انگریزی اخبار نے سرخی جمائی،’ عمران کو عبرت کی مثال بنا دیا جائے‘۔ دو دن کے اند راندر 21پریس کانفرنسز کی گئیں۔ درجن بھر جماعتوں کا اتحاد ایک قطار میں کھڑے مشترکہ پریس کانفرنسوں سے پے در پے خطاب فرما رہا ہے۔انگریزی اخبار نے سرخی وہیں سے مستعار لی ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ایک نکتے پر یکسو دکھائی دیتے ہیں، عمران خان کو گرفتار کیا جائے۔ہو سکے تو فنا کر دیا جائے۔ روزِ اول سے دل میں ایک ہی خواہش تڑپ رہی ہے۔عمران خان کو ہتھکڑی لگانی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دبی دبی خواہشات ہر دل میںمچلتی ہیں۔ مولانا نے تو اب کسی لیت و لعل کے بغیر اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے۔’ حکومت اتنی نرمی کیوں دکھا رہی ہے‘؟گھبرائے ہوئے، گڑبڑائے ہوئے، خوفزدہ لشکرکے اندر افراتفری کا عالم ہے۔ عافیت کا راستہ مسدود ملا توکچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بستی کھیت سکتے ہیں، کھڑی فصلیں اجاڑ سکتے ہیں۔پچھلے انتخابات میں چاروں صوبوں سے ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ لے کر ملک کی سب سے بڑی اور واحد وفاقی سیاسی پارٹی کی صورت جو سامنے آئی تھی،اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد جو بیساکھیاں پرے پھینک چکی ہے،عوامی مقبولیت کی جو انتہا پر ہے،اس کے سربراہ سمیت قیادت کو نا اہل کرنے کے لئے ریفرنس کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیتا۔ ایف آئی اے پارٹی کے دفتروں پر منظم آپریشن کرے گی۔ پی ٹی آئی نہیں، کوئی انڈرورلڈ جرائم کا مہیب نیٹ ورک پکڑا گیا ہے۔ چند معتبر صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ بیس حلقوں میں انتخابات سے ایک دن پہلے، شام گئے، انہیں بتایا گیا کہ ن لیگ چودہ سے پندرہ سیٹیں جیت رہی ہے۔عشروں پہلے، جنرل یحییٰ کو بھی بتایا گیا تھا کہ کوئی ایک بھی جماعت مشرقی صوبے سمیت ملک بھر میں فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں کر پائے گی۔ فیصلہ ہوا منصفانہ انتخابات کروا دیئے جائیں۔ بیس حلقوں میں تو یہ بھی نہ ہوا ۔چودہ سیٹوں پر پی ٹی آئی جیت گئی۔ تن ِ تنہا جیت گئی۔ ایک صاحب جو معاصر میں ایک عرصے سے اپنے کالموں میں شریف فیملی کی ’سیاسی عصبیت ‘ پرہی دانش بگھارتے ہیں، عمران خان کے باب میں فرماتے ہیں ، یہ کلٹ فالوئونگ ہے۔ پنجاب اسمبلی میں جو ہوا، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ رات گئے زرداری صاحب ٹانگیں پسارے چوہدری شجاعت کے ہاں نیم دراز پڑے تھے تو بھی اگلے روز کا درست اندازہ نہ لگایا جا سکا۔ جو ہوا سو ہوا۔معاملہ عدالت میںپہنچ گیا۔ پہلی سماعت کے بعد ہی پورے کا پورا حکومتی بندو بست نظامِ عدل پر چڑھ دوڑا ۔ اعلیٰ عدالتوں کے پر کاٹنے کے لئے قانون سازی کے لئے کمیٹی تشکیل دی جا چکی۔ نیب کو اپاہج کرنے کا بل صدر سے منظوری کے بغیر ہی قانون بن گیا ہے۔ پنجاب ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ کراچی ان کی گرفت میں باقی نہیںہے۔ کے پی میں مولانا سمٹ کر رہ گئے ہیں جبکہ اے این پی کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔اپنی بقا کے لئے تو بلی بھی پلٹ کر نرخرہ دبوچ لیتی ہے۔ سپیکر صاحب نے چن چن کر گیارہ ارکان کے استعفیٰ منظور کر لئے ہیں۔کچھ تو اس اسمبلی کی وقعت باقی رہنے دی جاتی۔ راجہ ریاض صاحب جس میں اپوزیشن لیڈرہیں، کچھ تو اس ایوان کا بھرم رہنے دیا جاتا۔اندھیرے میں اندھے کو کیا سجھائی دے۔ طارق فاطمی صاحب وینڈی شرمن سے ملاقات کرنے پہنچے تھے۔ دفترِ خارجہ نے ان کے دورے اور ملاقات سے لا تعلقی کا اظہار کر دیا۔سب جانتے ہیں وہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ٹی وی اینکر نے مریم نواز کو ٹیگ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ کتے بلیوں کی امپورٹڈ خوراک کی درآمد پر پابندی ظالمانہ اقدام ہے۔مریم نے مفتاح کو معاملے پر غور کرنے کی ہدایت کر دی۔دو چار دن قبل تاجروں کے بجلی کے بلوں میںمتعین ٹیکس ختم کرنے کی خاطر ایک اور ہدایت ایک بار پھر بذریعہ ٹویٹ کی گئی۔ مفتاح صاحب نا صرف حکم بجا لائے،سرِ عام اعلان بھی کیاکہ حکم کہاں سے آیاتھا۔وزیرِ اعظم کو اندر خوامخواہ نتھی کر دیا۔اسی بیچ ڈالر ڈھائی سو روپے تک جا لڑھکا۔ پاکستان ڈیفالٹ کرنے کو تیار ملکوں کی فہرست میںشامل کپکپانے لگا۔ چند ہی روز قبل بتایا گیا کہ دوست ممالک کے علاوہ آئی ایم ایف سے قرض کی قسط مل بھی گئی تو بھی اس مالی سال میں پاکستان کے پاس پرانے قرضوں کی قسط چکانے اور لازمی درآمدی اشیاء جیسے پٹرول ، کی خریداری کیلئے پورا سال پیسے نہیں ہوں گے۔ آخرِ کارسپہ سالار کو ہی بیچ میںکودنا پڑا ۔انڈر سیکرٹری وینڈی شرمن سے بات کرنے کی اب ان کی باری تھی۔بد خواہ کہتے ہیں سلامتی کے ادارے کے سربراہ کا ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی خاطر عالمی مفادات کے گدلے پانیوں میںخود اُترنا خطرے سے خالی نہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں حکومت آخر ہے کس کی؟ مرکز میں بیٹھے وزیرِا عظم کی؟ وایا بھٹنڈا نوازشریف اور مریم نواز کی؟ یا پھر ان کی جن کا دعویٰ ہے کہ وہ عمران خان کو انگلی پکڑ کر چلاتے رہے؟کیا اب اس حکومت کو چلا رہے ہیں؟ پنجاب میں بادِ نسیم چلی تو عمران خان کو جیسے قرار آگیا ۔ مہینوں بعدہی شاید گہری نیند سوتے ہوںگے۔کپتان کے لہجے میں نرمی آئی تو معیشت نے بھی اِک گھڑی رک کر دم لیا۔حکومتی اتحاد کی کاروائیوں میں مگر اچانک تیزی آگئی۔ راتوں رات الیکن کمیشن پر پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کے کیس کا فیصلہ سنانے کے لئے دبائو ایک دم بڑھ گیا۔ لندن سے نواز شریف، ملک کے اندر وزیرِ اعظم، ن لیگ اور اتحادیوں کے وزراء و زعماء ،ایسا کیا ہوا کہ یک زبان ہوکر الیکش کمشنر سے ایک ہی مطالبہ کرنے لگے ’خدارا، فیصلہ سنائو بھائی فیصلہ‘۔چنانچہ عدالتی حکم کے برعکس صرف پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ دو دن کے اندر21 پریس کانفرنسیں حکومتی اتحادنے اِسی کے بعد کی ہیں۔مطالبہ ایک ہی ہے ، عمران کو عبرت کی مثال بنا دیا جائے۔ گیارہ سیٹیں جو خالی ہوئی تھیں، نو پر انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔ نو کی نونشستوں پر عمران خان نے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کیاہے۔ صورتِ حال یقیناََ دلچسپ ہوتی، ایک دلچسپ کرکٹ میچ کی طرح، معیشت کی حالت اگریوں دگردوں نہ ہوتی۔امریکہ سے متعلق پاکستانیوں کی بد گمانی کی ایک تاریخ ہے۔ شکوک و شبہات مگر جیسے اب ہیں، پہلے کبھی نہ تھے۔ سوشل میڈیا کی زبان کون پکڑ سکتا ہے؟ ایسے میں دشمن بھی اپنا حصہ ڈالنے کو اتر آئے تو کوئی ایک ٹوئٹر ہینڈل نہیں، قوم اس کا ہاتھ روکتی ہے۔ افسوس کہ کسی اور کا ہوا ہو نہ ہوا ہو، ہمارا بے حد نقصان ہو چکا۔ افسوس کہ صفِ اول میں لڑنے والوں کو کھو دیا گیا۔ یہ کلٹ نہیں، پوری کی پوری قوم ہے۔ قوم سے رشتہ رنجشوں پر استوار رکھناکہاں کی عقل مندی ہے۔ آج اعلیٰ عدالتیں ،نیب اور ملک کی واحد وفاقی جماعت نشانے پر ہیں تو کل کسی اور کی باری بھی آسکتی ہے۔