اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین کا دورہر لحاظ سے قابل رشک تھا۔ خلافت راشدہ کے بعدرفتہ رفتہ عالم اسلام میں خلافت کی بجائے ملوکیت کاسکہ رائج ہوا۔ باری باری اموی خاندان کے بااثر لوگ خلیفہ کی صورت میں بادشاہ بنتے گئے یوں اس خاندان کایہ سلسلہ تقریبا بیانوے برس تک جاری رہا۔ اس پورے عرصے میں کم وبیش دس بارہ حکمران آئے، حکمرانی کی اور چلے گئے۔ 750 میں امیوں کی حکومت ساقط کردی گئی اور اس کی جگہ عباسیوں نے سنبھالی۔عباسی ملوکیت تقریبا پانچ سو چوبیس برس قائم رہی،اس عرصے میں تقریبا سینتیس تخت نشین گزرے۔تاریخ کامزاج عموماً یہ رہاہے کہ یہ دوقسم کے حکمرانوں کی داستان کوآگے نسلوں تک منتقل کرتی ہے۔ایک وہ حکمران جو اپنی رعیت کے ساتھ عادل رہاہوجبکہ دوسرے نمبرپرتاریخ اس حکمران کو اپنے حافظے میں رہتی دنیا تک جگہ دیتی ہے جس نے علم وفضل میں کمال حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں دوسروں کیلئے بھی راہ ہموار کی ہو۔بنو امیہ کے بارہ سلاطین کو ایک طرف رکھ دیں اور عمربن عبدالعزیز کو دوسری طرف۔آپ کو عمربن عبدالعزیز کے نام اور خدمات کا پلڑہ بھاری نظر آئے گا۔ کیونکہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنی ڈھائی سالہ دورحکومت میں عدل وانصاف کی وہ مثالیں قائم کیں کہ اکیسویں صدی کے لوگ بھی اس کے مدح میں رطب اللسان ہیں۔عمربن عبدالعزیزنے اکسٹھ ہجری میں شاہی خاندان میں آنکھ کھولی، ہوش سنبھالتے ہی اپنے آپ کو مصر کا گورنرپایااور کچھ عرصہ بعد سلطنت کے ماتحت گورنری پرمامورہوئے۔جس طرح شاہانِ بنوامیہ نے اپنے خاندانوں کوبے تحاشا مال ودولت سے مالا مال کیاتھا اسی طرح عمربن عبدالعزیز خاندان کی بھی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔کہا جاتاہے کہ ان کی ذاتی جائیداد کی آمدنی پچاس ہزار اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ عمربن عبدالعزیز اس وقت ایک لاڈلے شہزادے کے طور پر اپنی پہچان رکھتے تھے۔ستائیس سال کی عمر میں اتفاقی طور پر تخت شاہی ان کے حصے میں آئی۔سلطنت کی بھاگ دوڑ سنبھالتے ہی پہلی قربانی یہ دی کہ بیعت لیتے وقت انہوں نے حاضرین کو دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا میں تمہیں اپنی بیعت سے آزاد کرتاہوں تم لوگ جس کو چاہو، خلیفہ منتخب کرو۔ لوگوں نے جب برضا ورغبت ان کے خلیفہ بننے پر اصرار کیا تو عمر بھی اس بارِ گران کو سنبھالنے کیلئے آگے آئے۔یہیں سے ان کی زندگی نے ایک عجیب وغریب کروٹ لی۔شاہانہ زندگی کے تمام عیش وعشرت اور قصر وکسری کے درباری طریقوں کو ایسی لات ماری کہ بعدمیں مڑ کے پیچھے بھی نہ دیکھا۔مورخ لکھتے ہیں کہ خلافت سے پہلے عمربن عبدالعزیزکو ہزار درہم کا جوڑہ بھی پسند نہیں آتاتھا لیکن جب خلیفہ کے مسند پر جلوہ افروز ہوئے تو پھر چار پانچ درہم کاجوڑا بھی اپنے لیے شاندار سمجھنے لگے۔پہلے سالانہ پچاس ہزار اشرفی ملتے لیکن اب ان کی سالانہ آمدنی کا گراف اتنا نیچے آیا کہ صرف دوسو اشرفی آمدنی رہ گئی۔غیرمسلم رعایاپر ان کے عادلانہ حکمرانی، مساوات، مہذب اخلاق اور ایمانداری کا اتنا اثر ہوا کہ ہزار در ہزار آدمی ان کے اس مختصر دور خلافت میں مسلمان ہوگئے۔دین اسلام کے اس مجدد کو صرف ڈھائی سال کام کرنے کا موقع ملا جنہوں اس عرصے میں بھی لوگوں کے دل ودماغ جیت لیے۔دوسری طرف حال یہ تھا کہ بنو امیہ کا فرد فرد اس خداترس بندے کا دشمن ہوگیا کیونکہ اسلام کی عادلانہ زندگی ان کیلئے موت کی گھنٹی تھی۔یہی بنیادی وجہ تھی کہ بعدمیں نہایت بھونڈے طریقے سے ایک سازش کے تحت انہیں زہر دے دیا، یوں انتالیس سال کی عمر میں دین اسلام کا یہ تابندہ ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوا۔اب ہم آتے ہیں اس حکمران کی طرف جو خودبھی علم وفضل میں یکتاتھے اور اس شعبے میں آئندہ لوگوں کیلئے بھی شمعیں جلادیں۔یہ حکمران عباسی دورکا چھٹافرمانروا تھاور دنیا آج اسے مامون الرشید کے نام سے یادکرتی ہے۔بیت الحکم کے نام سے ان کے والد ہارون الرشید نے بغداد میں ایک عالیشان علمی مرکز قائم کیاتھا۔ اس بیت میں پارسی، عیسائی، یہودی، ہندو مترجمین کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔کہاجاتاہے کہ ان مترجمین کی کاوشوں سے جو علمی سرمایہ جمع ہو ا وہ مامون کے علمی ذوق کیلئے کافی نہ تھا۔ ان کے بارے میں ایک واقعہ ہے کہ ایک رات خواب میں ایک محترم شخص کو تخت پر جلوہ افروز دیکھ کر مامون نے اس کے قریب جاکر پوچھاجناب آپ کا اسم مبارک کیاہے؟ تخت نشین نے کہا ارسطو۔ مامون پر خوشی کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی اور پھر عرض کیا کہ حضرت! دنیا میں کیا چیز اچھی ہے؟جواب ملا کہ جس کو عقل اچھا کہے، وہی اچھی ہے۔ مامون نے اس وقت اپنے لیے ایک نصیحت کی بھی فرمائش کی، تو ان کو کہاگیا کہ توحید اور صحبتِ نیک بہتر ہے۔چونکہ مامون پہلے بھی فلسفہ پر مرمٹتاتھا اور اب ارسطو کی زیارت نے اس کے علمی مزاج پرمزید جلتی کاکام کیا۔ اس نے قیصر روم کے نام اگلے دن ایک والا نامہ روانہ کیا، لکھا کہ ارسطوکی جتنی تصانیف مل سکیں دارالخلافہ بغدادکو روانہ کی جائیں۔گو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مامون کے دور میں یونان، اٹلی اور اسکندریہ کا کوئی ایساعلمی سرمایہ باقی نہ رہا جو ترجمہ کے ذریعے عربی زبان میں منتقل نہ ہوا ہو۔بیشک، عمر بن عبدالعزیز اور مامون رشید جیسے حکمران آج اگر زندہ وتابندہ ہیں تو یہ ان کے اس قابل رشک کارناموں کی برکت ہے جوانہوں نے ایک مختصر وقت میں انجام دیئے تھے۔کاش،مسلم دنیا کے باقی سب حکمران نہ سہی،بلکہ آدھے یاایک تہائی حکمران بھی عمربن عبدالعزیز اور مامون کو فالو کرتے تو ہمارے دن کب کے پھیر چکے ہوتے۔ کاش! ہمارے حکمران عیش کوشیوں میں مصروف رہنے اور دیار غیر میں محلات بنانے کی بجائے رعایا اور قوم کی فلاح کاسوچتے تو آج امت کی یہ پستی مقدر نہ ہوتی۔