2020ء کا سورج ڈوبنے کو ہے۔یہ سال انسانی آبادی پر بہت بھاری پڑا۔کورونا وباء نے زندگی کے اعتبار کو نحیف کیا۔یورپی ممالک اور امریکا جیسا طاقت ور ملک بھی اس وباء کے آگے ڈھ سے گئے۔اب کورونا کی دوسری قسم نے برطانیہ و دیگرممالک میں خوف پھیلا رکھا ہے۔کورونا کی دوسری قسم کے بارے بتایا جارہا ہے کہ اس میں انسانوں میں پھیلنے کی صلاحیت میں ستر فیصداضافہ ہو چکا ہے۔دسمبر میںامریکا اور برطانیہ سمیت کئی ملکوں میں ویکسین لگنے کا عمل بھی شروع ہو ا،دُنیا کے امیر ممالک ویکسین کی خریداری کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔جہاں تک مسلم ریاستوں کا معاملہ ہے تو انڈونیشیاء اور بعض دیگر مسلم معاشروں میں یہ بحث زورپکڑ چکی ہے کہ ویکسین حلا ل ہے یا حرام۔ماہِ اکتوبر میں انڈونیشیا ء کے سفارت کاروں اور علما پر مشتمل ایک وفد چین پہنچا تھا۔ سفارت کاروں کا مقصد انڈونیشیا کے شہریوں کے لیے کورونا کی ویکسین کی خریداری کے سودے کو حتمی شکل دینا تھا، لیکن وفد میں شامل علما کا مقصد کچھ اور ہی تھا، یعنی اس بات کو یقینی بنانا کہ چین میں تیار ہونے والی یہ ویکسین ’’حلال‘ ‘یا اسلامی قانون کے مطابق قابل استعمال ہے یا نہیں؟جب تک مسلم معاشرے اس بحث سے نکلیں گے اُس وقت تک یہ وبائی بیماری خدانخواستہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا چکی ہوگی۔دوسری طرف غریب ممالک کے عوام ،جن کا سب سے بڑا قصور ،پیدائش کا جبر بنا ہے ،پریشان ہیں کہ اُن تک ویکسین کب اور کیسے پہنچے گی؟غریب ممالک کی حکومتوں نے جتنا بجٹ ا س بیماری کے لیے مختص کیا ہے ،وہ بہت کم ہے۔وہاں کے عوام اپنی حکومتوں کی مالی حیثیت کی وجہ سے پریشان ہیں اور مایوس ہیں ،اس لیے اُن کی نظریں اوراُمیدیں دُنیا کے امیر ممالک اور بعض انسانی حقوق اور خیراتی اداروں پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ ویکسین کی عملداری یقینی بنائیں گے۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو فروری دوہزار بیس میں کورونا کا پہلا مریض کراچی میں سامنے آیا تھا۔اُس کے بعد یہاں بساط کے مطابق نمٹنے کی مساعی کی گئی ،حکومت سندھ نے زیادہ بہتر اور سنجیدہ حکمتِ عملی اپنائی ،وفاقی حکومت نے لاک ڈائون کی تو مخالفت کی مگر بعدازاں سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی اپنائی ۔فروری سے ماہِ جولائی تک کاروبارِ زندگی متاثر ہوا،لیکن جولائی تک پہنچتے پہنچتے ،کورونا وباء کا زور بھی ٹوٹتا محسوس ہوا۔پاکستان میں کورونا کے زیادہ مریض ماہِ مئی میں آئے تھے،یہ روزوں کے ایام تھے۔کورونا کی پہلی لہر نے سب سے بڑادھچکا صحت کے اداروں کو پہنچایا،علاوہ ازیں معاشی سرگرمیاں بھی محدود ہوئیں۔بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا اندیشہ پیدا ہوا۔کاروبار ٹھپ ہونے سے عام آدمی کار وزگار متاثرہوا۔حکومت نے بارہ ہزار فی خاندان امداد دی ،مگر یہ اُس نقصان کو پورانہ کرسکی ،جو وباء کرچکی تھی ،یا آنے والے لمحوں سے اِس نے مزید کرناتھا۔بعض کاروبار تو ایسے تھے جو کورونا لاک ڈائون کے دوران بند ہوئے ،پھر دوبارہ کھل نہ سکے۔اسی طرح ایسے افراد کی بھی کمی نہ تھی جو بے روزگار ہونے کے بعد دوبارہ روزگار سے جڑپاتے۔ وباء کی دوسری لہر نے انگڑائی لی تویہ وہ لمحہ تھا ،جب اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے پی ڈی ایم کے عنوان سے حکومت مخالف اتحاد تشکیل دیا،حکومت مخالف اتحاد کا مطلب ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو عوام کی ضرورت پڑگئی ہے۔سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ووٹرز اور حمایتیوں کے بل بوتے پر اتحاد تشکیل دیتے ہیں ،اتحاد بنانے کے پیچھے ،عوام کے مفاد اور حقوق کم ہی کارفرما ہوتے ہیں۔اس وقت عوام کو کیا چاہیے ؟اس پر کسی سیاسی جماعت نے سنجیدگی سے نہیں سوچا اور نہ کسی پلیٹ فارم سے آواز اُٹھائی۔کورونا وباء نے معاشی نقصان جس طبقے کو سب سے زیادہ پہنچایا ،سیاسی جماعتوں کو اُسی طبقے یعنی عوام کی ضرورت پڑگئی۔عوام نے جلسے جلوسوں میں شرکت کرنا شروع کردی،یہ خوف بالائے طاق رکھ کر کہ وہ بھیڑ کی جگہ پر وائرس کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔پی ڈی ایم کا احتجاج اب اگلے مرحلے میں داخل ہونے جارہا ہے ،یہ اگلا مرحلہ ،خوش اسلوبی سے اُس وقت ہی طے پائے گا،جب عوام کی بڑی تعداد ،سیاسی لیڈروں کی آواز پر دھرنا دینے سر کے بل آئے۔اُن کے لیڈر لاہور جلسے کے حوالے سے کافی نالاں ہیں۔مریم نواز نے لاہو رکے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے ذاتی طورپر بہت محنت کی ،مگر توقع سے ہٹ کر عوام نے مینارِ پاکستان کا رُخ نہ کیا۔لہٰذا اب عوام کے پاس ’’کوتاہی‘‘کی کوئی گنجائش نہیں ۔سیاست دانوں کو یہ بات آج تک سمجھ نہیں آرہی کہ عوام ہی کی بدولت اُن کے سیاسی وجود کی بقا ہے۔اگر عوام ووٹ نہ دیں تو یہ لیڈر پارلیمنٹ نہ پہنچ پائیں۔لیڈر کا مطلب ہی عوام کا اعتماد اور ساتھ کاہوتا ہے۔لیکن اس کے باوجود لیڈر عوام کے مسائل کو سمجھنے اور اُن کو حل کرنے کے لیے اُس طرح کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے ،جس سنجیدگی کا مظاہرہ عوام اُن کو ووٹ دیتے وقت اور جلسے جلسوں اور احتجاجوں میں شریک ہو کر دیتے ہیں ۔عوام موسم کی شدت سے نہیں گھبراتے اور نہ ہی پکڑ دھکڑ اور مارپیٹ سے ڈرتے ہیں ۔ کورونا وباء نے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ کیا۔پی ڈی ایم کی تحریک ،عوام کے مسائل حل کرنے کے خدوخال وضع کرنے میں تاحال ناکام ہے ،جہاں تک وزیرِ اعظم عمران خان کی بات ہے تو اُن سے عوام سے متعلق کوئی سوال کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ وہ سوال سے چڑ نہ جائیں یا کوئی سخت ردِعمل نہ دیں۔وہ پہلے ہی اس سوال کے جواب میں کہ عوام غربت اور مسائل سے تنگ آکر خودکشیاں کررہے ہیں ؟کہہ چکے ہیں …تو مَیں کیا کروں!وزیراعظم کے اس بیان کے بعد اِن سے کوئی سوال کرنے یا کسی نوع کی توقع باندھنے کا جوازنہیں رہتا۔