دنیا میں وقوع پذیرکچھ اہم چیزوں پر ہم غورنہیںکرتے جب کہ ان میں کئی اسباق پنہاں ہوتے ہیں۔ علیٰ ہذاالقیاس فرانسیسی صدر عمانویل میکرون کے چہرے پر پڑا تھپڑ میں اقوام عالم اور اہل دانش کے لیے سبق ہے۔کیونکہ اس وقت پورے یورپ میں فرانس ہی وہ واحد ملک ہے کہ جس کا صدربلاخوف وترددکھل کراسلاموفوبیاکا شکار ہے اور مسلمانوںکی دل آزاری پرکمربستہ ہے۔لیکن 18جون2021ء جمعہ کوایک بار پھرایک دلچسپ معاملہ سامنے آیا وہ بھی ہمارے جلے ہوئے دلوں کوفرحت بخشتا ہے کہ جب اسلام کی توہین کرنے والے فرانسیسی صدر عمانویل میکروںکے لاسوم صوبے کے دورے کے دوران ایک بچے نے اسے ایک حیران کن سوال پوچھ کر فرانسیسی صدر کو نہ صرف حیران بلکہ شرمندہ کر دیا۔ بچے نے معصومانہ لہجے میں پوچھا کہ’’ جناب صدر ایک شہری سے تھپڑ کھانے کے بعد اب آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں ‘‘ ؟ میکرون خطے کے بوائس ڈی پکارڈی قصبے کے ایک اسکول کا دورہ کر رہے تھے تواس دوران ایک طالب علم نے ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر بات کرنے کے لیے اجازت طلب کرنے کی خاطر انگلی اٹھائی۔ اس نے پوچھا آپ تھپڑ کھانے کے بعد آپ کے مزاج کیسے ہیں؟ خیال رہے کہ8 جون2021ء منگل کو فرانسیسی صدر عمانویل میکروں کو ملک کے جنوب مشرق میں تائین ہرمیٹیج میونسپلٹی کے دورے کے دوران ایک شخص نے زناٹے دار تھپڑ مار دیا تھا۔ فرانس کے صدر میکرون کو تھپڑ مارنے والے شخص کوموقع پر ہی پکڑ لیا گیا اوراس کی شناخت 28 سالہ ڈیمن ٹیرل کے نام سے ہوئی جو قوم پرست دائیں بازو کے نظریات اور خیالات کا حامی ہے ۔گرفتاری کے بعد اسے کورٹ میں پیش کیاگیا جہاں اسے4 ماہ کی قیداور سرکاری ملازمت سے برخواست کرتے ہوئے اسے کسی قسم کے سرکاری عہدے کے لیے تا حیات نا اہل قرار دیا گیا اور پانچ سال تک کسی قسم کا اسلحہ رکھنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ لیکن میکرون پر حملہ آور ا گر مسلمان ہوتا تو دہشت گردی کے الزام میں موقع پر ہی پولیس اس کوگولیوں سے بھون ڈالتی اوردنیاکے تمام بڑے بڑے میڈیا چینل پراب تک مسلسل مسلمانوں کومطعون کرنے کی مہم جاری رکھے ہوتے۔ نام نہاد اظہار رائے کی آزادی کو ڈھال بناکرفرانس کے اندر اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت عروج پر ہے۔ 2020ء کوفرانس میں ایک سکول ٹیچرکو توہین آمیز خاکوں کی نمائش پرایک مسلمان سٹوڈنٹ نے قتل کردیا تھاجس کے بعد یہ کہتے ہوئے کہ اسلام اس وقت دنیا میں ایک بحران سے دوچار ہے، فرانسیسی صدر بنفس نفیس اکھاڑے میں اترے، اور اسلام کے خلاف بیانات دیتے رہے اوردارالحکومت کی تمام بڑی عماراتوں پر توہین آمیز خاکے چسپان کروا دیئے ۔ جس پر پورے عالم اسلام میں بے چینی پھیلی اور فرانسیسی صدرکے قبیح اورمہیب کردار کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے کوملا۔لیکن اس کے باوجود فرانسیسی صدر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے بدستورکوشاں ہیں۔ فرانسیسی صدر کی جانب سے فرانس میں مسلمانوں کے خلاف غیر معمولی حالات پیدا کئے گئے اورنام نہاد انتہاء پسندی سے مقابلے کا بہانہ بناکر کئی مساجد اور مراکز کو بند کردیاگیا اورمسلمانوں کے متعدد اجتماعات پر بھی پابندی لگادی گئی۔ اسے قبل 2019ء میں 2 مسلمانوں کو صرف اس لیے ہتک عزت کا مجرم قرار دے کر سزا دی گئی کیونکہ انہوں نے ایک ریلی کے دوران فرانسیسی صدر امانوئل میکرون کا پتلہ نذر آتش کیا تھا۔جبکہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کرنے کے لئے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر11 مسلمانوں کی سزا کوآزادی اظہار رائے کے حق کی پامالی قرار دیا تھا۔ فرانسیسی صدرکی ہدایات پر اس طرح کے ظالمانہ ،مسلمان دشمنانہ اورمسلم کش اقدامات پرعالمی تنظیم ایمنسٹی نے یہ کہتے ہوئے کہ فرانس کے آئین میں انتہا پسندی کی تعریف واضح نہیں ہے اس لیے مسلمانوں کے خلاف کریک ڈائون بلاجواز اورغیرقانونی ہے۔جون 2020ء کے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں(فرانس کے اندر) سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کو تعلیمی اداروں یا کام کی جگہوں پر مشکالات پر سخت تنقید کی تھی ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق فرانس میں پبلک سیکٹر کے اہلکاروں کی توہین کے حوالے سے ہزاروں افراد کو سزا دی جاتی ہے۔ فرانسیسی حکام اس قانون کی آڑ میںاپنے بے شمار پر امن مخالفین کی زبانیں بھی بند کروا دیتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں اس بات پرتعجب اور حیرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف فرانسیسی حکمراں اپنے متعلق اس قدر حساس ہیںاور دوسری طرف پیغمبر اسلام کی توہین آزادی اظہار رائے کے بہانے جائز قرار دیتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاکہ فرانس کا یہ دوغلاپن سمجھ سے بالاترہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2020ء میں فرانسیسی ٹیچرکے قتل کے کچھ دنوں کے بعد فرانس نے انتہاء پسندی اورقومی سلامتی کے خطرے کا بہانہ تراشا اور کم ازکم231 مسلمانوںکو ملک بدر کر دیا ۔ اس رپورٹ میں تاکید کی گئی ہے کہ آزادی اظہار رائے کی حمایت پر مبنی فرانسیسی حکومت کے بیانات شرمناک منافقانہ رویے کو ظاہر کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ فرانس میں آزادی اگر تمام فریقوں کو برابر میسرنہ ہو تو وہ بے معنیٰ ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فرانس میں اسلاموفوبیا کی مخالف تنظیم کے اجتماعات پر پابندی کی دھمکی غلط ہے کیونکہ یہ تنظیم فرانس کے اندر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ اس کے برخلاف فرانسیسی وزیر داخلہ نے بلا ثبوت کے یہ دعوی کر دیا ہے اس تنظیم کے اجتماعات جمہوریت دشمن اور دہشتگردی کی راہ ہموارکرتے ہیں۔