کس برہمن نے کہا تھا یہ سال اچھا ہے۔ جتنی مشکلیں وطن عزیز پر اس برس پڑی ہیں۔ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ بات کو پھیلایا جائے تو پوری دنیا کے حالات ہی چند برس سے دگرگوں دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی سکھ کی خبر نہیں سننے کو ملتی۔ سال کے آخری دنوں میں تین واقعات ایسے ہوئے ہیں جنہیں عدالتی اور قانونی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمارے ملک کی تاریخ میں یہ غیر معمولی واقعات ہیں۔ پہلا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ‘ دوسرا سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنائے جانے کا فیصلہ اور تیسرا حکومت کی طرف سے نیب قانون میں ترمیم کا آرڈی ننس۔یہ تینوں واقعات یہ بتاتے ہیں کہ ہم کس طرف گامزن ہیں۔ پہلے دو واقعات پر ہم بات کر چکے ہیں‘ تیسرا واقعہ اسی کا تسلسل دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے فضائوں میں یہ بات اڑی ہوئی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔ آرمی چیف کی تقرری ہمارے ہاں اہم واقعہ تو ہوا کرتا ہے‘ مگر ہمیشہ بڑے سکون سے گزر جایا کرتا ہے۔ کسی کو چوں کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔ اس بار تو اس کا اعلان بھی بہت پہلے ہو چکا تھا۔ تاہم افواہیں ہی افواہیں پھیل رہی تھیں۔ ملک کے جو حالات تھے‘ ان میں ایسی باتیں غیر متوقع نہیں ہوا کرتیں۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے لے کر دوسری سیاسی‘ عدالتی اور انتظامی سرگرمیوں تک میں اس کی بازگشت سنائی دے رہی تھی حتیٰ کہ ایک دن معلوم ہوا کہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب آرمی چیف کے ریٹائرمنٹ کو صرف دو تین دن باقی رہ گئے تھے۔ یہاں ایسے سوال اٹھائے گئے کہ یقین نہیں آتا تھا کہ ہمارے قانون اور دستور میں ایسے ایسے نکتے جواب طلب ہیں۔ یہ بھی یقین نہ آتا تھا کہ حکومت کے قانون دان ایسے بے خبر نکلیں گے۔ کسی نے کہا بے خبر نہیں‘ بلکہ زیادہ باخبر ہیں۔ خیر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت نے اس معاملے میں قانون سازی کرنے سے پہلے عدالت عظمیٰ میں نظرثانی کے لئے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقدمے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ عدالت میں درخواست لے کر جانے والے جو چار فریق ہیں ان کے نام ہیں‘ صدر پاکستان‘ وزیر اعظم پاکستان‘ چیف آف آرمی سٹاف اور وزارت دفاع پاکستان کے تناظر میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا پورا وفاق ہی عدالت کے سامنے جا کھڑا ہوا ہے۔ ایک پارلیمنٹ رہ گئی ہے۔ کو ن جانے وہ بھی آ کھڑی ہو۔ خاص طور پر آرمی چیف کا وزارت دفاع اور صدر و وزیر اعظم کے ساتھ عدالت سے رجوع کرنا معمولی بات نہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ریاست پر کتنا دبائو ڈالا ہے۔ کہا جاتا ہے یہ مقدمہ مولوی تمیزالدین کے مقدمے سے بھی کہیں بڑا ہے۔ درست بات ہے مگر ابھی اس مقدمے کی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی اور مشورے لئے جا رہے تھے کہ کیا کیا جائے۔ اپوزیشن اور حکومت میں کیسے ہم آہنگی پیدا کی جائے کہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو کہ اتنے میں ایک روز زلزلہ آ گیا۔ وہ بھی عجیب انداز میں۔ جو خصوصی عدالت چھ سات سال سے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ سن رہی تھی‘ اس نے پرویز مشرف کو موت کی سزاکا حکم سنا دیا۔ اس پر تو قیامت آ گئی۔ سب سے پہلے تو فوج کے ترجمان نے اس پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ فوج نے کبھی ایسے شدید ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا حتیٰ کہ ڈان لیکس پر بھی نہیں۔ یوں لگتا ہے پرویز مشرف کا مقدمہ قوم کے گلے میں پڑ گیا ہے۔ ایک جسٹس صاحب نے تو ایک ایسی بات بھی کر دی کہ شور میں مزید اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے فیصلے میں یہ تک لکھ دیا کہ اگر مشرف کی پھانسی سے پہلے موت واقع ہو جائے تو لاش کو ڈی چوک میں لا کر تین دن تک کھلے عام لٹکایا جائے۔ اس بات کی سختی یا غلطی سے قطع نظر ڈی چوک کے حوالے سے ایسی بات کا آنا اور وہ بھی سابق آرمی چیف کے حوالے سے تو اس نے ظاہر ہے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ اس بات کی داد دینا پڑتی ہے کہ جلد ہی ہماری ریاست کے اداروں نے خود کو سنبھالا اور ہوش و تحمل سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ پاکستان میں گزشتہ سال یہی سب سے خوشگوار فیصلہ تھا۔ اس کے ساتھ یہ وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ وہ نیب آرڈیننس لا کر قانون میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ اس احتساب کے عمل نے ایک عجیب فساد برپا کر رکھا تھا۔ میں بڑے یقین سے کہتا ہوں کہ تیسری دنیا میں احتساب کا عمل آسان نہیں ہوتا‘ آسان تو سرمایہ دارانہ نظام میں ویسے ہی نہیں ہوتا مگر تیسری دنیا کی اپنی الگ سے حرکیات بھی ہیں۔ پاکستان میں کون نہیں کہتا کہ نیب کا قانون غلط ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ ان دنوں ملک میں جو احتساب چل رہا ہے‘ اسے انتقام کا نام دیا جاتا ہے۔ اپنے ملک کی بات چھوڑیے۔ انڈیا کو دیکھ لیجیے۔ کئی برس پہلے وہاں بھی لوک پال کے نام سے احتساب بل پیش ہوا۔ ایک صاحب انا ہزارے طوفان بن کر بھارت کے سیاسی افق پر چھا گئے۔ وہ پچاس ہزار افراد کا مجمع لے کر پارلیمنٹ کے سامنے جا بیٹھے کہ بل پاس کرو۔ ورنہ اٹھو گا نہیں۔یوں لگتا تھا کہ حکومت ہل کر رہ گئی ہے۔ دھرنا بھی ختم ہوا۔ بل بھی پاس نہ ہو پایا‘ آخر نو سال بعد عدالت نے کچھ دال دلیا کیا۔ بات وہیں بھی طے نہیں ہو پاتی۔ ہمارے ہاں بھی احتساب بل اسمبلی میں جا پہنچا۔ کسی نے باریک کام کیا کہ احتساب جرنیلوں اور ججوں کا بھی ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے ان دونوں اداروں کا دعویٰ ہے ہمارے ہاں تو احتساب کا اپنا نظام موجود ہے۔ آواز آئی تو صرف پارلیمنٹیرین ہی رہ گئے ہیں‘ ان کا پارلیمنٹ سے احتساب کرا لیجیے۔ سرکاری ملازمین تو پہلے ہی کہتے تھے ہمارا بھی تو محکمانہ احتساب ہوتا تھا۔ کاروباری لوگ کہتے تھے ہمارے لئے تو بے شمار قانون اور ادارے پہلے سے موجود ہیں۔ ایف بی آر سے لے کر بے شمار ادارے ہیں۔ اب غالباً حکومت کو یہ احساس ہوا ہے کہ سرکاری ملازم اس لئے کام نہیں کرتے کہ آپ نے ان پر نیب کی تلوار لٹکا رکھی ہے۔ کاروباری لوگ کاروبار نہیں کرتے کہ نیب والے جا پہنچتے ہیں اور نیب مقدمہ بعد میں بنائے گی اور قید میں پہلے ڈالے گی۔ ایسی ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ لگتا تھا کہ ہم جن سیاست دانوں کی بات کر رہے ہیں‘ وہ تو کچھ بھی نہیں‘ اتنے کاروباری لوگ عقوبت خانوں میں پڑے ہیں کہ کوئی کاروبار کرنے کو تیار نہیں‘ فواد حسن فواد وغیرہ کی مثالوں نے بیورو کریسی کو ڈرا کر رکھ دیا ہے۔ ادھر ملک کے حالات ایسے ہو رہے ہیں کہ قانون سازی ضروری بھی ہے اور مشکل بھی۔جو کام ہو رہے ہیں‘ غلط ہو رہے ہیں۔ پنجاب میں ساری بیورو کریسی تبدیلی کر دی گئی۔ سارے اختیارات چیف سیکرٹری اور ان کی ٹیم کو سونپ دیے گئے۔ معیشت ہے کہ سنبھل نہیں رہی۔ حکومت اور اپوزیشن میں ہم آہنگی نہیں ہو رہی۔وزیر اعظم بار بار اپوزیشن کو للکارتے ہیں کہ وہ چھوڑیں گے نہیں۔ یہ گویا ان کا تکیہ کلام بن گیا ہے۔ کوئی این آر او نہیں دیں گے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ نااہلوں کی حکومت ہے‘ ایسے چلتا کریں گے۔ ہر روز ایک نئی گرفتاری ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر نیب کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کہیں کہیں کسی دوسرے ادارے کو بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔ نیب 90دن تک اپنی تحویل میں بغیر فرد جرم عائد کئے رکھ سکتا ہے۔ یہ وقت بھی گزر جاتا ہے۔ کچھ نہیں ہوتا پھر یہ بھی ہوا کہ عدالتوں پر بھی الزام عائد ہونے لگے۔ سب سے بڑا مقدمہ تو ارشد ملک کی ویڈیو ہے۔ مریم نواز میدان میں نکلیں اور مجمع اکٹھا کرنے لگی تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ احتساب ‘ انتقام‘ انصاف بہت کچھ خطرے میں تھا۔ تیسری دنیا اور بھارت کی مثالیں اوپر دیں‘ اپنے ملک میں بھی یہی حال تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ہی پرودا کا قانون بنا‘ پھر پوٹا آیا‘ پھر ایبڈو نے ان سب کی جگہ لے لی۔ سیاست دان نااہل ہوتے رہے۔ یحییٰ خان نے 303بیورو کریٹس کو بھٹو نے 1100کو فارغ کر دیا۔ ساتھ ہی یہ کرم بھی کیا کہ بیورو کریسی کے سر سے آئین کا سائبان بھی اٹھا لیا۔ بھٹو نے کاروباری طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ ان کی صنعتوں ہی کو قومیا لیا۔ یہ سب عمل اپنی انتہا تک جاری ہے۔ درمیان میں ضیاء الحق آئے تو سیاست دانوں نے نعرہ لگایا‘ پہلے احتساب ‘ پھر انتخاب۔ ویسے جب مشرف آئے تھے تو وہ بھی اپنے ساتھ ایسے ہی نعرے لے کر آئے تھے۔ اب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نیب بھی نواز شریف نے بنائی تھی۔ ان کے زمانے میں سیف الرحمن ٹی وی پر دربار لگاتے اور مقدمے بناتے‘ مگر ان لوگوں نے تو اس سے توبہ کر لی تھی۔ موجودہ نیب تو مشرف نے بنائی اور کیا خوب بنائی۔ اس کی کوکھ سے جمال کی حکومت بنی۔ پیپلز پارٹی سے پیٹریاٹ نکلی اور مسلم لیگ سے ن لیگ‘ اس زمانے کی نیب کے بھی کیا کیا قصے ہیں۔ اب حکومت آرڈی ننس لا رہی ہے تو اپوزیشن وہی اعتراض کر رہی ہے جو ماضی میں بھی حکمران طبقہ کرتا رہا ہے جن کی وجہ سے کبھی نیب کے قانون میں ترمیم نہیں ہوئی۔ حکومت نے کہا ہے اچھا ہم پارلیمنٹ میں بحث کرائیں گے۔ اردو ادب میں محتسب یا احتساب پر بہت سے شعر ہیں۔ اس وقت مصطفی آفریدی کے یہ شعر جانے کیوں یاد آ رہے ہیں: صہبائے تند و تیز کی حدّت کو کیا خبر شیشے سے پوچھیے جو مزہ ٹوٹنے میں تھا تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش مجھ کو یہ افتخار کہ میں مے کدے میں تھا آخر میں یہ بھی سنتے جائیے کہ تصوف کی اصطلاح میں محاسبہ کا مطلب ہے کہ بندہ ہر حال میں اپنے احوال پر واقف رہے۔ کم از کم ذوقی شاہ صاحب نے تو سرد لبراںمیں ہی لکھ رکھا ہے۔