ملک کی حالت ایسی ہو گئی، جیسے پتھر پہاڑ سے لڑھک رہا ہو۔ حمزہ شہباز، مریم نواز اور شہباز شریف کے بیانات سنیے تو لگتا ہے کہ کچھ دن میں فردوسِ بریں کا دروازہ کھلنے والا ہے۔ اس قوم پہ اللہ رحم کرے، جو تاریخ کے چوراہے پر لمبی تان کے سوئی پڑی ہے۔ چینیوں کا ایک وفد 1985ء میں کراچی پہنچا۔ جانچنے آیا تھا کہ ساحلی شہر کی ترقی کا راز کیا ہے۔گول چہرے اور چھوٹے قد کے ڈنگ سیاؤ پنگ اقتدار میں تھے، ماؤزے تنگ جن کا مذاق اڑایا کرتے۔پارٹی کے اجلاس میں پنگ کھڑے ہوتے تو قد آور ماؤزے تنگ کے برابر لگتے، جب وہ بیٹھے ہوں۔ دیوتا ماؤزے تنگ ان پہ ہنستا۔ کہتا: ڈنگ سیاؤ پنگ بیٹھ چکے ہیں۔ اب کوئی اور بات کرے۔ صبر و تحمل پنگ کا شعار تھا اور حقیقت پسندی۔ مسلم برصغیر جن سے نابلد ہے، قائدِ اعظم محمد علی جناح کے استثنیٰ کے ساتھ۔ ربع صدی بعد بیجنگ جانا ہوا توحیرت نے آلیا۔ مرکزی شاہراہ کے دونوں طرف درختوں کی تین تین چار چار قطاریں، نہایت سلیقہ مندی کے ساتھ۔ بیجنگ جو کبھی پیکنگ تھا اور دنیا کا سب سے آلودہ شہر، اب یکسر نیا دکھائی دیا۔ ’’باغ میں بازار‘‘ ساتھ بیٹھے سہیل وڑائچ مسکرائے اور دہرایا ’’ہاں، باغ میں بازار‘‘۔ مسافر بھوک کا شکار تھے۔ ایک مارکیٹ میں گاڑی روکی۔ دو تین ساتھیوں نے باتھ روم کا رخ کیا۔ واپس آئے تو ایک نے اصرار کیا ’’آئیے ایک نظر باتھ روم دیکھ لیجیے۔‘‘بے زاری سے کہا: باتھ روم میں دیکھنے کی چیز کیا ہوتی ہے۔ ’’چمک اور صفائی‘‘۔ اصرار جاری رہا تو جا دیکھا۔ مارکیٹ تو کیا ایسے باتھ روم کسی بہترین گھر میں بھی شاید ہی ہوں، کسی رئیس کی رہائش گاہ میں۔ تیس پینتیس برس پہلے تعمیر ہونے والے جس ہوٹل میں قیام کیا، اس کے بیچوں بیچ ایک نہر تھی، سبزہ و گل بھی۔پانی کا رنگ میلا تھا۔’’کیا قریب کوئی جھیل ہے؟‘‘ پتہ چلا، جھیل نہیں، سمندر ہے۔ سیاحوں کے لیے پہلا ہوٹل تعمیر ہوا تو تیس چالیس کلومیٹر دورسے پانی لایا گیا۔ یہ اہتمام بھی کہ کھانے کے ہال میں سب چیزیں حلال ہوں۔ غالباً اس امید پر کہ زیادہ تر سیاح مسلم ممالک سے آئیں گے۔ مغرب سے تعلقات کا آغاز تھا۔ اگرچہ بعد میں امریکی کمپنیوں نے سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی۔ فرعون کے گھر میں حریف پلا اور اب تن کر مقابل کھڑا ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ چینی معیشت امریکہ سے بڑھ جائے گی۔ مصنوعی ذہانت میں پہلے ہی وہ پینٹا گان کو مات دے چکے؛ اگرچہ پچھلے ہفتے امریکیوں نے ایک نیا سپر کمپیوٹر داغنے کا اعلان کیا ہے۔ لداخ میں 80ہزار چینی فوج بھارتی سرحد پر کھڑی ہے۔ ایک ہزار کلومیٹر علاقے پر قبضہ جما لیا ہے۔ ممتاز بھارتی مبصر اشوک سوائیں نے پچھلے ہفتے لکھا: بے گناہ مسلمانوں کے گھر گرانے والے ہندوتوا کے علمبردار ایسے ہی جری ہیں تو لداخ میں چینی مورچے اکھاڑ پھینکیں۔ وقت کم تھا۔ بیجنگ کے علاوہ صرف شنگھائی جانا ہوا۔ سمندر کنارے ایک نادرِ روزگار شہر، سیاح جہاں امڈے چلے آتے ہیں۔ حیران کن حد تک بعض کشادہ سڑکوں پہ گاڑیوں کا داخلہ ممنوع۔ ہر ایک کلومیٹر پہ بڑا نہیں تو ایک چھوٹا سا باغ۔ فضا آلودگی سے پاک۔ اپنی پسند کی مصنوعات خریدتے سیاح چہکتے پھرتے ہیں۔ چینی کم، غیر ملکی زیادہ۔ بلدیات کے اختیارات غیر معمولی ہیں۔ شنگھائی میں داخل ہونے والی ہر گاڑی کو مقامی نمبر حاصل کرنا ہوتا ہے کہ ٹریفک کی روانی میں خلل نہ پڑے۔ ساڑھے تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ریل گاڑی میں آئے تھے۔گاڑی کیا، گویا آپ ڈرائنگ روم میں ہوں۔ صفائی ایسی کہ آدمی اش اش کر اٹھے۔ کچھ دیر میں ٹھیلے والے آ گئے،بہت ہی خوبصورت ٹھیلے۔ کھانے پینے کی حلال اشیا۔ چاکلیٹ، چپس، جوس اور دوسرے مشروبات۔ حدِ نگاہ تک پھیلے ہوئے کھیتوں کے درمیاں بھاگتی ہوئی ریل کا یہ سفر ہمیشہ لو دیتا رہے گا۔ کراچی کا کیا ہوا، چینی جس سے سیکھنے آئے تھے 1989ء سے 1992ء کے تین سالہ عرصے میں دو لاکھ بھارتی شہری کراچی میں آن آباد ہوئے۔ طریقہ واردات یہ تھا کہ دبئی کا ویزا لیتے۔ کراچی میں مختصر قیام لیکن پھر لوٹ کر نہ جاتے۔ 1992ء میں امیگریشن کے ڈائریکٹر میجر عامر نے اس واردات کا سراغ لگایا تو واویلا کیا۔ زیادہ تر تو بھارتی مسلمان ہی ہوں گے کہ ہندوستان میں زندگی ان کی اجیرن ہے لیکن ’’را‘‘ کے کتنے ایجنٹ؟ کون جانتا ہے۔یہ بات البتہ ہم جانتے ہیں کہ 1980ء کے عشرے میں، متحدہ کے جرائم پیشہ بانی کی گرفت شہر پہ قائم ہونے لگی تو سینکڑوں دہشت گردوں نے بھارت میں تربیت پائی۔پونہ سے ممبئی تک پھیلے ہوئے کیمپوں میں۔ انہی میں سے بعض نے بعد ازاں دادو کی پہاڑیوں میں جئے سندھ کے کارکنوں کو ٹریننگ دی۔ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس اس کارِ خیر میں شریک تھی۔ ایک زمانے میں آئی ایس آئی نے سراغ لگایا کہ برطانوی ایجنسی نے، جودو سو برس سے جو برصغیر میں بروئے کار ہے، گوادر سے کراچی تک کی پٹی کو الگ کرنے کا منصوبہ بنارکھا ہے۔ حالات جب بھی سازگار ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھارتی تصور رہا ہوگا، جس کے لیے امریکہ اور برطانیہ کی مدد حاصل کی گئی۔ کیا عجب ہے کہ اسرائیل بھی شامل ہو۔ مقبوضہ کشمیر میں جس کے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں تربیت دینے والے موجود ہیں۔ اتنے کہ سری نگر کے بعض حجام عبرانی زبان کے کچھ لفظ سیکھ گئے ہیں۔ کراچی دوسرا بیجنگ یا شنگھائی بن سکتا تھا۔ اس شہر میں وہ بوہرے، اسمٰعیلی، پارسی اور سب سے بڑھ کر خود چنیوٹی اور ان سے زیادہ میمن آباد ہیں، کاروبار کا جو ہنر رکھتے ہیں۔دوسرے پاکستانیوں سے زیادہ۔ قائدِ اعظم کی اپیل پر انہوں نے کراچی کا رخ کیا تھا۔ ایرانی نژاد ظفر ہلالی سے ایک دن پوچھا: الہ باد میں اپنی کروڑوں اربوں کی جائیداد چھوڑ کر آپ کے خاندان نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ’’یہ سوال میں نے اپنے والدِ گرامی سے کیا تھا‘‘۔ جواب ملا ’’جناح‘‘ جمعرات کو کراچی کے الیکشن میں صرف 8فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ سبھی کے ووٹ کم ہو گئے۔ تحریکِ لبیک کو 2018ء کے تیس ہزار کی بجائے اب صرف دس ہزار۔ موسم گو خراب تھا اور چھٹی نہ دی گئی۔واقعہ یہ ہے کہ شہر بے زار ہے۔سندھی وڈیروں کے بغض اور اسلام آباد کی بے اعتنائی کا مارا ہوا۔ معقول معاشی بحالی کی اولین شرط امن ہوتاہے۔ پولیس ایسی کہ خلقِ خدا جس سے خوف زدہ نہ ہو۔ ایسی عدالت جو بر وقت انصاف مہیا کر سکے۔ جمہوری تشکیل رکھنے والی سیاسی پارٹیاں، جو اپنے کارکنوں سے پوچھ کر ٹکٹ جاری کریں۔ تاجر محفوظ ہوں، محفوظ کیا، پچیس تیس برس وہ بلیک میلنگ کا شکار رہے۔تین میں سے دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بیشتر سرمایہ ملک سے باہر ہے۔ سرمایہ داروں کا اعتماد کیسے قائم ہو۔ وہ بھی اپنی دولت کا بڑا حصہ سمندر پار بھیج دیتے ہیں۔ ڈالر کی قیمت ہر روز بڑھ جاتی ہے۔ سود کی شرح بیس فیصد پہ جا پہنچی۔کاروبار کا کیا فائدہ۔ لوگوں نے اپنا سرمایہ بینکوں میں رکھ چھوڑا ہے۔ جمع کرانے والے زیادہ، قرض لینے والے کم۔ ملک کی حالت ایسی ہو گئی، جیسے پتھر پہاڑ سے لڑھک رہا ہو۔ حمزہ شہباز، مریم نواز اور شہباز شریف کے بیانات سنیے تو لگتا ہے کہ کچھ دن میں فردوسِ بریں کا دروازہ کھلنے والا ہے۔ اس قوم پہ اللہ رحم کرے، جو تاریخ کے چوراہے پر لمبی تان کے سوئی پڑی ہے۔