بدقسمتی سے کچھ فرسودہ روایات پاکستانی ثقافت میں جڑیں مضبوط کرچکی ہیں۔ ان میں سے ایک غیرت کے نام پر قتل بھی ہے جس سے جان چھڑانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اس ناسور کی نہ تو کوئی مذہبی حیثیت ہے نہ اخلاقی و سماجی ، مگر پھر بھی یہ ایک سنگین ملکی بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔ جب بھی غیرت کے نام پر قتل کی بات کی جائے تو ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہیں کہ آخر غیرت ہے کیا؟ غیرت کی انتہا کیا ہے؟ ہمارے ہاں ’’غیرت‘‘ مصنوعی تصور بن چکا ہے، جسے ہمیشہ عورت یا کمزور کیلئے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پرقتل کامعاملہ سال ہا سال سے چلا آرہا ہے۔میڈیا میں تبصرے اور تجزیئے بھی ہوتے رہتے ہیں،سماجی تنظیمیں، سول سوسائٹی اورمعاشرے کے دیگرطبقات بھی غیرت کے نام پرقتل کیخلاف اپنی آوازبلندکرتے رہتے ہیں۔ سیاستدانوں اورحکمرانوں نے ملک میں اس کے خاتمہ کے اعلانات کیے لیکن یہ مسئلہ جوں کاتوں موجودہے۔ خاندانی عزت و ناموس اورناجائز تعلقات کے الزام ، مرضی کی شادی کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے،مرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے۔ غیرت کے نام پرقتل جیسی فرسودہ رسومات اور روایات کااسلام اورہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس برائی کاخاتمہ ہوناچاہیے۔اس برائی کوختم کرنے کیلئے ہمیں اس کے اسباب اوروجوہات پربھی غور کرنا ہوگا۔غیرت کے نام پرقتل کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اسباب اوروجوہات کوبھی ختم کیاجائے۔ایک پہلوپرزوردینااوردوسرے پہلوکونظراندازکرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ غیرت کے مسئلہ کو مثبت یا منفی رخ تعلیم، تربیت اور ماحول کی وجہ سے ملتا ہے اور غیرت کے نام پر قتل تعلیم و تربیت سے زیادہ ماحول کا نتیجہ ہے۔ماحول کی بہتری میں مثبت کردار ادا کرنے اور اپنے احتساب کی بجائے ہر کوئی اس خرابی کا ذمہ دار میڈیا اور فحاشی کو قرار دیتا ہے جبکہ غیرت کے نام پر قتل کی وجوہات اور اسباب میں اہم وجہ پسند کی شادی بھی ہے۔ محبت اور من پسند شادی کے خواہشمند جوڑوں کو اول روز سے ہی شدید مخالفت اور مصائب کا سامنا رہا ہے۔ اسلام میں پردے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اس کے باوجود شادی جیسے اہم معاملے میں نرمی کا رویہ روا رکھا گیا ہے ۔اس ضمن میںپیارے نبیﷺ کی حدیث کے مطابق جس سے آپ پختہ نکاح کا ارداہ رکھتے ہوں اُسے ایک نظر ضرور دیکھ لینا چاہیے۔حدیث نبویﷺ میں ناصرف نکاح کا پختہ ارادہ رکھنے کی صورت میں ایک نظر دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے بلکہ تاکید کی گئی ہے کہ جس کے ساتھ آپ ساری زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کررہے ہیں اسے ضرور دیکھ لیں ۔ اپنی اولاد کی خوشی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ضروری چھان بین کے بعد بخوشی شادی کردینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔بالغ افراد کو مرضی کی شادی کاقانونی اور اسلامی حق حاصل ہے اوروالدین کابھی اخلاقی فرض ہے کہ اپنی ذاتی انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے اس بنیادی انسانی حق کا احترام کریں۔ اسلام نے نکاح میں مردوعورت کو پسند اور ناپسند کااختیار دیا ہے اور بالغ عورت سے بغیر اس کی اجازت کے نکاح کرنے سے منع کیا ہے۔ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا، اس نے آپﷺ سے عرض کیا تو حضورﷺ نے اس کا نکاح فسخ کر دیا۔ اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ عورت کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی اس کا نکاح کیا جائے اورکوئی شخص خواہ وہ باپ ہی کیوں نہ ہو زبردستی اسے نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا اگر وہ زبردستی نکاح کر بھی دے تو وہ اس کی اجازت پر موقوف رہے گا، اور اگر وہ نامنطور کردے تو باطل ہوجاتا ہے، اس کے اموال میں کسی مرد کو بغیر اس کی رضا واجازت کے کسی تصرف کا کوئی حق نہیں۔شریعت نے مردو عورت کو پسند اور ناپسند کا پورا اختیار دیا اور اولیا ء کو جبروسختی سے کام لینے سے منع کیا اور دوسری طرف مردو عورت کو بھی ترغیب دی کہ وہ والدین کو اعتماد میں لے کر ہی قدم اٹھائیں۔معاشرے میں پسند کی شادی اور اس کے نتیجے میں خون ریز واقعات کی روک تھام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ غیرت کے نام پرقتل کی اہم وجہ اور سنگین صورت ناجائز تعلقات کا شبہ ہوتا ہے، فعل بدکے الزام میں لوگ اشتعال میں آجاتے ہیں اوراس گناہ کے شک پرمردیاخاتون یادونوں کوقتل کر دیتے ہیں،بلا شبہ اس فعل کی اجازت نہ تو اسلام میں ہے اور نہ ہی کسی مہذب معاشرے میں۔یہ سب ہم کبھی غیرت کے نام پر تو کبھی بے حیائی کے الزام میں کرتے ہیں، مگر حقیقت میں ہمارے اندر نہ غیرت کی رتی ہے اور نہ ہی حیا کا کوئی ذرہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی کو بھی از خود سزا دینے کا حق حاصل نہیںہے اور شرعی عدالت کے ذریعے بھی اس انتہائی سزا پر عملدرآمد تبھی ممکن ہے جب چار عینی شاہدین موجود ہوں۔ ہرایک یہی کہتا ہے کہ غیرت کے نام پرقتل کاخاتمہ ہوناچاہیے اوراس سلسلہ میں تمام ترذمہ داری قاتل پرڈال دی جاتی ہے۔جبکہ اس کی اصل وجہ اخلاقی و معاشرتی اقدار سے لاعلمی، تعلیم سے دوری اور فرسودہ رسوم ہیں ۔جس میں ذات پات، اونچ نیچ جیسی شرائط اور منفی سوچ نے معاشرے کو طبقات میں تقسیم کیاہوا ہے ۔ ان وجوہات کا جائزہ لیا جائے جن کی وجہ سے غیرت جیسے پاکیزہ جذبے کی افراطی شکل ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہے۔ ان اسباب و عوامل کی شناخت کے بعد غیرت کے افراطی پہلووَں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اوراس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حقیقی معنوں میں ہم انا اور شک کی بھٹی میں جل کر غیرت کے نام پرغیرت کا قتل کررہے ہیں۔