بھارت اور چین میں سرحدی تناؤ فی الحال ختم ہوگیا ہے‘ دونوں ملکوں نے مشرقی لدّاخ میں ایک متنازعہ سرحدی مقام پین گونگ سوجھیل سے اپنی فوجیں پیچھے ہٹالی ہیں۔چین نے جھیل کے شمال سے ‘ بھارت نے جھیل کے جنوب میں کیلاش پہاڑی سلسلہ کی چوٹی سے۔ گزشتہ برس پندرہ جون کو مشرقی لدّاخ میں دونوں ملکوں کے درمیان پُر تشدد ٹکراؤ میںبیس بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ دس فروری کو بھارت اور چین کی فوجیں بیک وقت پین گونگ جھیل کے محاذ سے پیچھے ہٹنا شروع ہوگئیں۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان کور کمانڈروں کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے نویں راؤنڈ میںاتفاق رائے ہواجسکے تحت فوجوں نے واپسی شروع کی۔ چین کی وزارت ِخارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماسکو میں چین اور بھارت کے مابین جو اتفاق ہُوا تھا یہ اقدام اسکے مطابق ہے۔بھارت کے انگریزی روزنامہ دی ہندو نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس اقدام کے نتیجہ میں دونوں ملکوں نے گزشتہ برس اپریل سے پہلے والے مقامات پر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی اب وہ آمنے سامنے تعینات نہیں ہونگی۔ اخبار کے مطابق صرف پیدل افواج ہی نہیں بلکہ ٹینک بھی ہٹا دیے جائیں گے اور پیش قدمی کے مقامات پر بنائے گئے عارضی فوجی ٹھکانے ختم کردیے جائیں گے۔ پین گونگ جھیل ہمالیہ پہاڑ کے کیلاش سلسلہ کے قریب واقع ہے۔ اس جھیل میں پہاڑ کے سرے اندر کی طرف نکلے ہوئے ہیں جنہیں جھیل کی انگلیاں(فنگرز) کہا جاتا ہے۔ ان انگلیوں سے سرحد ی مقامات کا تعین کیا جاتا ہے۔ بھارت کا دعوی رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان عارضی سرحد یا لائن آف ایکچوئل کنٹرول شمال میں انگلی نمبر آٹھ سے گزرتی ہے جبکہ چین کا دعوی ہے کہ یہ سرحدی لکیرجنوب میں انگلی نمبر چار سے گزرتی ہے۔گزشتہ سال اپریل میں چین نے بھارتی فوج کو انگلی نمبر چار سے آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔اس سے پہلے بھارتی فوج انگلی نمبر آٹھ تک پیٹرولنگ کیا کرتی تھی۔ بھارتی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ چین جھیل کے شمالی کنارے پر اپنی سابقہ پوزیشن سے آٹھ کلومیٹر آگے کی طرف بڑھ کر قیام پذیر ہوگئی تھی۔ بھارتی فوج نے چین پر دباؤ بڑھانے کی خاطرگزشتہ برس اگست میں جھیل کے جنوبی کنارے میں کیلاش پہاڑ کی فوجی اہمیت کے حامل بلند چوٹیوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ان میں انگلی نمبر چار کے بالکل سامنے جھیل کے جنوب میں ہیلمٹ ٹاپ کی چوٹی بھی شامل تھی۔ امن معاہدہ پر عمل کرتے ہوئے بھارتی فوج جھیل کے جنوب میں اونچے پہاڑی مقامات خالی کررہی ہے جسکا کئی بھارتی دفاعی ماہرین کو خاصا دُکھ ہے۔لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان ارضی سرحد پر چار مقامات پر کشیدگی ہوئی تھی۔ دپسپانگ وادی۔ گلوان وادی۔ پین گونگ جھیل اور گوگرا ہاٹ جھیل۔ بھارت کے دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج نے صرف پین گونگ جھیل پر فوجیں ہٹانے پر اتفاق کرکے چین کو بڑی رعایت دی ہے۔نئے معاہدہ کے مطابق جھیل میں انگلی نمبر چار سے آٹھ تک کا علاقہ ایک طرح سے بفر زون بن جائے گا جس پر دونوں ملکوں کی فوجیں تعینات نہیں ہونگی۔ اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ بھارت نے اس سرحد کو تسلیم کرلیا ہے جو چین کے 1959 میں کیے گئے دعوے کے مطابق ہے۔بعض بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت نے لداخ میں چین سے حالیہ جھڑپ میں ایک ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ کھو دیا ہے۔نریندرا مودی نے چین سے سرحدی کشیدگی ختم کرنے میںبڑے شاطرانہ انداز میں کام کیا کہ بھارت کے اندر انکی مقبولیت بھی متاثر نہ ہو اور چین سے اسکی شرائط پر سمجھوتہ بھی ہوجائے۔ معاہدہ پر عمل درآمد سے چند روز پہلے مودی کابینہ کے وزیرٹرانسپورٹ اور سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے بیان میں کہا کہ دونوں ملکوں کا ایل اے سی(عارضی سرحد) کا اپنا اپنا تصور ہے۔انکا کہنا تھا کہ اگر چین نے بھارت کے تصور کے مطابق سرحد دس مرتبہ عبور کی ہے تو بھارت نے چین کی کھینچی ہوئی سرحد پچاس مرتبہ پار کی ہے۔ نریندرا مودی نے چین سے کشیدگی ختم کرکے اپنے ملک کے لیے مدبرانہ اقدام کیا ہے۔ بھارت کو معلوم ہے کہ اسکی فوجی طاقت چین کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ اگر لڑائی زیادہ پھیل جاتی تو اسکی کورونا کے باعث پہلے سے خراب ہوجانے والی معیشت اورزیادہ بگڑ جاتی۔ یُوں بھی بھارت اور چین کی معیشتیںآپس میں گہری جڑی ہوئی ہیں۔ امریکہ کے بعد چین ہی بھارت کا دوسرا بڑا تجارتی ساتھی ہے۔چین نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ اسکی کمپنیوں کے ستّر سے زیادہ کارخانے بھارت میں چل رہے ہیں۔چین کے سیاح بڑی تعداد میں ہر سال بھارت کا رُخ کرتے ہیں۔دونوں ملک معاشی طور پر ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر نہیں رہ سکتے۔ کشیدگی کے دنوں میں بھارت میں چینی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوگیا تھا اور کچھ چینی ایپلی کیشنوںپر پابندی لگادی گئی تھی۔ تاہم دونوں ملکوں نے باہمی تجارت جاری رکھی تھی۔ بھارت کے چین سے کشیدگی ختم کرنے کے معاہدہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھا رت نہیں چاہتا کہ امریکہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھائے اور وہ اس پراپنا انحصار بڑھاتا چلا جائے۔ وہ امریکہ کے مقابلہ میں اپنی خود مختاری قائم رکھنا چاہتا ہے۔ چین نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو عزت آبرو سے اس جھگڑے سے نکلنے میں مدد دی ہے جسکا مطلب ہے کہ چین کا بھی مقصد ہے کہ بھارت کو بالکل دیوار سے نہ لگا دیا جائے ۔ وہ بھارت سے اپنے معاشی اور تجارتی تعلقات کو فروغ کا خواہشمند ہے۔چین کی پالیسی بھی یہ نظر آتی ہے کہ بھارت سے دشمنی اتنی نہ بڑھائی جائے کہ امریکہ کو خطہ میں عمل دخل بڑھانے کا موقع مل جائے۔