یوں تو موسمیاتی تبدیلیوں نے پوری دنیا کو اپنی لیٹ میں لیا ہے لیکن پاکستان میں شاید اس کا اثر کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہا ہے۔یہاں نہ جانے کیسی موسمیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں کہ حبس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔گھٹن بڑھ گئی ہے اور سانس تک لینا محال ہے ۔ایسے حبس میں تو تخیل بھی کام نہیں کرتا ۔ہمارے استاد عرفان جمیل نے کہا تھا: تم نے ایسا حبس کا موسم دیکھا ہے ؟ دم گھٹتا ہے اور تخیل تک مر جاتا ہے تخیل مر جائے تو زندگی صرف سانسوں کی آمد و رفت کا نام رہ جاتی ہے ۔چند سانسوں کو ہمت دلا کے بے تخیلی کے عالم میں چلیے کچھ ادھر ادھر کی بے تکی باتیں ہو جائیں۔ عمران خان کہتے ہیں شہباز گل پر بدترین تشدد ہوا ہے ،ذرائع کہتے ہیں وہ ٹوٹ چکے ہیں،ان کے اعصاب جواب دے گئے ہیں اور وہ ہر صورت باہر آنا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ ان کی اپنی پارٹی کے پانچ اہم رہنما اڈیالہ جیل ان سے ملنے کے لیے گئے اور اپنی ہی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی پورا زور لگانے کے باوجود شہباز گل سے ملاقات نہ کر سکے۔ گویا اڈیالہ جیل پر اب صرف جیل حکام کی حکومت ہے اور وہ کسی دبائو میں آئے اور سیاسی اثرو رسوخ قبول کیے بغیر صرف میرٹ پر کام کرتے ہیں ، یہاں تک کہ اپنے ہی وزیر داخلہ اور وزیر اعلی کی بات بھی نہیں مان رہے کہ ’’قانون‘‘ انہیں اس چیز کی اجازت نہیں دیتا ،سبحان اللہ۔ دنیا بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پاکستان میں اضافہ کر دیا گیا، پیٹرول کی فی لیٹر قیمت ساڑھے چھ روپے بڑھ گئی ہے ۔ بہت دیر سوچا اس حکومتی اقدام پر تنقید ملک کے مفاد میں ہے یا نہیں،کافی غور کیا کہ پیٹرول کی قیمت بڑھنے پر کی جانے والی تنقید غداری کے زمرے میں تو نہیں آئے گی ۔ پھر مریم نواز کی ٹویٹ سے حوصلہ ہوا کہ خود میاںصاحب اس فیصلے کے خلاف ہیں اوربات نہ مانے جانے پر میٹنگ سے اٹھ کر چلے گئے۔اب جب خود مریم نواز اس اقدام پر تنقید کر رہی ہیں تو ہمیں لب کشائی کرنے میں کیا ہے ، ہم کونسا کسی سے ڈرتے ہیں۔ لہذا ہم بھی سخت ترین الفاظ میںکڑی تنقید کرتے ہوئے یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ’’ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا اچھی بات نہیں ہے۔ـ‘‘ چودہ اگست کو سرکاری جشن کی خاطر منعقدہ تقریب میں ہونے والی موج مستی پر چند نا ہنجاروں نے بہت تنقید کی۔یہ ہرزہ سرائی بھی کی کہ اسلام کے عظیم رہنما فضل الرحمن کے سپوت مولانا اسعد محمود ’’دل پشوری ‘‘ میں ملوث پائے گئے۔ اب ان کم عقل ناقدوں کو کون سمجھائے کہ وطنیت ایک عظیم جذبہ ہے اسی کی خاطر دل پہ پتھر رکھ کے مولانا نے اعضا کی شاعری سماعت فرمالی تو کیا ہوا؟۔وطن کی خاطر اگر اس سے بڑی ’’قربانی‘‘ بھی انہیں دینا پڑی تو وہ دیں گے۔ ویسے بھی وکی لیکس والے الزام تراش نے کہا تھااس عظیم سپوت کے والدگرامی امریکہ بہادر کو کہہ چکے ہیں ہم صرف دیکھنے میں مولوی لگتے ہیں ، ہمیں آزما کر تو دیکھیے۔ ایسے بے ہودہ الزام لگانے والے’’وکی‘‘ کا یہی انجام ہونا چاہیے تھا کہ آج وہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ سیلاب کو روکنے کے لیے شہباز شریف نے بہت دورے کیے لیکن یہ کمبخت بڑا بد لحاظ نکلا۔ جگہ جگہ وہ اپنا ہیلی کاپٹر اڑائے پھرے، ہر بستی میں جا کر انہوں نے انتظامیہ کو ہدایات جاری کیں، سب کو حوصلہ ہوا کہ بس ان کے دورے ہی کی کمی تھی اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ پہلے سیلابی ریلے کے متاثرین ابھی رو ہی رہے تھے کہ دوسرابڑی تباہی لے کر آن پہنچا۔ بنتا تو یہی ہے کہ شہباز شریف دوبارہ ہیلی کاپٹر میں چھ روپے مہنگا پیٹرول بھروائیں اور اُڑان بھریں ۔ اس بار انہیں تھوڑا بلند پرواز کرنے کی ضرورت ہے تا کہ گستاخ بادلوں کو دوبارہ برسنے اور تباہی پھیلانے کی ہمت نہ ہو۔کچھ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ پچھلے دورے میں ضرور کوئی کمی رہ گئی ہو گی ورنہ دوسری بار ایسا نہ ہوتا۔ ایسے لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ کمی ومی کچھ نہیں رہ گئی تھی یہ ہوائیں ہی آج کل کچھ زیادہ گستاخ ہوئی پھرتی ہیں ۔ ان پر ایک مقدمہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈالر مسلسل نیچے آ رہا ہے ۔ حکومت خوشی سے پھولے نہیں سما رہی کہ کمال ہو گیا۔خوش ہونے کی بات بھی ہے، ستر روپے اوپر لے جا کر تیس روپے نیچے لانا کوئی معمولی بات تھوڑا ہے۔ ٹی وی پر خبریں چل رہی ہیں کہ روپے کی مضبوطی کا سلسلہ جاری ہے ۔ تنقید کرنے والوں کو چین نہیں ،کہتے ہیں مضبوطی کا لفظ تو یوں استعمال ہو رہا ہے جیسے ایک روپے میں پانچ ڈالر ملتے ہوں۔تنقید کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ ڈالر اب بھی 215 روپے کا ہے جو اس حکومت کے آنے سے پہلے 178 کا تھا۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ 178 پرروپے کو مصنوعی استحکام تھا، 215 حق حلال کا ہے ۔ ویسے کچھ ماہرین بھی غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں ،ان کا خیال ہے کہ یہ سب سٹے بازوں کا کھیل ہے ، ڈالر گرانے کے بعد خرید ہو گی اور پھر آن کی آن میں یہ اوپر جانے لگے گا۔گویا روپے کے ساتھ کھلواڑ کر کے روپیہ بنانے کا کھیل جاری ہے ۔ایسے ماہرین معیشت کو لگام دینے کے لیے ایک مقدمے کے اندراج کی درخواست ہے۔ ملک میں اس وقت ویسے تو سب اچھا ہی چل رہا ہے لیکن اگر کچھ خرابی ہے بھی تو اس کے ذمہ دار طالب علم ، دکاندار، اساتذہ، گھریلو خواتین،صحافی اورکھلاڑی ہیںجو اپنا کام محنت اور ایمانداری سے نہیں کر رہے ۔ ایسے تمام لوگوں کی سخت سرزنش ہونی چاہیے بلکہ اگر ان سب پر ایک ایک مقدمہ درج ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔