میاں نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر کو میں طویل عرصے تک مرد معقول سمجھتا رہا‘ گفتگو اور مزاج دونوں میں توازن اور مخالفین کا احترام سے ذکر معقولیت کا پیمانہ ہے مگر گزشتہ روز موصوف نے میرے حسن ظن پر پہلی ضرب لگائی‘ ٹی وی پروگرام میں اپنے آپ کو تاریخ کا طالب علم قرار دیتے ہوئے جنرل(ر) غلام عمر کے صاحبزادے نے میاں نواز شریف کو حال کا آیت اللہ خمینی قرار دیا‘کہا کہ وہ لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں انقلابی جدوجہد کی قیادت کریں گے‘ مجھے علم نہیںکہ محمد زبیر عمر نے تاریخ کی کون سی کتاب پڑھی اور ایرانی انقلاب کے مختلف مراحل سے کس حد تک واقف ہیں؟یہ مگر ان کے بیان سے عیاں ہے کہ وہ آیت اللہ خمینی کی جدوجہد سے واقف نہیں ‘کچھ جانتے تو یہ درفنطنی نہ چھوڑتے۔ آیت اللہ خمینی نے شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کے خلاف جدوجہد قم کے حوزہ علمیہ سے شروع کی ۔شاہ ایران ان دنوں امریکہ و یورپ کی آنکھ کا تارہ تھا‘اس قدر طاقتور کہ خلاف زبان کھولنا اپنے آپ کو موت کے مُنہ میں دھکیلنے کے مترادف ‘آیت اللہ نے شاہ ایران کی آمرانہ پالیسیوں اور مذہب گریز اقدامات کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو مذہبی طبقے سے زیادہ ڈاکٹر علی شریعتی جیسے دانشوروں اور مہدی بارزگان مزاج کے سیاسی کارکنوں نے ان کا ساتھ دیا۔ اس وقت تک خمینی آیت اللہ تھے نہ ان کے نام کے ساتھ امام کا لاحقہ لگا تھا۔خمینی کی جدوجہد اس قدر جاندار ‘اثر انگیز اور مقبول تھی کہ شاہ نے انہیں ریاست کا باغی اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کر نہ صرف گرفتار کیا بلکہ عدالت سے سزائے موت دلوائی‘دوران مقدمہ آیت اللہ خمینی کو مختلف نوعیت کی پیشکشیں ہوتی رہیں‘ مگر اس مرد درویش نے ہر ترغیب اور دبائو کا جواب نفی میں دیا‘ ایران کے علماء نے سزائے موت سے بچانے کے لئے خمینی کو آیت اللہ کے منصب پر فائز کر دیا‘ تنگ آ کر ایرانی آمر نے آیت اللہ کو زبردستی جلا وطن کر دیا اور یوں وہ بغداد جا بیٹھے‘عراقی حکومت نے بھی انہیں اس وقت تک برداشت کیا جب تک ایران نے تعلقات توڑنے کی دھمکی دے کر انہیں بغداد بدر کرنے پر مجبور نہ کر دیا۔ جلا وطنی اور انقلابی جدوجہد کے دوران آیت اللہ خمینی کا ایک صاحبزادہ ساواک کے ہاتھوں موت سے ہمکنار ہوا۔ بغداد سے پیرس پہنچ کر آیت اللہ کی جدوجہد مزید زور پکڑ گئی اور حالات یہاں تک بگڑے کہ عوام کا غصّہ ٹھنڈا کرنے کے لئے شاہ ایران اقتدار شاہ پور بختیار کے حوالے کر کے بیرون ملک چلا گیا۔ خیال یہ تھا کہ شاہ پور بختیار جو بہتر سیاسی ساکھ کا حامل گردانا جاتا تھا ملکی صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب رہے گا مگر آیت اللہ خمینی نے شاہ پور بختیار کے اقتدار کو شہنشاہیت کا تسلسل قرار دے کر عوام کو جدوجہد جاری رکھنے کی تلقین کی اور خود تہران آنے کا فیصلہ کر لیا۔ شہنشاہ ایران کی جلا وطنی کے بعد عوام کی جدوجہد مزید زور پکڑ گئی‘ کاروبار زندگی معطل ہوا اور حکومتی رٹ مفقود۔شاہ پور بختیار نے اعلان کیا کہ اگر آیت اللہ خمینی نے ایران میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ان کے طیارے کو فضا میں میزائل مار کر بھسم کر دیا جائے گا۔ شاہ پور بختیار نے یہ بھی اعلان کیا کہ کوئی فضائی کمپنی آیت اللہ خمینی کو اپنے طیارے میں سوار کرنے کا رسک نہ لے۔آیت اللہ خمینی تہران کی کسی عدالت سے آٹھ ہفتے کی ضمانت اور پچاس روپے کے بیان حلفی پر بغرض علاج بغداد گیا تھا نہ شاہ ایران اور شاہ پور بختیار کی حکمرانی کے دوران آیت اللہ خمینی کا کوئی محمد زبیر ٹائپ نمائندہ حکومت اور فوجی قیادت سے درپردہ حصول مراعات کے لئے مذاکرات میں مصروف رہا۔کسی ایرانی عدالت نے ان کی پیشی کے لئے اخبارات میں اشتہارات چھپوانے کی ہدایت کی نہ انہیں اشتہاری اور مفرور قرار دینے کی قانونی کارروائی شروع ہوئی تھی۔ انہیں زبردستی ملک بدر کیا گیا اور وہ اپنی آزادانہ مرضی سے ایک جابر‘سفاک اور غیر قانونی حکومت کی دھمکیوں کے باوجود عوامی جدوجہد میں شمولیت کے لئے وطن واپس آنے پر مُصر تھے‘ شاہ پور بختیار کی دھمکی کے جواب میں آیت اللہ خمینی نے پیشگوئی کا بیان دیا اور کہا کہ جب میرا طیارہ ایرانی حدود میں داخل ہو گا‘ شاہ پور بختیار‘ شاہ کی طرح ملک سے فرار ہو چکا ہو گا۔ واقعی جب خمینی کا چارٹرڈ طیارہ ایرانی حدود میں داخل ہوا ‘ شاہ پور بختیار فوج اور سکیورٹی فورسز کو تہران کے ایئر پورٹ کے محاصرے کا حکم دے کر ملک سے فرار ہو رہا تھا‘ تہران ایئر پورٹ پر تعینات فوجی دستے اور ٹینک و توپ خانہ عوامی سیلاب کے سامنے سرنگوں ہوئے اور آیت اللہ اس دھج سے ایرانی سرزمین پر اُترا کہ شہر سے کم و بیش پچاس کلو میٹر دور ایئرپورٹ سے لے کردس مرلے کے آبائی گھر تک انسانوں کے سر تھے۔ خمینی کی گاڑی انہی سروں پر چل کر گھر تک پہنچی۔ کوئی استقبالی قافلہ ایئرپورٹ کا راستہ بھولا‘ نہ ایئر پورٹ پر کوئی سرکاری اہلکار وارنٹ گرفتاری لئے کھڑا تھااور نہ آیت اللہ کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت پیش آئی کہ میرے خاندان کا کوئی فرد‘ پارٹی کا کوئی رہنما اور وفادار کارکن کیوں نہیں آیا‘ آیت اللہ خمینی پر شاہ ایران نے بغاوت کا مقدمہ قائم کیا تھا‘ پھانسی کی سزا بھی دلوائی مگر زندگی بھر کبھی ایک پائی کی کرپشن کا الزام لگایا نہ خاندان کے کسی فرد پر بعدازاں خمینی کی قائدانہ حیثیت سے فائدہ اٹھا کر مالی منفعت کے حصول کا شک گزرا۔تاحیات قائد انقلاب کی حیثیت سے آیت اللہ دس مرلے کے گھر میں مقیم رہے۔ جہاں اُن سے دنیا بھر کے حکمران ملتے اور نصیحتیں سنتے۔ کسی امریکی اور یورپی اخبار میں ان کے خاندانی اثاثوں کے حوالے سے کوئی سکینڈل سامنے آیا نہ بیٹے احمد خمینی پر مالی کرپشن کا الزام لگا‘ ایک موقع پر بنی صدر نے احمد خمینی کو ترپ کے پتے پر استعمال کرنا چاہا۔ وزیر اعظم کے اُمیدوار کے طور پر نامزد کر دیا ‘ آیت اللہ نے فوراً یہ نام واپس لینے کی ہدایت کی اور کہا کہ میرا بیٹا ہونے کی وجہ سے احمد وزارت عظمیٰ کے منصب کا اہل نہیں۔ میاں نواز شریف کو اس ملک کے ’’باشعور عوام‘‘ نے تین بار وزیر اعظم کے منصب پر فائز کیا‘ ہر بار اسٹیبلشمنٹ سے لڑ کر وہ ایوان اقتدار سے نکلے اسیری اور رہائی کے درمیانی عرصے میں انہوں نے بیرونی دوستوں کا اثرورسوخ استعمال کیا‘2007ء اور 2018ء میں ان کی وطن واپسی پر ایئر پورٹ ان کے متوالوں کی دید کو ترستا رہا‘2018ء میں محمد زبیر کو بھی وہاں پہنچنے کی توفیق نہ ہوئی جبکہ لاہور کا جلوس مال روڈ کے اردگرد بھٹکتا رہا‘ ایئر پورٹ کا راستہ بھول گیا۔ آیت اللہ خمینی نے رضا شاہ سے دس سالہ جلا وطنی کا معاہدہ کیا نہ عراقی حکومت کی دعوت پر رضا کارانہ جلا وطنی اور بغداد کے کسی محل میں قیام کو ترجیح دی۔اُن کے حواریوں میں بھی کوئی روایتی لوٹا شامل تھا نہ مصلحت پسند و کم کوش دوکشتیوں کا سوارلیڈر۔ اپنے لیڈر کے بارے میں حسن ظن رکھناہر سیاسی کارکن کا حق ہے اور چاپلوسی ہماری سیاست کی دیرینہ روایت مگر میاں نواز شریف کو آیت اللہ خمینی قرار دینا‘ خود میاں صاحب سے ناانصافی ہے ‘انہیں ایسا کردار سونپنے کی سازش جس کا تصوّر کر کے ہی میاں صاحب کے پسینے چھوٹیں‘ پلیٹ لٹس گرنے لگیں۔ زبیر صاحب اور ان کے لیڈر نے خمینی کا نام ضرور سنا ہو گا‘ کردار سے واقف نہیں‘دلیر‘ دبنگ‘ درویش‘ مرد مجاہد خمینی کا نواز شریف سے موازنہ ؟چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔