مجھے کل پتہ چلا کہ پاکستان پہنچنے والا’’کورونا‘‘ کتنا جمہورئت پسند ہے اس انکشاف کے بعد تو مجھے کورونا سے کچھ انسیت سی ہونے لگی ہے اس کا رعب دبدبہ اپنی جگہ لیکن دل میں جمہوریت پسند کورونا کے لئے احترام کے جذبات محسوس کرنے لگا ہوں اور مجھے اسکا اعتراف کرنے میں بالکل بھی نہیں ہچکچانا چاہئے ۔دنیا پر بھلے سے کورونا نے قہرڈھایاہوبلا کسی تفریق کے کشتوں کے پشتے لگائے ہوں کیا امریکہ اور کیا اٹلی کیاہندوستان اور کیا انگلستان ۔۔۔ کورونا نے ’’وردی‘‘ کا خیال کیا نہ ’’تھری پیس ‘‘کا اس نے بیوروکریٹ چھوڑے نہ وزیر مشیر ،کاروبار زندگی الٹ پلٹ کر رکھ دیااعداد و شمار سے الجھے رہنے والے ماہر معیشت سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ کورونا سے عالمی معیشت کو آٹھ اعشاریہ آٹھ ٹریلین ڈالر کا نقصان اور غریبوں کی صف میں پچاس کروڑ افراد کا اضافہ ہواہے چودہ ملین افراد کاجان کی بازی ہاردینا الگ ہے اس وقت انگلستان کی آبادی چھ کروڑ سا ت لاکھ سے زائد ہے یعنی اس کورونا نے غریبوں کے سات انگلستان بسا دیئے ہیںاس کے باوجود اس سفاک کورونا نے پاکستان کا بہت لحاظ کیا ہے ہم نے کورونا میںکیا احتیاط کی یہ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی ،ہمارے ٹیسٹوں کے نتائج کتنے قابل اعتبار ہیں یا نہیں اس سے قطع نظربائیس کروڑ کی آبادی میں سے ہم نے صرف باون لاکھ ٹیسٹ کئے ۔۔۔سیدھی سیدھی بات ہے یہاں کورونا کے لئے راستہ صاف تھا پھر بھی کورونا نے ہم پر ہاتھ ہلکا رکھا ۔ اب دیکھ لیں ناں گلگت بلتستان میں الیکشن ہوئے ،وہاں اچھی خاصی سردی ہے اور کہتے ہیں کہ کورونا ٹھنڈے موسم میں بغلیں بجاتا ہے ایک تو ٹھنڈا موسم اور اوپر سے لوگوں کا جم غفیر ۔۔۔ کورونا کی تو موجیں لگ گئیں ،ادھر سے بلاول بھٹو زرداری نے جہاز پکڑا اور گلگت پہنچ گئے ،دوسری طرف سے مریم نواز نے اپنے وارڈروب میں سے بہترین گرم ملبوسات لئے اور اڑن کھٹولے سے سیدھا اسکردو اتر گئیں جیالوں اور متوالوں کی موجودگی کیا کم تھی کہ کپتان نے بھی اپنی کابینہ کے ’’بیربل‘‘ وزیر علی امین گنڈہ پور اور زلفی بخاری کو گلگت پہنچنے کا حکم دے دیا ۔جے یوآئی او ر جماعت اسلامی والے بھی آستینیں چڑھا کر گلگت بلتستان میں موجود تھے روز جلسے جلوس یہاں نعرے بازی وہاں تنظیم سازی ۔۔۔ میں نے گلگت بلتستان انتخابات کی پوری مہم دیکھی تمام جماعتوں نے کم و بیش پچاس سے زائد بڑے اجتماعات کئے جن میں سماجی فاصلوں کا اتنا ہی خیال رکھا گیا تھاجتنا شادی بیاہ میں کھانا کھاتے ہوئے ساتھ والے کا رکھا جاتا ہے ،رش اس قدر تھا کہ بندے پر بندہ چڑھا ملتا،سیاسی گہما گہمی نے سماجی فاصلوں کی تلقین سڑک پر بچھا کر رولر پھیر دیا یہ ساری صورتحال کورونا کے لئے کسی حسین خواب سے کم نہ تھی وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ پاکستان میں اس سے ایسا دوستانہ سلوک ہوگا اس سے پہلے تو وہ جہاں جہاں گیا تھا اس کے ساتھ چھوت چھات والا سلوک روا رکھا گیا ۔پاکستانیوں نے اس کا آگے بڑھ کر استقبال کیاتھا ،گلگت بلتستان کے ان انتخابات میں کورونا نے کیا کیا چاند چڑھائے کسی کو خبر نہیں لیکن سب سے اہم یہ کہ حکومت نے بھی ان چاندوں کے چڑھنے پر کوئی مزاحمت نہیں کی اسکی وجہ اسکے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ حکومت کے عالی دماغ مشیروں کو’’کورونا ‘‘ کی جمہورئت پسندی کی خبر تھی انہیں یقینی طور پر کسی نے پکی مخبری کررکھی تھی کہ کورونا کے جینز میں جمہوریت شامل ہے اس کے سوا کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن ،اسمارٹ لاک ڈاؤن کے بعد گلگت بلتستان میں ہینڈسم لاک ڈاؤن لاگو نہ کیا ؟ گلگت بلتستان کے الیکشن کے بعد حکومت کی مشاورتی ٹیم میں شامل اس دور کے بیربلوں نے کپتان سے دست بستہ عرض کیا حضور والا ! الیکشن ہونے تھے ہوچکے وہاںمعاملہ جمہوریت کا تھا ،انتخابات کا تھا، خیر سے ہم نے میدان بھی مار لیا لیکن اب کورونا کی دوسری لہر آرہی ہے کچھ کر لینا چاہئے،اپوزیشن کی تحریک بھی کنٹرول ہوجائے گی ، کورونا نے گلگت میں تو کسی کو کچھ نہیں کہا لیکن یہاں شائدرعائت نہ دیگا اس لئے’’مشتری ہشیار باش۔۔۔!‘‘ وزیر اعظم نے اس تنبیہہ پر اپنے نابغہ ء روزگار مشیروں کو سر جوڑنے کے لئے کہا کہ کورونا کے واروں سے بچنے کی تدبیر کی جائے ؟ کپتان کے یہ بیربل اسلام آباد میں بیٹھک لگا کر بیٹھ گئے اور پھر وفاقی وزیر تعلیم شفقت صاحب چھٹیوں کے دلدادہ طالب علموں کے لئے سراپا شفقت بن گئے ۔ یہ سب ہنسی مذاق ایک طرف مجھے بتایاجائے کہ جو کورونا جلسے جلوسوں میں ایک فرد سے دوسرے تک نہیں پہنچتا لاکھوں کے جنازے میں اسکے پھیلنے کے امکانات نہیں ہوتے لاری اڈوں میں یہ مسافروںکی صورت میں راولپنڈی سے بنوں سفر نہیں کرسکتاوہ سکولوں کالجوں یونیوسٹیوں کو ہی ٹارگٹ کیوں کرے گا؟ جس اسلام آباد میں بیٹھ کر ملک بھر کے سکول کالج یونی ورسٹیاں کم و بیش ایک ماہ کے لئے بند کرنے کا اعلان کیا ہے وہاں مسافروں سے بھری کھچا کھچ میٹروبلا روک ٹوک چل رہی ہے صرف اس ایک میٹرو سے یومیہ سوا لاکھ مسافر جڑواں شہروں میں سفر کرتے ہیں یعنی دس دن میں ساڑھے بارہ لاکھ مسافر یہاں سے وہاں آتے جاتے ہیں ان میں کتنے کورونا سے متاثر ہوتے ہیںاور اسے پھیلاتے چلے جاتے ہیں خدا ہی کوخبرہے؟ پھر عدالتیں کھلی ہوئی ہیں،شادی ہالز والوں کو حفاظتی اقدامات کے ساتھ تقریبات کی اجازت دے دی گئی ہے ،بازار،مارکیٹیں کھلے ہوئی ہیں،ریل گاڑیاں لاریاں بسیں چل رہی ہیں صرف تعلیمی اداروں پر ہی یہ خصوصی مہربانی کیوں ؟ چھٹیوں سے بہتر نہیں کہ سکولوں کالجوں ،جامعات میں ٹائیگر فورس تعینات کرکے حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا جائے،سکولوںمیں تقسیم کے لئے انہیں ماسک دستانے دیئے جاسکتے ہیں ، ان کے پہننے اور حفاظتی تدابیر پر چیک رکھا جا سکتاہے تعلیمی اداروں میں حاضری کم رکھنے کے لئے ایک دن ناغہ کیا جاسکتا ہے چھٹیوں کے سوا بھی بہت کچھ بہت کچھ ہوسکتا ہے لیکن نہیں ہورہا ۔خدا کے لئے اپنے تعلیمی نظام کو اپنے ہاتھوں تباہ نہ کریں جب وزیر اعظم خود کہتے ہیں کہ ہمیں کوروناکے ساتھ رہنا ہے مقابلہ کرنا ہے تو زرہ بکتر پہن کر میدان میں رکیں پتلی گلی سے بھاگنا کیسا!