اس عنوان کا بھارتی اداکارسنی دیول کے فلم دامنی کے معروف ڈائیلاگ سے کوئی تعلق نہیں ، کیونکہ یہ عدالت میں پڑنے والی مقدمات کی تاریخ کے حوالے سے نہیں ہے۔ یہ وہ تاریخ پہ تاریخ ہے جو ہمارے ڈرائنگ روم سیاسی ماہرین حکومت کے جانے کے حوالے سے دیتے چلے آ رہے ہیں۔یہ تاریخیںکچھ خواہشات پر مبنی ہیں اور کچھ ان کے با خبر ذرائع انکے جذبات کو تسکین پہنچانے کے لئے ’’لیک‘‘ کرتے رہتے ہیں۔اس حوالے سے حکومت کے جانے کی پہلی تاریخی پیش گوئی حکومت کے چھ ماہ پورے ہونے پر کی گئی کہ بس ہنی مون ختم ، عمران خان کو لانے والے تنگ آ گئے ہیں اور وہ جلد اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مئی (2019) میں انکی چھٹی ہو رہی ہے۔ جب انکو یاد دلایا جاتا کہ عمران خان کو تو عوام ووٹ دے کرلائے ہیں جیسے اس سے پہلے میاںنواز شریف اورا س سے بھی پہلے پیپلز پارٹی کو لائے تھے تو فوراً جواب آتا کہ وہ تو اصلی انتخابات کے نتیجے میں آئے تھے۔ کمال یہ ہے کہ قومی اسمبلی سے لیکرصوبائی اسمبلیوں تک عمران خان کے دور حکومت میں بھی کم و بیش وہی ممبران ہیں جو اس سے پہلے اسمبلیوں میں تھے۔ اگر وہ 2008اور 2013 میں عوامی ووٹ سے آئے تھے تو اس بار کسی اور کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ انکو منتخب کراتا۔ یہ ضرور ہے ان میں سے ایک بڑے گروپ نے 2008 میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا، 2013میں وہ مسلم لیگ (ن) کی چھتر چھایہ میںآگئے اور اب عمران خان کے ساتھ ہیں۔ ان لوگوں کا کام ہی حکومت میں رہنا ہے اگر حکومت کسی دوسری جماعت کی بن گئی ہے تو انکا کیا قصور۔ اس دلیل کا ثبوت وہ طعنے ہیں جو اپوزیشن آئے دن عمران خان کو دیتی ہے کہ، یہ کیا تبدیلی لائیں گے انکے ساتھ تو سب پرانے’’ سٹیٹس کو‘‘ کے حامی بیٹھے ہیں۔ مئی2019 خیریت سے گزر گیا، حکومت کا جانا تو دور کی بات جانے کی باتیں بھی دم توڑ گئیں۔پاکستان تحریک انصاف نے اپنا پہلا خالص بجٹ پیش کیا اور پاس بھی کرایا۔جولائی 2019 کے آغاز میں ایک بارپھر حکومت کی رخصتی کی تاریخ آنا شروع ہوئی۔ان معاملات میں ہمارے ایک بہت ہی با خبر دوست، جن کا مریم نواز صاحبہ سے وٹس ایپ پر رابطہ بھی رہتا ہے، سرگوشی میں بتایا کہ دیکھتے جائیں نومبر 2019 کے بعد عمران خان کی حکومت فارغ ہے۔ انہوں نے اور بھی بہت سی اہم تبدیلیوں کا بتایا لیکن اس میں سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ شاہد خاقان عباسی سے کچھ با رسوخ لوگوں کا رابطہ ہوا ہے اور وہ وزیر اعظم کے متفقہ امیدوار تقریباً بن چکے ہیں ۔ دریافت کیا کہ متفقہ سے کیا مراد ہے، پتہ چلا پیپلز پارٹی سمیت تمام اپوزیشن کی جماعتیں مان گئی ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے بھی کچھ لوگوں سے بات کر کے نمبرز گیم شاہد خاقان کے حق میں کی جا چکی ہے۔اس پیش گوئی کے دو ہفتے بعد شاہد خاقان عباسی کو نیب نے ایل این جی سکینڈل میںگرفتار کر لیا اور ہمارے دوست کا یہ پلان ٹھپ ہو گیا۔ امید تھی کہ وہ شرمندہ ہونگے اور اپنی بے خبری کا اقرار کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ نومبر میںعمران خان کی بطور وزیر اعظم رخصتی پر ڈٹے رہے۔اگست2019کے بعد یہ صاحب پہلی بار حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے بہت مایوس دکھائی دینے لگے۔اسی طرح کچھ اور دوست بھی جو نومبر میں حکومتی تبدیلی پر یقین رکھتے تھے وہ بھی خاصے مایوس نظر آئے۔انکی مایوسی اس وقت دیدنی تھی جب پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں مشترکہ طور پر مسلح افواج میں سربراہان کی تقرری کے حوالے سے بل پاس کر دیا۔تب جا کر سمجھ آئی کہ ہمارے یہ با خبر دوست نومبر میں تبدیلی کے حوالے سے کیوں اتنے پر امید تھے۔خیر نومبر بھی گزر گیا اوراس صدی کی دوسری دہائی شروع ہو چکی ہے۔ اب ان دوستوں کی نئی امید حکومتی اتحادی ہیں۔ جیسے ہی اتحادیوں نے حکومت سے گلے شکوے شروع کئے ان صاحبان نے پھر حکومت کے جانے کی تاریخیں دینا شروع کر دیں ۔اس بار مختلف قسم کی تھیوریاں بیچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس میں مسلم لیگ (ن) کی مسلم لیگ (ق) سے ملکر پہلے پنجاب میں اور پھر مرکز میں ان ہائوس تبدیلی کی تحریک شامل ہے۔ دوستوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک کامیاب ہو گی اور عمران خان کی چھٹی ہو جائے گی۔جب نمبرز گیم کی بات کی جاتی ہے کہ وہ تو عمران خان کے حق میں ہے ،تو سرگوشی میں بتایا جاتا ہے آپ دیکھ نہیں رہے کہ عدالت سے انصاف مل رہا ہے۔ باقی اداروں سے بھی معاملات طے پا چکے ہیں جلد مریم نواز بھی لندن چلی جائیں گی۔ حکومتی تبدیلی کے حوالے سے میاں نواز شریف کی مشاورت سے پلان تیار ہو رہا ہے۔پوچھا کہ کیا جنکو آپ سیلیکٹرز کہتے رہے ہیں انہوں نے اب آپ کو سیلیکٹ کر لیا ہے توہمارے دوست نے انتہائی ناگواری سے جواب دیا کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔دریافت کیا ، تو پھر اتنے وثوق سے معاملات کی بہتری اور حکومت کی تبدیلی کی بات کیوں کر رہے ہیں، جواب ملا یہ مارچ کے مہینے میں بتائوں گا جب اس ملک میں اصلی جمہوریت ہو گی۔گویا نئی تاریخ۔پتہ نہیں کب تک ہمارے دوست تاریخ پہ تاریخ دیتے رہیں گے۔ ابھی تک یہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان نئی تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے۔ بھلے وہ معیشت کا شعبہ ہو، غربت کے خاتمے کے منصوبے ہوں، دہشت گردی کے خلاف حتمی کامیابی ہو، وطن عزیز میں کرکٹ کی بحالی ہو، ملک کے اندر اور باہر سے ٹورسٹ کی پاکستان کے خوبصورت علاقے دیکھنے میں دلچسپی ہو، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی زر مبادلہ بھیجنے میںغیر معمولی اضافے کا معاملہ ہو، ہر طرف مثبت اشارے ہیں۔اشیائے ضروریہ اور انرجی کی قیمتوں سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ اس حوالے سے حکومتی اقدامات کا شدت سے انتظار ہے کہ عمران خان اپنے وعدے کے مطابق اب عام لوگوں کے لئے ریلیف کا بندو بست بھی کر یں گے۔ کیونکہ مہنگائی کی یہ صورتحال برقرار رہی تو تاریخ پہ تاریخ آتی رہے گی۔