ہم ایک جذباتی قوم ہیں اور نوجوانوں کی اکثریت تو اور بھی جذباتی ہے جو یہ نہیں جانتی کہ حقِ نصیحت دوستی کا سب سے اہم تقاضا ہے۔ عمران خان کے اخلاص میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں۔ مگر انہیں یہ بات کون سمجھائے گا کہ زمان و مکان کے بدلنے سے بیانیے کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتخابات کے دوران اور بیانیہ ہوتا ہے انتخابات کے بعد ایوان کے اندر اور باہر اور لب و لہجہ ہوتا ہے۔ ملک کے اندر بھی مختلف فورمز پر حسبِ موقع اور حسبِ ضرورت بیانیہ اختیار کیا جاتا ہے اور ملک سے باہر جا کر تو یکبارگی خطاب کے مندرجات بدل جاتے ہیں۔ آپ کسی شخص کو جب اپنے ساتھ سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کرتے ہیں تو اسے ایک پرکشش تصویر دکھاتے ہیں اور منافع کی توقع دلاتے ہیں۔ ملکوں کے تعلقات میں ہر ملک کے حالات، ان کے مزاج، ان کے کام کرنے کے انداز کو دیکھنا اور سمجھنا ہوتا ہے اور اس کے مطابق نہایت وسیع و عمیق ہوم ورک کر کے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سعودی عرب پر عالمی دبائو کے نتیجے میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ہاتھ ایک سنہری موقع آیا تھا جسے وہ اقتصادی ماہرین کے مشورے سے تیاری کر کے ایک مدبرانہ خطاب سے زیادہ بامقصد بنا سکتے تھے۔ مگر خان صاحب نے اس موقع سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا۔ البتہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ اپنی روایتی دوستی نبھائی اور ہمیں کم و بیش 6ارب ڈالر کا ایک بیل آئوٹ پیکیج دیا جس سے ہماری اقتصادی مشکلات میں وقتی طور پر کافی کمی آئی۔ مگر خان صاحب نے وہاں بلائی جانے والی عالمی کانفرنس میں آنے والے تقریباً ایک سو ممالک کے نمائندوں کے سامنے پاکستان کے معاشی حالات کی جو تصویر پیش کی وہ سرمایہ کاری کو کھینچنے والی نہیں بھگانے والی تھی۔ چین کے سفر سے پہلے چینی مائنڈسیٹ کو سمجھنے، ان کی ثقافتی اقدار سے شناسائی رکھنے اور دہائیوں سے چین کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات و معاملات میں شامل شخصیات سے گہرے صلاح مشورے کی ضرورت تھی۔ چینی حکام و سیاست دان بلند بانگ دعوئوں اور پرشور الفاظ سے اجتناب کرتے ہیں۔ وہ حساس نوعیت کے دوطرفہ تعلقات اور باہمی دوستی کی نزاکتوں کو بھی منظر عام پر لانا پسند نہیں کرتے۔ وہ خاموش ڈپلومیسی اور لمبی و گہری دوستی پر یقین رکھتے ہیں۔ چینی گھر کی بات کو گھر میں رکھنے کے کلچر پر سختی سے کاربند ہیں۔ 1970ء سے لے کر 1978ء تک کے ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کے بعض مظاہر سے کمیونسٹ پارٹی کے اندر بڑے بنیادی نوعیت کے اختلافات تھے مگر یہ اختلافات کبھی انہوں نے دوسرے ممالک میں جا کر یا اپنے ملک میں آئے ہوئے مہمانوں سے شیئر نہیں کیے۔ چین میں 130ملکوں کے مندوب موجود تھے جن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے وہی کہانی دہرائی جو انہیں ازبر ہے اور انہوں نے حسب موقع بات کہنے اور پاکستان کو ساری دنیا کے سرمایہ کاروں کے لیے ایک انتہائی پرکشش اور جاذب ملک کے طور پر پیش کرنے کی بجائے، بتایا کہ پاکستان کرپشن میں ڈوبا ہوا ملک ہے، ملکی ادارے بگڑے ہوئے ہیں اور جانے والے سیاست دانوں نے مطلوبہ خدمات انجام نہیں دیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ خان صاحب ماہرین اقتصادیات کے تیار کردہ سرمایہ کاری کے مختلف شاندار نوعیت کے منصوبے پیش کرتے اور عالمی ماہرین اقتصادیات کو دعوت دیتے کہ آئیں اور بچشم خود ملاحظہ کریں کہ ہم نے دہشت گردی پر کس طرح قابو پایا ہے، آئیں دیکھیں ہمارے لوگ کتنے جفا کش ہیں، ہماری 60فیصد یوتھ کتنی پر جوش ہے۔ ہمارے ہنر مند اگر کوئی انتہائی پیچیدہ سے پیچیدہ مشینری یا پرزہ دستیاب نہ ہو تو وہ خود بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں کیا کیا قدرت کے خزانے زیر زمین ہیں اور زیر آب بھی ہیں۔ ایک بات سمجھ لینے کی ہے کہ ہر ملک یا ہر کمپنی کی نظر اپنے منافع پر ہوتی ہے۔ اسے ہماری کسمپرسی یا بے بسی سے کچھ زیادہ سروکار نہیں ہوتا وہ تو ایسے حالات کو سرمایہ کاری کے لیے سازگار نہیں ناموافق سمجھتے ہیں۔ پاکستانی سربراہوں کے غیر ملکی دوروں کو بالعموم توقعات کے اس آئینے میں دیکھا جاتا ہے جن کی حسین قوس و قزح حکومتی نمائندے سفر پر گامزن ہونے سے پہلے ملکی افق پر آویزاں کر دیتے ہیں۔ چین جانے سے پہلے وزیروں اور مشیروں نے خوش خبری سنائی تھی کہ ہم چین سے اسی طرح کا پیکج لے کر آئیں گے جیسا ہم سعودی عرب سے لے کر آئے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ہم ڈالر بھی لائیں گے، سرمایہ کاری بھی لائیں گے اور فوری معاشی مسئلہ حل کرنے کے لیے آسان قرض بھی لائیں گے۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا اور اب یہ تاثر عام ہے کہ وزیر اعظم چین سے خالی ہاتھ لوٹے ہیں۔ ملکوں کے درمیان روابط کی نوعیت سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ سفارتی تعلقات و معاملات کے کیا آداب ہوتے ہیں۔ اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کی ملاقات سے پہلے دورے کی تمام تر تفصیلات و جزئیات طے کر لی جاتی ہیں اور یہ بھی بالعموم طے پا جاتا ہے کہ میزبان ملک کس طرح سے ’’مہمان نوازی‘‘ کرے گا اور کن کن معاہدوں، منصوبوں اور باہمی یادداشتوں پر دستخط ہوں گے۔ سربراہوں کی ملاقات تو محض رسمی کارروائی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان مطلوبہ ہوم ورک کر کے نہیں گیا تھا تبھی تو چین کے نائب وزیر خارجہ مسٹر کانگ نے مشترکہ اعلامیے کے موقعے پر بتایا کہ سردست کوئی مالیاتی پیکج طے نہیں پایا۔ یہ دونوں ممالک کے ماہرین کی باہمی مشاورت سے بعد ازاں سامنے آئے گا۔ اس سے تو شاید یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ مالیاتی امور پر چین کی کوئی کڑی شرائط ہوں جنہیں معزز مہمان کی ان کے دیس میں موجودگی کے دوران زیرِ بحث لانا آدابِ مہمان نوازی کے خلاف سمجھا گیا ہو۔ پاک چین مشترکہ اعلامیے میں طویل دوستی کے تقاضوں کو مدِنظر رکھا گیا ہے اور وسیع تر تعاون کے منصوبوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ چین کی تجارت کو ڈالر کے بجائے یوآن میں کرنے کے بڑے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ چین کے ساتھ گزشتہ سال ہمارا تجارتی خسارہ 14ارب ڈالر کا تھا۔ یوآن میں تجارت کرتے ہوئے اس خسارے کے بوجھ سے ہم کسی حد تک چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں مگر یہ بھی ہم جیسے تن آسانوں اور بیل آئوٹ پیکج کے رسیا حکمرانوں کے لیے کوئی آسان راستہ نہیں۔ اسی لیے ہمیں اپنی برآمدات بڑھانا ہوں گی۔ اگر ہم چین کے ساتھ اپنی تجارت کا حجم 14ارب ڈالر کے مساوی یا زیادہ کر لیں تو یہ ایک لمبی معاشی جست ہو گی۔ یقینا کرپشن کا قلع قمع ہونا چاہیے مگر اتنا واویلا بھی نہیں چاہئے کہ ملکی سرمایہ کار اپنی مشینری سمیت بھاگ کر دوسرے ملکوں میں چلے جائیں اور بیرونی سرمایہ کار ڈر کے مارے ادھر کا رخ نہ کریں۔ ہر ملک اپنے زمینی حقائق کے مطابق کرپشن کا علاج کرتا ہے۔ چین کا ماڈل چین کے نظام میں کارگر ہو سکتا ہے۔ یہاں نہیں۔ ہمیں روٹی بھی چاہئے اور جمہوریت بھی۔ یہ بات یاد رکھیے کہ چین میں تمام تر سختی کے باوجود آج بھی بہت کرپشن ہے۔ انہوں نے تمام تجارتی و صنعتی چہل پہل چھوڑ کر اور کارخانوں کو تالے لگا کر کرپشن پر قابو نہیں پایا دونوں کام ساتھ ساتھ جاری رہتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم چین سے کرپشن کا علاج درآمد کرتے کرتے اپنی معیشت کی رہی سہی جان بھی نکال دیں اور فارسی کی اس ضرب المثل کو سچ ثابت نہ کر دیں کہ ؎ تا تریاق از عراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود