حالات کس ننگ دھڑنگ موڑ کی طرف جا رہے ہیں ۔ ایک ویڈیو آ گئی‘ پھر اس کی تردید‘ ایک اور آئے گی‘ اس کی بھی تردید ہو گی۔ تاریخ کا توشہ خانہ نوادرات سے بھرتا جائے گا اور تاریخ کی سائنس یہ ہے کہ اس کے توشہ خانے پر ڈاکہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ گزشتہ روز کراچی میں ایک منفرد تقریب ہوئی۔ مقررین نے ذوالفقار علی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کیا اور ایک مقرر نے مطالبہ کیا کہ سزا سنانے والے منصفوں کی لاش قبروں سے نکال کر ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ ایسا مقدمہ چلنے کا امکان نہیں لیکن ایسا مطالبہ ہوجانا بجائے خود مقدمہ چلنے سے کم نہیں۔ بھٹو کی پھانسی کے دو عشروں بعد سچ واضح ہوا۔ ایکسلریشن (اسراع) کا قاعدہ بھی ہے۔ اس کے تحت رفتار کی شرح بڑھ گئی ہے۔ اب عشرے لگنے کا دور عشروں پیچھے رہ گیا۔ اس رت نے کہ بگولے اٹھنے لگے ہیں‘ چیئرمین نیب کے تین چار روز پہلے کئے گئے خطاب کو پس منظر میں دھکیل دیا ‘لیکن حق سچ پرستی کا تقاضا ہے کہ انہیں مطلوبہ خراج تحسین پیش کیا جائے۔ بات وہی اچھی جو لگی لپٹی رکھے بغیر کر دی جائے اور چیئرمین نے یہی اچھی بات کر دی۔ سارا ابہام یہ کہہ کر دور کر دیا کہ پہلے احتساب 35برس حکومت کرنے والوںکا ہو گا‘ حکمران جماعت کو برسر اقتدار آئے تو ابھی چند ہی ماہ ہوئے ہیں۔ چنانچہ پہلے انہی کی پوچھ ہو گی جو تیس پینتیس برس سے حکمران رہے۔ چند ماہ والوں کی بات بعد میں دیکھی جائے گی۔ ایک اور ’’قاعدہ‘‘ اسی خطاب میں بن کہے مستور ہے کہ وہ حضرات جو تیس پینتیس برس سے حکمران چلے آ رہے ہیں لیکن اب پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں‘ انہیں بھی’’چند ماہی‘‘ تصور کیا جائے گا۔ یعنی صلا ئے عام ہے باقی یارانِ نکتہ دان کے لئے (بھی)۔ ٭٭٭٭٭ شیخ جی عمران خاں کا نام لیتے ہیں تو اکثر ع پر زبر پڑھتے ہیں حالانکہ یہاں زیر ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ نادانستہ عمران خان کو آمران خاں پڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ تو برسبیل تذکرہ والی بات تھی۔ اصل میں ایک دانشور کے منہ سے غیر متوقع سچ سن کر حیرت ہوئی۔ یہ عمران خاں کے حامی ہیں۔ اور جمہوریت کو کفر سے بھی بدتر قرار دیتے آئے ہیں۔ ایک چینل کے پروگرام میں فرمایا کہ عمران حکومت عوام کی کھال پر ٹیکس لگانے کے بعد ان کا گوشت نوچ رہی ہے۔ جانے اس سچ کی برآمدگی کے پیچھے کیا تلخ تجربات ہوں گے۔ ویسے صحیح فقرہ یوں ہو:کہ کھال اتارنے کے بعد گوشت نوچ رہی ہے۔ یہ دو مرحلے ہوئے‘ تیسرا مرحلہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ ہڈیاں چھوڑنے کا۔ ٭٭٭٭٭ گزشتہ دنوں ملک بھر میں ضیاء الحق مرحوم کی سالگرہ بنا دھوم دھام کے ساتھ منائی گئی۔ جی‘ سالگرہ ہی لکھا ہے۔ اس روز آپ پاکستان کے میدان سیاست میں تولد ہوئے تھے۔ آپ جی بھر کے نمازیں پڑھتے تھے 90دن کے بعدالیکشن کا وعدہ البتہ پورا ہوا۔ ان کی حادثاتی وفات کے بعد۔ ملک پر آپ کے بہت سے احسانات ہیں لیکن افغانستان پر اس سے بھی بڑھ کر۔ جب آپ کی وفات حسرت آیات ہوئی تو افغانوں نے بہت سوگ منایا۔ بہت روئے کہ ان کا محسن چلا گیا۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ انہوں نے اور ان کے رفقائے کار نے افغانستان پر پاکستان ماڈل نافذ کر دیا ہے۔ پاکستان میں مرحوم کی سالگرہ منائی گئی‘ افغانستان میں منائی گئی کہ نہیں؟ ٭٭٭٭٭ چودھری شجاعت نے بڑے سوز دل اور درد دل کے ساتھ کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے صوبوں کے نصاب تعلیم سے اسلامی مضامین خارج اور غیر اسلامی داخل کئے جا رہے ہیں۔ اسلام کا درد ان سے زیادہ کسے ہو گا۔ بیان دینے میں ایک چوک ان سے ہو گئی۔ اب تک نصاب تعلیم سے اخراج اسلام اور ادخال غیر اسلام کے جتنے بھی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ وہ پختونخوا صوبے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی خبریں کئی برس سے اخبارات میں آتی رہی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ فلاں وزیر نے نوٹس لے لیا ہے۔ نوٹس لینے کے بعد بھی سخت جان پر نالے وہیں کے وہیں رہے۔ سال گزشتہ نصابی کتب سے ختم نبوت والی آیت کا ترجمہ حذف کر دیا گیا۔ اس سال جنگ بدر کے حوالے سے مال غنیمت کی جگہ ’’لوٹ مار‘‘ لکھ دیا گیا جس کا نوٹس عدالت نے بھی لیا۔ اسلام کا گہرا درد رکھنے والے ایک مولانا وزیر نے فرمایا کہ خاں صاحب نے کوئی متنازعہ بات نہیں کی۔ بات سمجھ میں تو یہی آتی ہے‘ کچھ اور مطلب بھی ہو سکتا ہے۔وزیر موصوف جانیں اور ان کے مذہبی امور۔ رہے چودھری شجاعت تو ان کے درد کا تعلق اسلام سے ہو گا لیکن اصل دکھ اس کانٹے کا لگتا ہے جو اٹھارہویں ترمیم کی شکل میں ہے۔