جناب یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائی جاچکی۔جج کے ساتھ آخری مکالمے نے انہیں عمر مختار، بھگت سنگھ اورنیلسن منڈیلا جیسے آزادی پسندوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ جج کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: میں کوئی بھیک نہیں مانگوں گا لیکن مجھے بتایا جائے کہ اگر میں دہشت گرد تھا تو بھارت کے وزرائے اعظم مجھ سے ملاقاتیں کیوں کرتے رہے؟ اگرچہ جج نے ان کی سنی ان سنی کردی لیکن حریت اور آزادی کی تاریخ میں یہ چند جملے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ یاسین ملک کا شمار کشمیر کی آزادی کا خواب دیکھنے اور اسے شرمندہ تعبیر کرنے کی خاطر جان ومال کی قربانی دینے والے اوّلین نوجوانوں میں ہوتاہے۔ انہوں نے اسی کی دہائی میں بطور سیاسی کارکن کے وادی کشمیر کی سیاست میں سرگرم حصہ لیا۔ بعدازاں عسکری تحریک کے سرخیل بن گئے۔ جیل سے لوٹے تو پرامن سیاسی جدوجہد کی راہ اختیار کی۔ کشمیر کی تحریک کے بکھرے ہوئے گروہوں کے مابین اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کی خاطر جوائنٹ ریزسٹنس فرنٹ (جے آر ایف)کے نام سے ایک فورم قائم کیا ۔جس کے پرچم تلے سیّدعلی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے مشترکہ طور پر سیاسی سرگرمیوں منظم کیں۔ برہان وانی کی شہادت کے مابعد دنیا کی تاریخ کی لمبی ترین ہڑتال کشمیر میں ہوئی۔سیّدعلی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے اس دوران اتحاد اور یکجہتی کی فضا کو قائم کیے رکھا۔بھارت کا پارلیمانی وفد سری نگر آیا لیکن کشمیری لیڈروں نے گھروں کے دروازے بند کردیئے۔بھارت کو یاسین ملک کی یہ ساری سرگرمیاں بہت ناگوار گزریں۔ یاسین ملک پر مقدمات تو نوے کی دہائی سے قائم تھے لیکن انہیں سیاسی سرگرمیوں کا موقع دیا جاتارہا۔یوں کہیے کہ برداشت کیا جاتارہا لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی سخت گیر پالیسیوں نے منظر ہی بدل دیا۔کانگریس کی لچک دار پالیسی کے برعکس کشمیر پر ڈنڈا بردار پہرے دار بیٹھادیئے گئے۔بتدریج بولی کی جگہ گولی نے لے لی۔رفتہ رفتہ آزادی نوازشخصیات کو پابندسلاسل کر دیا گیا۔ سیاسی آزادیاں کا دور لد گیا۔ میڈیا کو سرکاری پابندیوں نے جکڑلیا۔حتیٰ کہ انسانی حقوق کے علمبردار اور سینئر صحافیوں کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا گیا۔ یاسین ملک بھی بھارت کی نئی اور سخت گیر پالیسی کا شکا رہوگئے۔چونکہ وہ مقبول اور متحرک تھے لہٰذا انہیں پہلا نشانہ بنایاگیا۔یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر تجربہ کامیاب ہوا۔ دنیا نے اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا تو اگلے مرحلے میں شبیر شاہ، محترمہ آسیہ اندرابی، مسرت عالم، نعیم خان سمیت درجنوں دیگر سیاسی رہنماؤں کو بھی یا تو سولی پر لٹکادیا جائے گا یا عمر قید بھگتنا ہوگی۔ بنگلہ دیش میں وزیراعظم حسینہ واجد نے جماعت اسلامی اور دیگر پاکستان نواز شخصیات کو عدالتوں کے ذریعے پچاس سال پرانے مقدمات میں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا۔دنیا نے حسینہ واجدکا کیا بگاڑ لیا جو نریندرمود ی کا بگاڑے گی۔ یاسین ملک کو بچانے کے لیے ہمہ پہلو حکمت عملی کی ضرور ت ہے۔حکومت پاکستان کو اس حوالے سے قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔بھارتی قوانین پر عبور رکھنے والے قانون دان یاسین ملک کے خلاف آنے والے عدالتی فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کریں۔یاسین ملک کے خاندان خاص طور پر جو سری نگر میں موجود ہیں،انہیں اہم رول ادا کرنا ہوگا۔یاسین ملک کی اہلیہ محترمہ مشعال ملک اور ان کی صاحبزادی اسلام آباد میں موجود ہیں۔وہ پاکستانی شہری ہیں۔قانونی ماہرین ہی بتاسکتے ہیں کہ کیا اس بنیاد پر پاکستان عالمی عدالت انصاف میں جاسکتاہے تاکہ یاسین ملک کو ریلیف یا رہائی مل سکے۔یا کم ازکم فیئر ٹرائل مل سکے جیسے کہ کل بھوشن یادیو کے کیس میںہوا۔مشعال ملک ایک بہادر اور تحریک آزادی سے گہری محبت رکھنے والی شخصیت ہیں۔ عالمی سطح پر یاسین ملک کی رہائی کی کوششوں کو تیز تر کیا جائے۔بھارتی حکومت اور بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی کو مغرب میں اپنے امیج کی بہت فکر ہے۔امریکی ایوانوں،میڈیا یا پھر انسانی حقوق کے علمبرداروں کی طرف سے اٹھنے والی آوازیں بھارتی حکومت کو متاثر کرسکتی ہیں۔امریکی کانگریس، سینیٹ،میڈیا،تھینک ٹینکس،انسانی حقوق کے اداروں میں یاسین ملک کے حوالے سے گفتگو ہونی چاہیے۔ برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک میں لابی کرنا بھی ضروری ہے۔ان ممالک کی پارلیمنٹس اور دیگر اداروں میں یاسین ملک کی حیات اور خدمات پر گفتگو ہونی چاہیے۔دنیا کو بتایاجانا چاہیے کہ یاسین ملک نے پرامن جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اس کے باوجود ان کا یہ انجام ہوا۔یاسین ملک کو دنیا میں آزادی کی جدوجہد کرنے والے ایک ہیرو کے طور پر متعارف کرایاجائے۔ انہیں آزادی کے برینڈ کے طورپر متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ مغربی دنیا میں ان کا تعارف ایسی شخصیت کے طور پر کرایاجانا چاہیے جو بہادر ہے۔ اپنی قوم سے محبت کرتاہے اور آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے عمر قید کی سزا بھگت رہاہے۔ بھارت کے اندر بھی یاسین ملک سے ہمدردی رکھنے والوں کی کمی نہیں۔انہیں متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یاسین ملک کو طویل عرصے سے جانتے ہیں اور انہیں احساس ہے کہ مودی کی سخت گیر پالیسیوں سے کشمیریوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں اور نہ تنازعہ کشمیر سے صرف نظر ممکن ہے۔بھارت میں انسانی حقو ق کے علمبرداروں کی بھی ایک بڑی تعداد ایسی پائی جاتی ہے جو اس فیصلے کو ناپسندیدگی سے دیکھتی ہے لیکن موجودہ فضا میں بول کر جیل کی ہوا نہیں کھانا چاہتے لیکن یہ فضا زیادہ دیر تک قائم رہنے والی نہیں۔ یاسین ملک کی فیملی اور دوستوں کو بھارت کے اندر بھی جدوجہد کرنی چاہیے اور ان لوگوں کو متحرک کرنا چاہیے جو انصاف اور انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ یاسین ملک جیل میں ہوں یا جیل سے باہر وہ مقبول بٹ شہید کی طرح کشمیریوں کی اگلی کئی نسلوں کو ضرور متاثر کریں گے۔ان کے دلوں میں آزادی کی جوت جگائیں گے۔انہیں جدوجہد پر ابھاریں گے۔ ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ نہ صرف کشمیری اسے آئیڈیا لائز ڈکریں گے بلکہ دنیا بھر کی آزادی کی تحریکیں سے وابستہ لوگ اس کی بہادری اور شجاعت کے قصہ سنائیں گے۔ مقبول بٹ اور سیّد علی گیلانی کے بعد غالباً وہ تیسرا بڑا لیڈر ہے جو مقتل میں پورے قد سے کھڑا رہاہے اور اپنے اصول، نظریہ اور سیاسی فکر پرکوئی سودے بازی نہ کی۔ یاسین ملک کی قربانی نے کشمیر کی تحریک مزاحمت میں ایک نیا باب رقم کیا۔اس کی کہانی لوک داستانوں میں ڈھل جائے گی۔ آئیے سب مل کر اس کی سلامتی اور استقامت کی دعا کرتے ہیں۔