مشاہدہ تو یہی کہتا ہے کہ ہر نئے حکمران کے لئے پرانے حکمران چور ،ڈاکو، ٹھگ اور کرپٹ ہوتے ہیں ۔ کبھی کسی نے اپنے سے پہلے حکمران کے لئے تعریف کے دو بول نہیں بولے۔ یہاں قائد اعظم ؒ تھے بات انگریزی میں کرتے اور سننے والے اردو تک سے نا بلد تھے لیکن ایک ایک شخص اٹھ کر گواہی دیتا یہ شخص جو کچھ کہہ رہا ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے۔ لیاقت علی خان تھے جب شہید ہوئے تو جیب میں چند روپے اور اچکن کے نیچے پھٹی ہوئی بنیان تھی ۔ غلام محمد تھے جن پر تما م غیر جمہوری رویوں کے با وجود کوئی شخص بے ایمانی ، کند ذہنی اور تساہل کا الزام نہیں لگا سکتا۔ اخلاص اور ایمانداری اور ذہانت کا مرقع چودھری محمد علی تھے۔ محمد علی بوگرہ تھے ،وزارت عظمیٰ ہاتھ سے نکلی تو دوبارہ سفارت قبول کرنے میں ایک منٹ نہ لگا یا۔ سردار عبد الرب نشتر تھے جن کے بچے گورنر ہائوس سے پیدل گھر جاتے تھے۔ اسکندر مرزا تھے ان کے آخری ایام لندن کے ایک ہوٹل میں معمولی ملازمت کرتے گزرے۔ ایوب خان تھے جو ایوان صدر کے ایک روپے کا حساب رکھتے تھے ۔ ذولفقار علی بھٹو جو متکبر اور ضدی ہونے کے با وجود ذہانت مطالعے اور خطابت میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے ۔ ضیاء الحق تھے کئی غلط فیصلوں کے با وجود ان کی برد باری اور پرہیز گاری اور مہمان نوازی کی گواہی کون نہیں دیتا ۔ آج کے حکمرانوں اور حزب مخالف کو سینے تانے ایک دوسرے کو تہہ و بالا کر دینے کا جوش و جذبہ دیکھتا ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اقتدار میں ایسی کیا کشش ہے کہ انسان اس کے حصول کے لئے اپنی جان تک دائو پر لگا دیتا ہے۔ جلا وطنی ،جیلیں اور سزائیں برداشت کرکے بھی اس کا چسکا کم نہیں ہوتا۔ اس کی خواہش مدہم نہیں پڑتی ۔ اقتدار میں ایسا جادو اور نشہ ضرور ہے جو حکمرانوں کو مخالفین پر چڑھ دوڑنے پر اکساتا ہے جب ہی تووزیر اعظم باربار یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اپوزیشن این آر او مانگتی ہے یہ لوگ احتساب اور مقدمات سے فرار کے لئے بہانہ بازی کرتے ہیں۔ میں انہیں این آر اونہیں دونگا ۔ وزیر اعظم کے مصاحبین کہتے ہیں کہ جمہوریت اورحکومت مضبوط فیصلوں سے چلتی ہے۔ ملک کی غالب اکثریت عمران کے ساتھ ہے۔ کوئی تحریک نہیں، کوئی ہلہ گلہ نہیں، کوئی دھرنا نہیں ،اپو زیشن کی کوئی اہمیت نہیں۔ عمران خان کو یہ ضرور سوچنا چاہیئے کہ انہوں نے الیکشن جیتا ہے کوئی ملک فتح نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے 16%جبکہ ان کے مخالفین نے 20%ووٹ لئے ہیں ۔ آپ انہیں بلڈو ز کرنا بھی چاہیں تو ایسا نہیں کر سکیں گے۔ یہ بات منطقی ہے اور درست بھی لگتی ہے کہ اپوزیشن ہر قیمت پر مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات سے پہلے آپ کا راستہ مسدود کرنے کی کوشش ضرور کرے گی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اگر آپ نے سینٹ میں اکثریت حاصل کر لی تو آپکا رویہ زیادہ منتقامہ اور آمرانہ ہو جائے گا۔ مجھے نہیں معلوم اپوزیشن اپنے کارڈ کس طرح کھیلے گی لیکن آپ یقینا سوچ رہے ہونگے کہ آپ کا اداروں کے ساتھ اچھا تعلق اور آپ اس ساجھے داری سے با آسانی بڑے فیصلے کر سکتے ہیں۔ اپوزیشن مقدمات میں الجھ کر جیلوں میں چلی جائے گی اور آپ کو واک اوور مل جائے گا لیکن تاریخ بتاتی ہے آپ غلط سوچ رہے ہیں ۔مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے سے آپ کی مخالفت کم نہیں بلکہ بڑھ جائے گی ۔ مانا اسٹیبلشمنٹ اس وقت آپکا ہاتھ تھامے ہوئے ہے لیکن سیاسی طور پر آپ کی پارٹی میں آپ کے گرد حصار بہت کمزور ہے۔ عموماً حکمران زیادہ اعتماد سے سر شار ہو کر غلط فیصلوں کے مرتکب ہوتے ہیں میرے خیال میں موجودہ حکومت کا ایک بڑا مسئلہ تر جیحات کے تعین ہر وقت فیصلہ سازی ہے ۔ مہنگائی بے روزگاری غربت اور امن و امان کے مسائل نے حکومت کی ساکھ کو غیر معمولی نقصان پہنچا یا ہے کیونکہ اس سے عام آدمی متاثر ہو ا ہے۔ بارش سیلاب کی تباہ کاریوں سے عام لوگ حکومت سے شاکی ہیں۔ میں سندھ کے حوالے سے پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے اور آپکے ہم وطن مائیں ،بہنیں، بیٹیاں، بیٹے اور بھائی کھلے آسمان تلے خستہ خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں کبھی آپ نے سوچا نہ اس کڑی دھوپ میں جو نسلیں آنکھیں کھول رہی ہیں وہ اس ملک کے بارے میں کیا سوچتی ہونگی۔ یہ بھی آپ کے ووٹر آپکے ہم وطن ہیں ۔ یہ کراچی اسلام آباد سے دور میر پور خاص کے قریب تھر کے سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں۔ آپ سچ جانیں ان غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کو آپ بھی دیکھیں گے تو میری طرح آپ کی آنکھیں بھی آنسو برساتی رہیں گی۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی قوت اور مسلز آزمانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تو سوچے کہ ہم اس سلسلے میں اپنے شہروں اور قصبوں میں بارش کا میٹھا پانی جمع کرنے اور گندے پانی کی نکاسی کے لئے 73سال میں کیوں نہ کچھ کر سکے۔ جی ہاں جناب تاریخ بڑی سنگ دل ہے کہ اس حکمرانوں کے ذاتی ایمانداری اور انفرادی اخلاق سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ صرف بڑے لوگوں کے کارنامے دیکھتی ہے ۔ حضرت عمر ؓ کی دوپہریں صحرا میں گزریں اور راتیں مدینہ کی چوکیداری میں، تو تاریخ اسے ایک صفحہ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی لیکن امیر المومنین سیدنا فاروق اعظمؓ کے کارناموں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ کارل مارکس نے اپنے بچے کو اخبار میں لپیٹ کر دفن کیا تھا لیکن کمیونزم کے خالق کو پوری دنیا جانتی ہے۔ ماوزے تنگ دو کمروں کے مکان میں رہتا تھا، جس کے پاس دو جوڑے کپڑے اور ایک جوڑا جوتا تھا لیکن عوامی جمہوریہ چین کے بانی مائو زے تنگ کو کون نہیں جانتا وہ گورنر جنرل بناتو صرف ایک روپیہ تنخواہ لی ۔ ایک وقت کا کھانا کھاتا تھا ۔ اسٹاف کو ذاتی جیب سے تنخواہ دیتا ۔پاکستان جیسے معجزے کے خالق محمد علی جناح کو کون نہیں جانتا۔ آپکو یاد رکھیں گے اگر آپ کے کھاتے میں ذاتی ایمانداری کے علاوہ کوئی کارنامہ نہ ہوا ۔ آپ نے قوم کی تعمیر نہ کی، کوئی نیا نظام نہ دیا، کسی سسٹم کی اصلاح نہیں کی، نہ انصاف دلایا، نہ تعلیم، نہ غربت، نہ طبقاتی تفریق ختم کی اور نہ معاشی عدل قائم کیا تو تاریخ اور انسانی حافظہ آپ کو فراموش کر دے گا ۔ فیصلہ آپ خود کر لیجئے۔