہ گرانے کی سعی کی‘ سگے بھائی میاں شہباز شریف اور دیرینہ دوست نثار علی خاں سمیت ہر اس شخص نے ‘جسے اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم سے نوازا‘ سمجھانے کی کوشش کی مگر میاں صاحب ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے ‘ہر بار دبائو بڑھا کر اسٹیبلشمنٹ سے مرضی کی ڈیل کی‘ اس بار بھی ماضی کا حربہ آزمایا نتیجہ معلوم‘ پارٹی بکھر چکی۔1988ء سے 2013ء تک مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ہاٹ کیک تھا۔ لوگ پائوں پڑتے‘ نذرانہ پیش کرتے اور میاں نواز شریف کے دستخطوں والے ٹکٹ کو کامیابی کا پروانہ سمجھتے مگر پہلی بار الیکٹ ایبلز حکمران جماعت کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کی طرف لپکے اور ایک درجن سے زائد امیدواروں نے ٹکٹ واپس کیے۔ الیکٹ ایبلز کو مرغ بادنما اور فصلی بٹیرے اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست کے پیچ و خم جانتے اور عوام کا موڈ پہچانتے ہیں‘ کسی زمانے میں میاں نواز شریف کی شہرت یہ تھی کہ پارس ہے جس کو چھونے والا لوہا سونا بن جاتا ہے مگر اب مسلم لیگ ن کا ٹکٹ کامیابی کی کلید نہیں ناکامی کا پیش خیمہ سمجھا جا رہا ہے۔ وقت وقت کی بات ہے۔ میاں صاحب کے اندھے مقلد اسے خلائی مخلوق کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ بالفرض یہ مان لیا جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ 28جولائی کے بعد میاں صاحب نے معلوم نہیں کس کی انگیخت اور پشت پناہی پر قومی اداروں کو دیوار سے لگانے اور انہیں امریکی و بھارتی بیانیے کے مطابق اندرون و بیرون ملک برائی کا محور قرار دینے کی پالیسی اپنائی‘ اپنی صاحبزادی سے مل کر وہ سب کچھ کیا‘ کہا‘ جو شیخ مجیب الرحمن‘ الطاف حسین اور خانوادہ عبدالغفار کے سوا کبھی کسی نے کہا‘ نہ کیا ۔انہیں اور ان کے سیاسی و صحافتی اتالیقوں اور حاشیہ برداروں کو احساس نہ ہواکہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اور کوئی فرد ہو یا ادارہ زیادہ دیر تک الزام تراشی برداشت کرتاہے نہ ایک ایسے سیاستدان سے بلیک میل ہوتا ہے جسے کرپشن کے الزام میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے سزا سنائی ۔ مسلم لیگ ن ایسی جماعت جس نے اپنے قائد میاں نواز شریف کی طرح اقتدار کے ایوانوں میں جنم لیا‘ سرکاری وسائل سے پلی بڑھی اورجسے اقتدار ہمیشہ عوامی مقبولیت یا بہتر کارکردگی پر نہیں مقتدر قوتوں کی اشیر باد اور بیرونی سرپرستوں کی مہربانی سے ملا وہ فوج اور عدلیہ سے محاذ آرائی مول لے کر کتنے دن متحد رہ سکتی ہے؟۔ مچھلی پانی کے بغیر کبھی زندہ رہی اور مسلم لیگ اقتدار کے پانیوں کو چھوڑ کر جیئے؟ کہتے ہیں مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی۔ بیگم کلثوم نواز کی بیماری میں شدت ان دنوں آئی جب مسلم لیگ ن کو پاکستان میں نواز شریف اور مریم نواز کی سخت ضرورت تھی۔ میاں نواز شریف بیگم کو ہسپتال چھوڑ کر وطن واپس آئیں تو یہ طعنہ ملے گا کہ پچاس سالہ رفاقت کا احساس نہیں اور بستر سے لگ کر بیٹھے رہیں تو کوئی انتخابی مہم چلانے والا نہیں۔ وطن واپسی پر گرفتاری کا خوف مستزاد ؎ غرض دوگو نہ عذاب است جاں مجنوں را بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ مسلم لیگ(ن) نے سرکاری وسائل اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی کے بغیر 2002ء کا الیکشن لڑا اور عوامی مقبولیت کے دعوئوں کے باوجود بیس نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگی قیادت جانتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے بغیر الیکشن لڑنا کس قدر مشکل ہے اور نتائج کیا نکلیں گے؟۔ ابھی سے بائیکاٹ کی قیاس آرائیاں اس پس منظر میں ہیں ۔احسن اقبال اور میاں شہباز شریف اس آپشن کو خارج ازامکان قرار دیں مگر فیصلہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کریں گے اور 2008ء میں میاں نواز شریف ایسا کر چکے ہیں۔ اگر آصف علی زرداری انہیں قائل بلکہ مجبور نہ کرتے تو وہ بائیکاٹ کی قیمت چکانے کو تیار تھے۔اب بھی فوج اور عدلیہ سے محاذ آرائی پر تیار کرنے والے غیر سیاسی مشیر انہیں بند گلی میں دھکیل سکتے ہیں مگر یہ مہنگا سودا ہو گا۔ پیپلز پارٹی 1985ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے پنجاب سے آئوٹ ہوئی اور پھر کبھی اپنی سابقہ پوزیشن بحال نہ کر سکی۔ تاہم موجودہ حالات میں انتخابی میدان میں اتر کر عوامی عدالت سے اپنے خلاف فیصلہ لینا بھی شریف خاندان کے لیے آسان نہیں جبکہ وطن واپسی کی صورت میں باپ بیٹی کو احتساب عدالت سے سزائوں کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف کے لیے راستہ صاف ہے اور حالات کا رخ ہنگ پارلیمنٹ کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔جیپ گروپ کے بارے میں بعض تجزیہ نگار بہت زیادہ حسن ظن کا شکار ہیں مگر مجھے اس آزاد گروپ کا مستقبل1997ء میں منظر عام پر آنے والے آزاد گروپ سے مختلف نظر نہیں آتا جس کا انتخابی نشان غالباً مٹکا تھا۔ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی اور سینٹ میں چیئرمین کے انتخاب کو عام انتخابات پر منطبق کرنا سادہ لوحی ہے۔ پاکستان کو اس وقت مضبوط حکومت اور مضبوط قیادت کی ضرورت ہے چوں چوں کا مربہ حکومت اور کمزور قیادت علاقائی اور عالمی دبائو کا مقابلہ کر سکتی ہے نہ مستقبل کے خطرات سے نمٹنے میں کامیاب۔ فوج اور عدلیہ کی بھی خواہش یہی ہو گی کہ سیاسی مسائل سے سیاسی حکومت نمٹے اور نریندر مودی کی جارحانہ سفارت کاری کا مقابلہ عوام کا اعتماد رکھنے والی سیاسی قیادت کرے جبکہ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی جارحانہ سیاست کا سامنا کمزور مخلوط حکومت نہیں کر سکتی۔ ویسے بھی پاکستانی عوام نے عام انتخابات میں ہمیشہ واضح مینڈیٹ دیا یہ اور بات کہ بھاری مینڈیٹ کو ہمارے عوامی رہنمائوں نے اداروں کے ساتھ محاذ آرائی اور اقربا پروری ودوست نوازی میں ضائع کر دیا۔1997ء اور 2013ء میں میاں نواز شریف کو عوام نے جس مینڈیٹ سے نوازا تھا وہ اگر عوامی فلاح و بہبود اور پاکستان و جمہوریت کے استحکام کے لیے استعمال ہوتا تو آج پاکستان اور جمہوری نظام کامیابی و کامرانی کی کتنی منزلیں طے کر چکے ہوتے ؟اور میاں نواز شریف کا شمار بھی مہاتیر محمد اور اردوان جیسے رہنمائوں میں ہوتا۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کی جارحانہ حکمت عملی کے سبب مسلم لیگ 2002ء کے انجام سے دوچار ہونے جا رہی ہے اور اگر اگلے ہفتے کے دوران میاں صاحب کسی سبب وطن واپس نہ آ سکے تو اصل مقابلہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں ہو گا۔ وسطی پنجاب کے دو تین اضلاع کے بل بوتے پر مسلم لیگ تحریک انصاف کا مقابلہ کیسے کر پائے گی جبکہ مسلم لیگی کارکن یہاں بھی تقسیم اور بددل ہے۔ لاہور میں مسلم لیگ کے تین رہنما ہی اپنی انتخابی مہم جوش و خروش سے شروع کر سکے ہیں ‘حمزہ شہباز‘ ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کے علاوہ کسی تیسرے انتخابی امیدوار کی مہم ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ میاں شہباز شریف کراچی کے دورے کے بعد خاموش ہیں اور باقی رہنمائوں کو اپنی پڑی ہے۔ امیدوار اپنی جگہ سچے ہیں کہ وہ سیاست بچائیں یا دولت‘ نیب کا ڈر بھی ہے اور شکست کا خوف بھی۔ جائیں تو جائیں کہاں۔10جولائی کے بعد اگر حالات پرامن رہے تو انتخابات وقت پر ہو جائیں گے تاہم مسلم لیگ کے ستاروں کی چال بے ڈھنگی رہنے کی امید ہے۔