حکیم الامت، دانائے راز، حضرت علّامہ نے ہندوستانی مسلمانوں کی قرآن و سُنّت سے ہٹی اور خواہشات و ظاہرات سے اَٹی دینی، اخلاقی، سماجی اور تہذیبی صورتِ حال دیکھ کے سو سال پہلے ہی فرما دیا تھا : بُت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے بُت گر ہیں تھا براہیمؑ پدر ، اور پسر آزر ہیں دین کے بارے میں ہندوستان بھر کا سب سے بڑا المیہ یہی رہا ہے کہ یہاں اس کا بڑا حصہ عجم کے راستے پہنچا، جہاں کا کلچر ایک طرف قصہ گوئی اور مبالغہ آمیزی کی طرف مائل تھا اور دوسری جانب عربوں سے دشمنی یا مزاج کا اختلاف ان کی گھُٹی میں پڑا تھا۔ بقول شاعرِ مشرق: ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے اس سلسلے میں ہماری بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ نہ صرف ہمارا مقامی کلچر متعصب ہندوؤں کا پروردہ تھا بلکہ انھوں نے اسلام اور ہندو ازم کو گَڈ مَڈ کرنے کے بے شمار جتن بھی کیے۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ابھی ہند، اسلامی تہذیب کا معاملہ طے نہیں ہوا تھا کہ انگریز یہاں ایک نئے کلچر کے ساتھ وارد ہو گئے۔ انھوں نے بھی ہندوستان کی زرخیز زمینوں اور کمزور ذہنوں میں اپنا کلچر نہایت سرعت سے کاشت کرنا شروع کر دیا۔ ہندی کلچر نہایت آہستہ روی اور پلاننگ کے تحت سلو پوائزننگ کی طرح پھیلایا گیا تھا، اس لیے مسلم حلقوں میں اس کے خلاف کم ردِ عمل دیکھنے میں آیا لیکن انگریزی تہذیب کا تو ہمارے بزرگوں نے باقاعدہ برا منایا۔ اکبر نے تو اسی کَد میں ان کی سائنسی ایجادات کا بھی یہ کہہ کے مضحکہ اڑایا: مکے تک ریل کا سامان ہوا چاہتا ہے لو اب انجن بھی مسلمان ہوا چاہتا ہے شاعرِ مشرق تو بعض جگہ اِن دونوں تہذیبوں کے اثرات سے پناہ مانگتے دکھائی دیتے ہیں: تُو اے مولائے یثربؐ! آپ میری چارہ سازی کر مِری دانش ہے افرنگی ، مِرا ایماں ہے زنّاری آج ہمیں ہندوؤں اور انگریزوں سے الگ ہوئے بھی پَون صدی ہونے کو آئی ہے لیکن ہم اپنی کم علمی اور لکیر کا فقیر طبیعت رکھنے کے سبب ذہنوں سے چمٹی مرعوبیت اور سینوں سے لپٹی محبوبیت کو ملک اور مزاج سے باہر نہیں کر سکے۔ شبلی نعمانی نے بھی ’شعرالعجم‘ کی چوتھی جلد میں اس کیفیت کے لیے یہ مثال پیش کی تھی: اے برہمن! چہ زنی طعنہ کہ در معبدِ ما سبحہ نیست کہ آں غیرتِ زنّار تُو نیست اسی لاعلمی کے باعث ہم میں وہ ہٹ دھرمی اور خود سری ( احباب نے جسے مستقل مزاجی کا نام دے رکھا ہے) جڑ پکڑتی گئی ، جس کی بنا پر ہم خود کو عقلِ کل اور دوسروں کو گُم راہ قرار دیتے چلے گئے۔ نبیؐ کا فرمان تو یہ تھا کہ مَیں تمھارے لیے قرآن اور سنت چھوڑے جاتا ہوں اور یہ کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ قرآن حدیث پڑھنا چونکہ محنت طلب اور نسبتاً دشوار کام تھا ، جب کہ چٹپٹی کہانیاں پُرلطف بھی تھیں اور دنیاداری کے لیے مفید بھی۔ اس لیے ہم اپنے فیصلے قرآن حدیث کی بجائے ذاتی مفادات کی روشنی میں کرنے لگے۔ ہمارے باپ دادا کی سادگی، بھولپن، کم علمی اور روایت پرستی سونے پر سہاگا ثابت ہوئی۔ ایک المیہ یہ بھی ہوا کہ ہمیں دین کا فہم عطا کرنے کے لیے جو لوگ سامنے آئے، وہ کوئی عربی کے ماہر یا دینی علوم کے سکالر نہیں بلکہ مقامی مدرسوں میں تھوڑے سے خطبے اور بہت سی فرقہ پرستی کو رَٹّا لگا لینے والے لوگ تھے، دیہات میں آج بھی جن کا شمار نچلے درجے کے لوگوں میں کیا جاتا ہے۔ اسلام کی روح تو یہ تھی کہ علاقے کا با اثر اور با شعور فرد امام ہوگا لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ چلن عام ہوگیا کہ کسی گھر کا جو بچہ لائق ہوا، اسے تو دنیاداری کی دوڑ میں جھونک دیا اور جو نکھٹو، نکما یا کسی وجہ سے معذور ہو گیا اُسے علاقے کے خیراتی روٹیوں والے روایتی کلچر کی زینت بنا دیا۔ اقبال مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ صرف اور صرف نبیؐ کی اطاعت اور قرآن کی اتباع میں دیکھتے تھے ۔ وہ اپنی شاعری میں ابراہیم علیہ السلام کی مثالیں اس لیے پیش کرتے ہیں کہ وہ انسانی تاریخ میں خدائی احکام کی فرماں برداری کا بہترین عملی نمونہ ہیں۔ ابراہیم ؑ ، جنھیں بچپن ہی میں توحید کا ایسا پختہ شعور عطا کیا گیا کہ وہ نہ صرف اپنے بُت ساز والد بلکہ اس دَور کے سب سے جابر حکمران نمرود کے سامنے ڈٹ گئے۔ نہایت مردانگی کے ساتھ اُس دور کی بُت پرست اشرافیہ پہ بُتوں کی حقیقت واضح کی اور جب آزمائش آئی تو: بے خطر کُود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی حکم ملا تو بیٹے کو اللہ کی راہ میںقربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ارشاد ہوا تو بیوی اور معصوم بچے کے ہمراہ عراق کے معمورے سے نکل کے عرب کے صحرا میں خدا کا گھر تعمیر کرنے نکل کھڑے ہوئے، جہاں بچہ پانی تلاش میں بلک رہا ہے، بیوی بے آب و گیاہ ویرانے میں سر گرداں ہے اور اللہ کا بندہ پتھر گارا جمع کر کے اللہ کا گھر تعمیر میں منہمک ہے۔ باری تعالیٰ کو اُن کی بلا چون و چرا فرماں برداری کی یہ ادا ایسی بھائی کہ خلیل اللہ کا لقب عطا ہوا، قیامت تک کے اہلِ ایمان پر اس گھر کی زیارت ، طواف اور قربانی کو واجب قرار دے دیا۔ بچے کی پیاس بجھانے کو جو چشمہ جاری ہوا وہ آج تک آبِ زم زم کے اعزاز کے ساتھ شِفا، غذا اور جزا کا علمبردار ہے، حضرت ہاجرہ کی بے اختیاری کو صفا مروا کی سعی میں ڈھال دیا۔ اپنے محبوب ترین پیغمبرؐ کو انھی کی نسل سے پیدا فرمایا اور اُن کے لیے ایک خوبصورت دعا کو ’درودِ ابراہیمی‘ کے تحفے کی شکل میں مومنین کی زبان پر جاری کر دیا ۔ اقبال تو آج کے مسلمانوں کو بھی زندگی اور آخرت میں کامیابی کی یہی نوید سناتے ہیں: آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا اقبال کی زندگی اور کلام پہ نظر کر لیں، ہر جگہ وہ اِسی نسبت پہ فخر کرتے اور اُمتِ مسلمہ کو مسلسل ترغیب دیتے نظر آتے ہیں: حنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا تِری نسبت براہیمی ہے ، معمارِ جہاں تُو ہے اُن کی رجائیت کا تو یہ عالم ہے کہ وہ اُمتِ مسلمہ کی تمام تر بدحالی کے باوجود مایوس نہیں بلکہ یہاں تک پُر امید ہیں: سرشکِ چشمِ مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گُہر پیدا افسوس کا پہلو یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی ژولیدہ فکری اور دنیاوی وسیلوں کی عادی قوم کے مزاج کے پیشِ نظر اس خدشے کا اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں: براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھُپ چھُپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں