وزیر ِاعظم پاکستان کی تاریخ سے واقفیت یا عدم ِواقفیت، تشویش کا محل ہے! عِلم کا نہ ہونا عبرت ناک، اور ناقص رہ جانا افسوس ناک شے ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایران میں جو کچھ انہوں نے کہا، وہ اپوزیشن والے، لے اْڑے۔ غیرجانبدار حلقوں کا حال بھی ع انگشت ِحیرت در دہان، نیمی درون، نیمی برون کا سا ہے۔ ان کے ہمدردوں کو، کچھ تسلی شاید اس خبر سے ہو جائے کہ کینیڈا کے جواں سال وزیر ِاعظم جسٹن ٹروڈو کی زبان بھی انہی دنوں، دو بار پھسلی ہے۔ ہوا یہ کہ جاپان کے وزیر ِاعظم کی موجودگی میں، صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، جسٹن ٹروڈو جاپان کی جگہ دو دفعہ چین کہہ گئے۔ وزیر ِاعظم پاکستان کی تاریخ پر طبع آزمائی سے، ایک نکتہ مْثبت بھی نکلتا ہے۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے یہ واقعات کہیں پڑھے ہی ہوں گے۔ یہاں تو کئی وزیر ِاعظم ایسے ہو گزرے ہیں، جو کھانے کے مینیو کے سوا، شاید ہی کچھ پڑھتے ہوں! وزیر ِاعظم کا بیان کردہ لطیفہ، یہ سوال اٹھاتا ہے کہ معلوم اور موجود تاریخی حوالے، آخر کتنے مستند ہیں؟ اور تاریخ میں بھی زمین و آسمان کے قلابے کیا مِلائے جاتے رہے ہیں؟ نپولین کہتا ہے کہ تاریخ، جھْوٹ کا ایسا طْومار ہے، جو اتفاق ِرائے سے باندھا گیا ہے! لْطف یہ ہے کہ اس کی گواہی، جا بجا، خود تاریخ سے مِل جاتی ہے۔ مثلاً بر ِصغیر کے مسلمانوں اور ہندوئوں کی تاریخیں، ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اور انگریز، جو دونوں کو ہنس ہنس کر لْوٹ رہا تھا، اپنے پرچہ نویسوں کے ذریعے، دونوں کو ہانکتا رہا۔ تاریخ کے کھیل ہیں بھی عجیب۔ یہ کسے کھا جائے اور کسے جیتا رکھے، یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ علامہ شبلی کا عِلم و فضل، آج بھی مْسلّم ہے۔ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ وہ شمس العلماء کا خطاب پائے ہوئے تھے۔ اسی زمانے کی بات ہے کہ دلی میں، کسی انگریز حاکم کو ایک علمی خدمت درکار ہوئی۔ ہوا یہ کہ ایک عربی مخطوطہ دریافت ہوا، جس پر اِعراب نہیں لگے ہوئے تھے۔ صاحب بہادر کسی ایسے عالِم کی تلاش میں تھے، جو اس پر اِعراب لگا سکے۔ بڑی تلاش ہوئی لیکن ناکامی ہوتی رہی۔ آخر کسی نے مشورہ دیا کہ فلاں محلے کی جو چھوٹی سی مسجد ہے، اس کے امام، بڑے عالِم و فاضِل ہیں، شاید کچھ مدد کر سکیں۔ رْکا ہوا کام کسی طور نکل آئے، صاحب بہادر یہی چاہتے تھے۔ کتاب امام صاحب کے پاس اسی شام پہنچا دی گئی۔ صاحب بہادر کو توقع تھی کہ یہ کام، مہینوں یا جلد از جلد، ہفتوں میں پورا ہو گا۔ امام صاحب نے اسی شب، عشاء کے بعد، پوری کتاب دیکھ، اِعراب لگا، کتاب اگلی صبح واپس بھجوا دی۔ صاحب بہادر دنگ رہ گئے۔ کہا کہ یہ تو بہت بڑے عالِم ہیں، انہیں شمس العلماء کا خطاب دلانا چاہیے۔ یہ خبر جب ان امام صاحب تک پہنچی تو چٹخ گئے۔ تنک کر کہا۔ واہ صاحب، جو خطاب شبلی کو، وہی ہمیں بھی؟ گاڑی بڑھائیے! تاریخ ان امام صاحب کو کھا گئی، شبلی باقی رہے۔ یہ بھی تشفی سے نہیں کہا جا سکتا کہ راوی، بھروسے کے سو فیصد لائق ہے۔ شہنشاہ اکبر کے دربار کے، ابوالفضل اور مْلا بدایونی، دونوں حاضر باش تھے۔ جو بار یہاں، ابوالفضل کو حاصل تھا، اس کا عْشر ِعشیر بھی بدایونی کو نصیب نہ ہوا۔ بلکہ بدایونی اکثر معتوب بھی رہے۔ دلچسپ بات ہے کہ اس دور کے چشم دید اور سب سے مشہور مورخ، یہی دونوں ہوئے۔ لیکن جلوت و خلوت کے ساتھی ابوالفضل کی تصنیف، تاریخ سے زیادہ، فضائل نامہ نکلتی ہے۔ بدایونی کی کتاب، البتہ بڑی مستند قرار پاتی ہے۔ یہ استناد یوں ثابت ہے کہ بدایونی کی کتاب میں، اکبر کے الحاد کے ساتھ ساتھ، مصنف نے اپنے بھی بہت سے گناہوں کا، اندراج کر دیا ہے! نہایت صاف گوئی اور بے باکی سے اس کتاب کا لکھا جانا اور بچ رہنا، عجائبات میں سے ہے۔ اس لیے کہ ملوکیت میں بادشاہ پر، خواہ وہ اکبر جیسا ہی کیوں نہ ہو، تنقید کرنا، اپنا زن بچہ کولہو پلوانا تھا۔ اکبر کا ایسا کڑا محاسبہ، کسی اَور سے ہوا بھی نہیں۔ اورنگزیب جیسا متشرع بادشاہ، اکبر کو جگہ جگہ "خْلد آشیانی" لکھتا رہا۔ یہ کتاب استثنائی مثالوں میں سے ہے ورنہ ہر دور، زیادہ تر اپنے "ابوالفضلوں" سے پہچانا جاتا ہے۔ مورخ کہِیں کہِیں، رائی کا پربت اور پَر کا کوا بھی بناتے رہے ہیں۔ فردوسی، جس کے شاہنامہ کو ایران کی منظوم تاریخ کہا جاتا ہے، اپنے سب سے مشہور کردار کے بارے میں کہتا ہے منش کردہ ام، رستم ِداستان وگرنہ یلی بْود در سیستان یعنی، رستم ِداستاں اسے میں نے بنایا۔ ورنہ وہ سیستان کا صرف ایک پہلوان ہی رہ جاتا! اسی طرح، آج یقین سے کَون کہہ سکتا ہے کہ سکندر ِاعظم اور چنگیز خان کی غارت گریوں کے قصے، ہم تک پورے پورے پہنچے ہیں یا نہیں؟ تیمور اپنی تاخت و تاراج کی کہانی، خود لکھ گیا ہے۔ لیکن اسے بھی حتمی دفتر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ خیر، یہ سب پْرانے قصے تھے۔ اب پچھلے بیس برسوں کے کچھ واقعات، ذرا یاد کر لیجیے۔ سینکڑوں واقعے، بیسیوں عنوان سے بیان کیے گئے ہیں۔ ایک ہی شخص، کسی "آنکھوں دیکھے" حال سے ولن ثابت ہوتا ہے اور کسی دوسرے کی نظر میں ہیرو۔ اصل میں، ہر شخص تاریخ لکھنے کے لائق ہوتا بھی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لکھنے والا، متعصب نہ ہو کم نظر نہ ہو۔ بلکہ ایمان داری اور بے تعصبی، اس کی اولین شرائط ہیں۔ خود ہمارے ہاں بھی، تاریخ دان کم اور تاریخ ساز زیادہ ہیں! کہنا چاہیے کہ آدمی کو، تاریخ تو خیر، جغرافیہ ضرور جاننا چاہیے۔ تاریخ، زیادہ تر، تعصب، اضداد اور اختلاف کا پلندہ ہے۔ اس کے یک رْخے پن کی بابت، افریقی کہاوت غلط نہیں ہے کہ جب تک شیروں کو اپنے مورخ میسر نہیں آتے، شکاریوں ہی کے قصیدے لکھے جاتے رہیں گے۔ اس سے بھی آگے کی بات یہ ہے کہ کیمرے کے سوا، تاریخ سے انصاف کوئی نہیں کر سکتا۔ اس دنیا میں جو کچھ گْزر چکا ہے، وہ کیمرے کی آنکھ، اگر کہیں محفوظ کر سکتی، تو آنکھوں سے آنسو کی جھڑی، لگی ہی رہتی۔ ہمارے شاعر کا قول بھی سْنیے۔ پڑھتا ہوں ہر اینٹ پر نوحے، رْکا رہتا ہے کام سخت عاجز ہے وہ مجھ تاریخ داں مزدْور سے