برصغیر پاک و ہند کی سیاسی تاریخ کا سب سے متنازعہ مگر تقسیم ِ ہند سے پہلے چار دہائی تک لاکھوں کشمیریوں پر راج کرنے والے شیخ محمد عبد اللہ کی سوانح ’’آتشِ چنار‘‘ کا پہلا باب جب کھولا تو ایسا لگا کہ ایک حیرت کدہ ہے ۔جس میں جا کر نکلنا اتنا آسان نہیں کہ کم و بیش سو برس کی تاریخ اس میں سمیٹی گئی ہے۔یہ تحریر لکھنے سے قبل کراچی کی شاہراہ پر موسلا دھار بارش میں جماعت اسلامی کی ریلی میں تھا۔یہ ریلی اس اعتبار سے متاثر کن تھی کہ سینکڑوں نہیں ہزاروں خواتین اپنے بچوں کے ساتھ کشمیر بنے گا پاکستان کے پر جوش نعروں سے کشمیر میں ہونے والی مزاحمت سے اپنی یک جہتی کا اظہار کر رہی تھیں۔اپنی طویل صحافت اور سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ایک عرصے بعد یہ منظر دیکھا ۔اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ سرینگر میں مسلسل کرفیوکے تیسویں دن میں داخل ہونے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ عالمی ضمیرخاص طور پر مغرب کے مین اسٹریم میڈیا کا ضمیر جس طرح جاگا ہے، اور جو کچھ اسکرینوں پر دکھایا جارہا ہے،وہ مودی سرکار کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بنتا جارہا ہے۔چالاک و مکار بھارتی حکمراں نریندر مودی کا یہ خیال تھا کہ عالم ِ اسلام کی بے ْحسی اور ان سے بے پناہ تجارتی روابط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے،اماراتی اور سعود ی بادشاہوں سے اعلیٰ ایورڈ سینے پر سجا کر تو پانچ اگست کے بعد ہونے والی کشمیریوں کی تاریخی بغاوت پر قابو پالیں گے۔مگر دِلّی کے سیاسی اور صحافتی پنڈت یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ آرٹیکل 370کی منسوخی مودی سرکار کے گلے کا پھندہ بن چکی ہے۔شیخ محمد عبداللہ کی سوانح ’’آتش ِ چنار‘‘ کا اگلا باب کھولنے سے پہلے بصد احترام خان صاحب کی حکومت اور وزارت ِ خارجہ کے بابوؤں سے درخواست ہے کہ حکومتوں کا کام ریلیاں نکالنا اور سرکاری ملازمین کے ساتھ قومی ترانے پڑھنا اور سننا نہیں۔ان کا اصل محاذ سفارت کاری میں بھارتی سورماؤں کو شکست دینا ہے۔پچاس سال بعد سلامتی کونسل کے محض ایک اجلاس کے منعقد ہونے پر بغلیں بہت بج چکیں۔ستمبر کے آخری ہفتے میں اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس تحریک ِ آزادیِ کشمیر کے لئے ٹرننگ پوائنٹ ہوسکتا ہے۔ 31دسمبر 1947کو جب مجاہدینِ کشمیر مظفر آباد سے گھنٹوں میں لائن آف کنٹرول کراس کرتے ہوئے سرینگر پر دستک دے رہے تھے تو یہ بھارت تھا اور اس کے بھی سحر انگیز وزیر اعظم جواہر لال نہرو جو بھاگم بھاگ اقوام متحدہ پہنچ گئے۔ اُس وقت ہمارے اقوام ِمتحدہ میں مستقل نمائندے سر ظفر اللہ خان جیسے بیرسٹر تھے۔شیخ عبداللہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جس وفد کے وہ رکن تھے ،وہ اقوام ِ عالم کے دباؤ کے سبب اس بات پر مجبور ہوگئے تھے کہ اقوام ِمتحدہ جنگ بندی کے لئے انہیں محفوظ راستہ دے۔مگر اُس وقت پاکستان اور اقوام ِ عالم نے بھارتی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ کشمیر کو ایک متنازعہ مسئلے کے طور پر تسلیم کرے ۔حکومت ِ ہند نے اقوام متحدہ میں جو خط لکھا اُس میں واضح طور پر یہ تسلیم کیا کہ کشمیرایک متنازعہ علاقہ ہے ۔اور اس کا فوری حل نکلنا چاہئے۔شیخ عبداللہ کی ’’آتشِ چنار‘‘کے صفحہ 323پر حکومت ِ ہند کی عالمی ادارے کے نام پر یہ تحریر محفوظ ہے: ’’ریاست جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے آزاد ہونگے ۔اور وہ فیصلہ جمہوریت کے مسلمہ طریقہ کار رائے شماری یا استصواب (Plebiscite or referendum)کے ذریعے عمل میں آئے گا۔جس کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لئے یہ اقدام بین ا لاقوامی نگرانی میں کیا جائے گا۔‘‘ شیخ عبداللہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستانی نمائندے سر ظفر اللہ خان نے بڑی ذہانت اور چالاکی کا مظاہرہ کر کے کشمیر کو ایک وسیع مسئلے کا روپ دے دیا۔اور ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے سارے پر آشوب پس منظر کو اس کے ساتھ جوڑ دیا۔ہندوستان پر لازم تھا کہ وہ اپنی شکایت کا دائرہ کشمیر تک ہی محدود رکھتا،لیکن وہ سر ظفر اللہ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گیا۔اور یوں یہ معاملہ طور پکڑ گیا۔شیخ عبداللہ لکھتے ہیں : ’’ ہم چلے تو تھے مستغیث بن کر،لیکن ایک ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑے کردئیے گئے۔‘‘ آج کے حکمرانوں کے لئے ،یہ کتنی سبق آموز بات ہے کہ آزادی کے صرف پانچ ماہ بعد جب وطن ِ عزیز چہا ر جانب سے بحرانوں میں گھرا تھا۔اُ س میں سفارتی محاذ پر اتنی بڑی کامیابی حاصل کی کہ بھارت سے الحاق پر دستخط کرنے والے شیخ محمد عبداللہ کو بھی یہ لکھنا پڑا کہ برطانیہ نے ہم سے بے وفائی کی۔لکھتے ہیں: ’’برطانیہ کی اس دیوانگی میں ایک پُر کاری کی ادا مضمر تھی۔وہ اگر پاکستان کا اس قدر حمایتی بن گیا تھا تو اُس کی ایک خالص تجارتی وجہ تھی۔نپولین نے انگریزوں کو دکانداروں کی قوم قرار دیا تھا اور یہاں پر وہ پھر اپنی نسلی جبلت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔مشرق ِ وسطیٰ میں عرب ممالک کا ایک بلاک ابھر رہا تھا۔جن کے پاس تیل کی وافر دولت تھی۔برطانیہ کا وزیر خارجہ پاکستان کو ایک مسلم ملک کی حیثیت سے عرب ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لئے ایک پُل کے طور پہ استعمال کرنا چاہتا تھا۔اور اسی لئے برطانیہ کا اقوام ِ متحدہ کا نمائندہ ہندوستان دشمنی میں پیش پیش تھا۔‘‘ ’’آتشِ چنار‘‘ سے باہر نکلنا چاہتا ہوں۔کہ شیخ محمد عبد اللہ جیسے پائے کے کشمیری قائد جواہر لال نہرو کے بھارتی وزیر اعظم ہوتے ہوئے،اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ نو زائدہ مملکتِ پاکستان کا اقوام ِ متحدہ میں نمائندے کے ہاتھوں کشمیر کے مسئلے پر ہمیں منہ کی کھانی پڑی۔(جاری ہے) اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی آنکھ بند ہوتے ہی اُ ن کے سارے کھوٹے سکّے متروکہ املاک کے قبضوں اور نئی مملکت میں اپنی آل اولاد کو اعلیٰ منصب پر بٹھانے میں جُت گئے۔غلام محمد جیسا خبط الحواس گورنر، انگریز کا ٹاؤٹ صدر اسکندر مرزا اور پھر سینڈرس کا تربیت یافتہ جنرل ایوب خان جیسا فوج کا سربراہ ہو تو پھر ایسے میںیتیم و لاچار کشمیریوں کو بھارتی تسلط میں تو جانا ہی تھا۔پوری پچاس کی دہائی میں اور پھر بعد کے برسوں میں بھی بھارتی حکمرانوں نے کشمیر کو اپنے زیر تسلط رکھنے کے لئے تقریبا ً تمام ہی اقوام ِ عالم کو اپنا ہمنوا بنالیا۔اور یہی سبب ہے کہ آج سلامتی کونسل بھی اگر پچاس سال بعد بیٹھتی بھی ہے تو لاکھوں کشمیریوں کی شہادت کا ایک قرار دادِ مذمت بھی پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے۔شیخ عبد اللہ نے جس برطانیہ کو ہندوستان دشمن ٹھہرایا تھا،آج سلامتی کونسل کے اجلاس میں جب کشمیر کی قرار داد آئی تو برطانیہ اس کی مخالفت میں سب سے آگے تھا۔ خان صاحب اپنے وزیر اعظم کا تو مجھے علم ہے ، وزارت خارجہ کے بابوؤں کے بارے میں کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتا ۔مگر لگتا یہی ہے کہ تاریخ کو طاق پر رکھ چکے ہیں ۔ورنہ 31دسمبر1947کی ایک قرار داد ہی بھارت کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اس کا پاس کرتے ہوئے رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے۔یوں بھی ایک لاکھ کشمیریوں کی شہادتیں کیا کم نہیں؟