پچھلے ہفتے اسلام آباد میں پولیس چیک پوسٹ پر ہونے والا حملہ خطرناک حد تک افسوس ناک ہے، اچھی بات یہ ہے کہ سکیورٹی فراہم کرنے والے اداروں نے اس واقعہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کارروائی شروع کر دی ہے۔ اسی طرح کی سنجیدگی اور مہارت لاہور میں ہونے والی دہشت گردی کی تحقیقات میں دکھانے کی ضرورت ہے۔ ان دونوں واقعات کے تانے بانے کہیں نہ کہیں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے جا ملتے ہیں۔ لیکن حکومت ہے کہ ان سے بات کرنے پر بضد ہے۔ اب تک کئی بار حکومت ان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھانے کے ساتھ ساتھ افغان حکومت سے اس سلسلے میں معاونت کی درخواست بھی کر چکی ہے۔ حال ہی میں وزیر داخلہ شیخ رشید نے عندیہ دیا ہے کہ اس کوشش میں اضافہ تو ہو سکتا ہے کمی نہیں آ سکتی۔ اسلام آباد راولپنڈی کافی عرصے سے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا شکار ہے۔ پچھلے دو برسوں میں ٹی ٹی پی اور اس کے دوسرے دھڑوں نے پنڈی اور اسلام آباد میں 11 دہشت گردی کی وارداتیں کیں۔ ان کارروائیوں میں 13 سکیورٹی اہلکار، جن میں بڑی تعداد پولیس آفیسرز کی تھی، جاں بحق ہوئے۔ حالیہ واردات کا ٹارگٹ بھی پولیس ہی تھی۔ ان تمام واقعات میں تشویشناک بات یہ ہے کہ پہلے ٹی ٹی پی کا دارئرہ اختیار اسلام آباد کے نواحی علاقوں تک محدود تھا لیکن اب اس نے اپنے پنجے اسلام آباد شہر میں گاڑ لیے ہیں۔ حالیہ تمام وارداتیں دارالحکومت کی مصروف شاہراوں پر ہوئیں۔ اگر حالات اسی سمت پر چلتے رہے تو بعید نہیں کہ ایک بار پھر اسلام آباد میں چیک پوسٹیں اورپولیس رکاوٹیں جگہ جگہ نظر آنے لگیں۔ اسلام آباد ایک حساس شہر ہے یہاں کسی قسم کی بھی لا پروائی پاکستان کے لیے بین الاقوامی شرمندگی اور تنہائی کا باعث بن سکتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ افغان حکومت کے کچھ اکابرین اس کوشش میں ہیں کہ ٹی ٹی پی کی نقل و حرکت اور اسلحہ کی ترسیل پر پابندی لگادی جائے۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں ہر روز ایک نئی قوت کے ساتھ دن کا آغاز کرتی ہے۔ اسی سے جڑی ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ روابط قائم کرنے کے لیے پاکستان نے قبائلی جرگے کی خدمات حاصل کرنے کی درخواست دے رکھی ہے۔ بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ ایسی تنظیم جو پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے اس سے مفاہمت کی ایسی کیا مجبوری ہے۔ کچھ تجزیہ کار مفاہمت کی اس کوشش کو پاکستان کی حکمت عملی بیان کر رہے ہیں تاکہ ٹی ٹی پی کی صفوں میں دراڑ ڈالی جا سکے۔ لیکن یہ کوشش الٹی بھی پڑ سکتی ہے جس کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی۔ بہر حال ٹٰی ٹی پی کے ترجمان مفتی خالد بلتی کی ہلاکت کے بعد عدم اعتماد کی جو خلیج دونوں فریقین کے درمیان پیدا ہوئی ہے اس کے بعد ٹی ٹی پی کو مکمل طور ختم کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ بلکہ آنے والے وقتوں میں دہشت گردی میں اضافے کا خدشہ ہے۔ دوسری طرف ممکن ہے کہ افغان حکومت بھی پاکستان کو ٹٰی ٹی پی کے معاملے میں سواے بہلاوے کے اور کچھ نہ دے سکے۔ ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کی کڑیاں کہیں نہ کہیں جا کر ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں۔ دونوں جماعتیں خطے میں اسلامی ریاست کے قیام کی قائل ہیں۔ نومبر2021 میں ہونے والے سیز فائر کے خاتمے پر بھی افغان طالبان کی طرف سے کسی قسم کا رد عمل سامنے نہیں آیا۔ حالانکہ سیز فائر ان کے ایما پر ہوئی تھی۔ پاکستان کے حساس اور سکیورٹی کے اداروں کو انتہائی مہارت کے ساتھ ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ ٹی ٹی پی اور خطے میں موجود دوسری دہشت گرد تنظیمیں، جیسے کہ القاعدہ اور مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، باہم مربوط ہیں۔ سی این این کی ایک رپورٹ میں القاعدہ کے دو سہولت کاروں کے انٹرویو کے مطابق القاعدہ نے امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد خطے میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس تنظیم کاری میں ٹی ٹی پی کا ان کی مدد کرنا اچنبھے کی بات نہ ہوگی۔ اس صورت حال میں سی پیک کے تحت چلنے والے منصوبے بھی دہشت گردی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ایسا کوئی بھی حادثہ پاک چین دوستی کے لیے اچھا ثابت نہ ہوگا۔ 2021 میں ٹی ٹی پی پاکستان میں 87 دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائی گئی۔ یہ واقعات 2020 میں کئے گئے حملوں سے 84 فیصد زیادہ تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان پر کئے گئے 14 حملوں میں سے 12 کی تیاری افغانستان کی سر زمین پر کی گئی۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو ٹی ٹی پی کی موجودگی نہ صرف سابق فاٹا بلکہ بلوچستان اور اسلام آباد تک آ پہنچی ہے۔ ایسے موقع پر جبکہ افغانستان اپنی سیاسی اور معاشی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے اور ہر طرف افغان طالبان کو امن معاہدے کی شرائط سے انحراف کرنے پر ملامت کی جارہی ہے، انکا ٹی ٹی پی پر اثر انداز ہونا اور پاکستان کے ساتھ مصالحت پر تیار ہونا مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا ہے۔ افغان طالبان تو پاکستان کی حکمت عملی پر عمل کرنے کو تیار نہیں ایسے میں ٹی ٹی پی پر دباو ڈالنا کیونکر ممکن ہے۔ یہ بات درست ہے کہ آخر ہر لڑائی کا حل بات چیت ہی سے نکلتا ہے، لیکن اس وقت ٹی ٹی پی سے بات کرنے پر اصرار خطے کی دوسری دہشت گرد تنظیموں کو تقویت فراہم کر سکتا ہے۔ داعش کا خراساں گروپکافی متحرک نظر آ رہا ہے۔ پچلے سال اس تنظیم نے ہزارہ کمیونٹی اور مختلف سیاسی و مذہبی اکابرین پر بلوچستان اور کے پی میں حملے بھی کئے۔ اس تنظیم کے بہت سے کارکن پنجاب اور سندھ سے پکڑے جاچکے ہیں۔ پاکستان کو ٹی ٹی پی کے حوالے سے ایک مربوط اور نئی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ بروقت لیے گئے فیصلے بہت سی قیمتی جانوں اور ملک کی سالمیت کو بچا سکتے ہیں۔