فروری کی پہلی تاریخ جب ہم ماڈل ٹائون پارک پہنچے تو مدھم سنہری دھوپ پارک کے سبزہ زاروں پر اترتی تھی۔ آس پاس کے لوگ ٹریک سوٹوں میں ملبوس یا پھر اپنے شب خوابی کے ملگجے لباس پر موٹی موٹی‘ جیکٹیں چڑھائے‘ جوگرز پہنے صبح کی سیر میں مصروف تھے۔ جگہ جگہ لوگ بنچوں اور کرسیوں پر بیٹھے دھوپ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ مگر ماڈل ٹائون پارک کا وہ حصہ سارے پارک سے زیادہ پررونق اور آباد دکھائی دیتا تھا جہاں اس عہد کے عظیم فکشن رائٹر مستنصر حسین تارڑ صاحب فروری کی مدھم سنہری دھوپ میں اپنے مداحوں کے درمیان بیٹھے،دھوپ سے لطف اندوز ہوتے اور باتیں کرتے تھے۔ تارڑ صاحب ماشاء اللہ اپنی عمر کی 8ویں دہائی میں ہیں صبح کی سیر ان کے معمولات میں اس طرح سے شامل ہے کہ سرما کے یخ بستہ دنوں میں جب گھروں سے باہر نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں وہ صبح سویرے ماڈل پارک کے ٹریک پر مارننگ واک سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ تارڑ صاحب کے ساتھ اس ملاقات کے لئے وہ اس وقت سے بہت پرجوش تھا جب گزشتہ گرمیوں کی چھٹیوں میں اس نے سٹار وار سیریز پر کہانیاں لکھنا شروع کیں اور سات مختلف کہانیاں لکھیں جنہیں وہ سیون والیم آف سٹار وار سیریز کہتا ہے۔ اس وقت میں نے دانیال سے وعدہ کیا کہ میں آپ کو اردو کے اس وقت سب سے بڑے فکشن رائٹر تارڑ صاحب سے ملوائوں گی۔ تارڑ صاحب سے جب بھی بات ہوتی میں اس کا ذکر کرتی لیکن بوجوہ یہ ملاقات تاخیر کا شکار ہوتی رہی۔سکول کھل گئے۔ دانیال تیسری کلاس میں چلا گیا اور اس نے مزید کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔ جنہیں وہ اپنی اصطلاح میں ناول یا سیریز کہتا ہے۔آج یکم فروری کی صبح ہم اس ننھے لکھاری کو ایک عہد ساز لکھاری سے ملوانے ماڈل ٹائون پارک لے کر آئے۔ دانیال نے اپنے ناولوں اور کہانیوں کی ایک فائل پکڑی ہوئی تھی اور وہ تارڑ صاحب سے ملنے کو بے تاب تھا۔ اگرچہ ابھی وہ بہت چھوٹا ہے اور اس کو تارڑ صاحب کی ادبی کاوشوں کا ادراک نہیں۔ ہاں ان کی کتابیں اکثر میرے ہاتھ میں دیکھتا ہے تو پہچان لیتا ہے کہ یہ تو وہی ہیں فیمس رائٹر تارڑ صاحب ۔ تارڑ صاحب نے دانیال کے Bentenناول پر ازراہ محبت لکھا‘ ویل ڈن دانیال۔ آئی ایم پرائوڈ آف یو‘‘ پھر دانیال نے ان کی ایک کتاب غار حرا میں ایک رات پر بھی ان سے آٹو گراف لیا۔ انہوں نے دانیال کی ننھی منی تحریروں کو سراہا اور ازراہ شفقت اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ یہ سارے لمحے بہت یادگار تھے اور میں انہیں یادوں کے ساتھ اپنے کیمرے میں محفوظ کر رہی تھی اور کیمرے میں تو صرف ایک لمحہ قید ہوتا ہے جبکہ یادوں میں ایک لمحے کی ان گنت تصویریں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ باتوں کا سلسلہ چل نکلا تو نوید کے ساتھ تارڑ صاحب نے آنٹی افضل توصیف کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔ وہ افضل توصیف کے کام کے مداحوں میں سے ہیں۔کہنے لگے کہ کیا کمال خاتون تھی افضل توصیف ‘ اعلیٰ کہانی کار ‘ امرتا کی سہیلی‘ پروگریسیو رائٹر، مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کرنے والی۔ پروفیسر۔ میں ان کو اتنا جانتا ہوں کہ تم لوگ بھی نہیں جانتے ہو گے۔ کچھ وقت گزرا تو تارڑ صاحب کے ملاقاتیوں میں اضافہ ہو گیا کچھ اور لوگ بھی آ گئے۔ ان میں چند ایسے احباب تھے جو روزانہ یہاں ماڈل ٹائون پارک میں تارڑ صاحب کی اس بیٹھک میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر رانا جواد تھے، کہنے لگے کہ میری تارڑ صاحب سے پہلی ملاقات آج سے 40سال پہلے ہوئی تھی۔ اس ملاقات کی میں نے تصویر بھی بنائی تھی اور آج تک یہ تعلق ویسے ہی قائم ہے۔بڑوں کی محفل میں بیٹھے بیٹھے دانیال بور ہونے لگا تو کھیلنے چلا گیا اور ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ جا کر ذرا جادو کی چھڑی ڈھونڈھ لوں۔ آج کل ہیری پوٹر کی فلم دیکھنے کے بعد جادو کی چھڑی دانیال کا نیا کریز ہے۔ تارڑ صاحب مسکرائے اور کہنے لگے کہ دانیال کو دیکھ کر مجھے ٹالسٹائی یاد آ گیا۔اس کے بچپن سے یہ بات منسوب ہے کہ جب وہ آٹھ نو سال کا تھا تو جنگل میں جہاں اس کا گھر تھا وہاں وہ جادوئی چھڑی ڈھونڈا کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر یہ جادوئی چھڑی مجھے مل جائے تو میں دنیا میں ہونے والی ساری جنگیں ختم کر دوں گا۔ اب لکشمی مینشن کی یادوں کا تذکرہ چھڑ گیا تھا۔ آنٹی افضل توصیف اور نوید کسی زمانے میں وہاں کچھ عرصہ رہے۔ وہاں منٹو صاحب کا گھر تھا۔ معراج خالد وہاں رہتے تھے۔اسی لکشمی مینشن میں تارڑ صاحب نے اپنی زندگی کا یادگار وقت گزارا۔ ان کے مقبول ناول راکھ‘ میں لکشمی مینشن کا خوب تذکرہ موجود ہے۔ اس جگہ سے تارڑ صاحب کی جذباتی وابستگی ہے۔ منٹو صاحب کی بیٹیاں کافی عرصہ وہیں رہتی رہیں پھر وہ جگہ کمرشل ہو گئی اور رہائش کے قابل نہ رہی۔ بالآخر انہیں لکشمی مینشن کو چھوڑنا پڑا۔ تارڑ صاحب کہتے ہیں۔میں ابھی کچھ روز پہلے لکشمی مینشن کو ایک نظر پھر دیکھنے کو گیا تھا ۔میرے زخم ہرے ہو جاتے ہیں جب میں وہاں کمرشل سرگرمیاں دیکھتا ہوں۔ ماڈل ٹائون پارک میں تارڑ صاحب کے ساتھ یہ بیٹھک بہت اچھی اور یادگار رہی۔گھر آئے تو میں نے دانیال سے پوچھا آپ کو تارڑ صاحب کیسے لگے؟ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا۔ وہ ایک اولڈ مین ہیں اور Funnyباتیں کرتے ہیں اور میں حیران ہوا کہ تارڑ صاحب تو واقعی existکرتے ہیں۔ یعنی کہ رئیل ہیں ،میں سمجھا تھا کہ شاید(imaginary)کریکٹر ہیں۔ اس کی معصوم باتوں پر میں ہنس دی۔ سپر مین سے لے کر ہیری پوٹر تک اس کی زندگی میں سارے کردار تصوراتی ہی تو ہیں۔ اسی لئے وہ حیران ہو رہا ہے کہ تارڑ رئیل ہیں۔