سینئر مستند صحافیوں سے سنا اور اس پر عمل کرتے ہوئے بھی دیکھا۔۔۔کہ اگرکسی خبر کے شائع ہونے کے 24گھنٹے بعد اس کی تردید نہ ہو تو پھر پروفیشنلی اور قانونی طور پر یہ خبر درست قرار دی جائے گی۔شریف خاندان کی ہوشربا کرپشن کے بارے میں جو برسہا برس سے ہزار ہا رپورٹیں اور دستاویزی ریکارڈاور آڈیومیڈیا میں پیش ہورہے ہیں ۔۔۔اُس پر شریف خاندان کے میڈیا منیجرز شور و غوغا تو بہت مچاتے ہیں۔ہرجانے اور توہین کے اربوں روپے کے مقدمے بھی کئے جاتے ہیں۔مگر میری یادداشت کے مطابق شائد ہی کوئی ایسا کیس ہو جس میں شریف خاندان کے بارے میں ’’افواہ ‘‘یا ’’اسکینڈل ‘‘ غلط ثابت ہوا ہو۔اور پھر اسی سبب ن لیگ کی حکومت میں وزیر اعظم نواز شریف نا اہل بھی قرار دئیے جاتے ہیں ۔جیل بھی جاتے ہیں۔شریف خاندان نے جنرل ضیاء الحق اور خود اپنے طویل ادوار میں اختیارات کا بے دریغ استعمال کر کے کن کن ہتھکنڈوں سے اربوں کی جائیداد یں ملک کے اندر اور غیر ممالک میں بنائیں۔اُس کا ایک ’’سمندر ِ بے کراں ہے‘‘۔ شریف خاندان کے پاس کس کس پائے کے وکیل ،میڈیا دانشور سرخیل نہیں اور پھر اتنے بھرے پُرے خاندان کے پاس ایسے کون سے ذرائع اور وسائل نہیں کہ وہ بدعنوانیوں ،اقربا پروری کے الزامات اگر درست نہ ہوتے تو اس کو جھٹلا نہ پاتے۔مگر مخالف کیا۔۔خلق خدا یہ تسلیم کرتی ہے کہ شریف خاندان کے گھروں کے کچن میں پکنے والے سارے پکوان ہی کالے ہیں۔تمہید طویل ہوگئی ۔ایک ذاتی حوالہ دینا چاہتا ہوں۔کوشش ہوتی ہے کہ اپنی ذات کے حوالے سے بات نہ کی جائے۔شاعر ِبے مثال فیض ؔ صاحب کی یہ بات گرہ سے باندھی ہوئی ہے کہ سب سے ’’بور بات اپنے بارے میں گفتگو کرنا ہے‘‘۔۔۔مگر برسوں پہلے کی ایسی بات یاد آگئی کہ جسے گوش گزار کرنا اس لئے ضروری سمجھا کہ ا گر کسی ذات اور خاندان پر ’’کرپشن ‘‘ کا کوئی الزام لگے تو اُسے غلط ثابت کرنے کے لئے آخری حد تک اسے جانا چاہئے۔مہینہ اور سال تک یاد ہے۔جی ہاں،مارچ1981صحافت یعنی لکھنے میں تو ابھی گھٹنوں نہیں چلے تھے۔۔۔مگر طالب علمی کے دور کے ایکٹوازم کے سبب زیادہ وقت پر یس کلب میں’’زندہ باد،مردہ باد‘‘ میں گزرتا۔جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا دور تھا۔کراچی پریس کلب کے صدر اور جرأت و ہمت کے پیکر عبدالحمید چھاپرا کی زیر صدارت گورننگ باڈی نے یہ فیصلہ کیا کہ شاعر ِ عوام حبیب جالبؔ جو ’’ظلمت کو ضیائ،صر صر کو صبائ‘‘نظم لکھنے پر مہینوں گرفتار رہنے کے بعد چند دن قبل ہی رہا ہوئے تھے۔۔۔کراچی پریس کلب کا مہمان خصوصی بنا کر انہیں لائف ممبر شپ کا اعزاز دیا جائے۔سارے ملک میں شدید سنسر شپ اور جلسے جلوسوں پر پابندی تھی ۔۔۔مگر کراچی پریس کلب اُس وقت کیا ۔۔۔آج بھی لندن کا ہائیڈ پارک بنا ہوا ہے۔کراچی پریس کلب کے بیک یارڈ میں بہت بڑا جلسہ ہوا۔شہر میں موجود تمام ہی سیاستدان موجود تھے۔مگر اسٹیج پر نہیں، سامنے دریوں پر۔صدارت ممتاز مارکسی دانشور سید سبطِ حسن کی تھی۔تقاریر اور جالب صاحب نے گھنٹے بھر جو اشعار سنائے اُس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔مگر جالبؔ صاحب کی اس نظم کے چند اشعار سے اندازہ لگائیں کہ شدید بیماری اور مفلسی کے باوجود وہ کیسے بے خوف اور بہادر شاعر تھے۔جنرل ضیاء الحق کو باقاعدہ مخاطب کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہے ہیں۔۔۔’’اس سے کہہ رہا ہوں، ہا ں اُس جنرل سے۔۔۔ اک نظر اپنی زندگی پہ ڈال اک نظر اپنے اردلی پہ ڈال فاصلہ خود ہی کر ذرا محسوس یوں نہ اسلام کا نکال جلوس‘‘ تقریب ختم ہوئی ۔حسب ِ روایت کمیٹی روم میں محفل ِ ہاؤہو جمی ۔ ادھر اُدھر سے مانگے تانگے سے مہ نوشی کا انتظام ہوا۔رات گئے ہم سب گھروں کو رخصت ہوئے۔صبح آنکھ کھلتے ہی حسب ِ روایت اخبار کا بنڈل کھولا تو نوائے وقت کے آخری صفحے پرایک سنگل کالم خبر نے بستر سے چھلانگ لگانے پر مجبور کردیا۔بس پکڑی اور سیدھا کراچی پریس کلب پہنچا جہاں چھاپرا صاحب پہلے ہی نوائے وقت کی خبر پڑھ کر جھاگ نکالے بیٹھے تھے۔دلچسپ بات دیکھیں ،تقریب کراچی پریس کلب میں ہوئی اور بائی لائن اسلام آباد کی اور وہ بھی این این نامی کسی ایجنسی کی کہ ’’کراچی پریس کلب میں حبیب جالبؔ کو لائف ممبر شپ کے ساتھ 25ہزار روپے دئیے گئے،جو انڈین ہائی کمشنر نے ایک لفافے میں بھجوائے تھے،ساتھ ہی ایک کریڈ وہسکی بھی تھی‘‘۔۔۔نوائے وقت فون کیا تو ہماری خوش قسمتی کہ مدیر نوائے وقت محترم مجید نظامی کراچی آفس میں بیٹھے تھے۔ اُس زمانے میں ایڈیٹر حضرات سرد اور بند کمروں میں نہیں بیٹھا کرتے تھے۔سیکرٹری وغیرہ کا بکھیڑا بھی نہ تھا۔چھاپرا صاحب نے محترم مجید نظامی کے سامنے خبر رکھی ۔خبر یقینا نظامی صاحب پڑھ چکے تھے۔اب ہمارے چھاپرا صاحب کا بیانیہ شروع ہوا۔’’نظامی صاحب ،آپ کا ایک جید صحافتی گھرانے سے تعلق ہی نہیں،خود بھی بہت بڑے صحافی ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ تقریب کراچی میں ہوئی۔ماشاء اللہ درجن اوپر سے آپ کے کراچی میں رپورٹر ہیں۔مگرخبر اسلام آباد سے اور وہ بھی ایک ایجنسی کا نمائندہ دے رہا ہے۔25ہزار روپے کا الزام لگایا ہے کہ انڈین ہائی کمشنر نے دئیے۔میں کامرس رپورٹر ہوں۔جھولی پھیلا کر کراچی چیمبر آف کامرس کے دروازے پر ’’جالبؔ‘‘ کے نام پر چندہ جمع کرنے کے لئے کھڑا ہوجاتاتو یقین کریں 25ہزار نہیںاتنے روپے ملتے کہ میری جھولی سے روپے چھلکنے لگتے ۔اور ہاںجہاں تک شراب کا تعلق ہے تو ہاں یہ گناہ ضرور کرتا ہوں۔مگر چھپ کر نہیں بیچ چوک پر، اپنے اور دوستوں کے پیسوں سے۔اور اکیلے نہیں ہر دوسری شام آٹھ ،دس دوستوں کے ساتھ۔کیا میں اور میری برادری اتنی گئی گذری ہے کہ اپنے روایتی دشمن ملک بھارت سے لے کر شاعر ِ عوام کی خدمت کرتے اور ہاں آپ کے رپورٹر کی معلومات اتنی غریب ہیںکہ اسے کیس اور کریڈ کا فرق نہیں معلوم ۔وہسکی کے کیس ہوتے ہیں اور ایک کیس میں 12بوتلیں ہوتی ہیں۔اگر وہ ساری کل شام پی جاتیں تو کم ازکم حدود آرڈیننس میں گھر جاتے ہوئے آٹھ ،دس صحافی تو غل غپاڑہ میں ضرور پکڑے جاتے۔‘‘ محترم مجید نظامی کو جنہوں نے قریب سے دیکھا ہے ،وہ جانتے ہیں کہ اُن کے چہرے پر بہت کم مسکراہٹ چھلکتی تھی۔چھاپرا صاحب کی اس طویل تقریر کو سن کر مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔’’رپورٹر کی سرزنش بعد میں ہوگی،آپ کی دی ہوئی لفظ بہ لفظ تردید اُسی جگہ لگے گی جہاں آپ کے خلاف لگی تھی۔‘‘ایڈیٹر یہ ہوتے تھے۔اور یہ ہوتی تھی صحافی کی خودداری اور ایمانداری۔ہمارے آج کے میڈیامیں کیسے اتنی جرأت اور بہادری آگئی کہ تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم،پانچ بار منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ کے سارے خاندان کے بارے میں برسوں سے بازاری زبا ن میں کیسی کیسی گند اچھالی جارہی ہے۔اور اتنا بڑا کھرب پتی خاندان بے بس ۔۔۔لاچار ۔۔۔مجبور ۔۔۔ ؟