آج صبح اخبارات کے مطالعے کا آغاز ایک خوشگوار حیرت سے ہوا۔ بعض کالم تو میں پڑھتاہی اس نظر سے ہوں کہ کالم نگار نے اس پر کوئی سنجیدہ معاملے پر بات کر رکھی ہو گی۔ کہیں وہ مجھ سے چوک نہ جائے۔ لکھنے والے کی شہرت ہی ایسی ہوتی ہے۔ لیکن بعض دوسرے لکھنے والوں سے میں ذرا دوسری طرح کی بصیرت حاصل کرنے کا متمنی ہوتا ہوں۔ ملک اور خطے کے جو حالات ہیں بلکہ عالمی سطح پر جو معاملات ہیں ان کے پس منظر میں میرا خیال تھا کہ بہت جلے بھنے خیالات پڑھنے کو ملیں گے۔ خود مرے اندر ایک ایسا ہی الائو ہے۔ حیرانی مجھے اس بات پر ہوئی کہ ہمارے اہل دانش ان ٹیڑھے حالات میں سیدھی راہ تلاش کرنے کی فکر میں ہیں جو تحریر پڑھتا ہوں لگتا ہے ہم نے اپنے اندر اتر کر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ مرے لئے یہ بہت حیرانی اور خوشی کی بات ہے۔ دیکھئے سوال کیسے اٹھتے ہیں اور ردعمل کیسے آتا ہے۔ اگر اوریا مقبول جان آمریت یا جمہوریت کی بحث کو ایک نئی جہت سے لیتے رہے ہوں‘ تو حیرانی نہیں ہونا چاہیے۔ جاوید غامدی کی مذہبی تناظر میں پکڑکرنا ان کا کام ہے۔ ان میں کون درست ہے ‘ کون غلط یہ دوسری گفتگو ہے۔ مگر جب سعدیہ قریشی جیسا نازک و نفیس ذہن بھی ہمارے ہاں چند خبریں پڑھ کر خودکشیوں کے نفسیاتی عوامل کا جائزہ لینے لگے تو سوچنا پڑتا ہے کہ حالات کتنے گھمبیر ہیں۔ ہر ایک سوچنے سمجھنے والا حالات کا تجزیہ کرنا چاہتاہے۔ اس لئے مسئلہ یہ نہیں نواز شریف بیمار ہیں یا نہیں‘ ہماری حکومت اور اپوزیشن میں تصادم رہے گا یا ختم ہو جائے گا۔ اس میں کوئی ردِّانقلاب کی نئی لہر شروع ہو رہی ہے یا یہ عالمی سامراج کے عمومی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ مودی اور ٹرمپ دنیا کو لے ڈوبیں گے یا کوئی امید کی کرن ہے۔ کتنی بڑی بڑی خبریں ہیںمگر ہم اس سے بھی آگے جا کر غور و فکر کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی صورت حال ہمارے لئے اہم ہے۔ ہمارے معیشت دان کیا کہتے ہیں۔ مگر ہم ان کے پیچھے ان عناصر کو جاننا چاہتے ہیں کہ یہ ’’ہاٹ سٹی‘‘کیا ہے۔ گرما گرم پیسہ گویا کیا بلا ہے اور کہاں سے آ رہا ہے۔ ہمارے اردگرد بے شمار مسائل پھیلے ہوئے ہیں اور ہم انہیں ہر سطح پر دیکھ سکتے ہیں۔ لگتا ہے وقت آ گیا ہے کہ ان موضوعات پرگہرائی میں جا کر غور کیا جائے۔ مثال کے طور پر تیس سال پہلے تک دنیا میں میں صرف دو طرح کی لڑائیاں تھیں۔ ایک طرف جمہوریت تھی‘ دوسری طرف ایسا نظام تھا جسے آمرانہ تو ہم نہیں کہتے تھے البتہ اس کی خوبیوں کے باوجود اس پر اعتراض ہی کرتے تھے کہ یہ آمرانہ ہے۔ مطلب یہ کہ جمہوریت ہماری آئیڈیل تھی۔ دوسری طرف یہ کہا جاتا تھا کہ یہ جمہوریت تو ایک ڈھونگ ہے‘ اصل میں تو یہ ایک سرمایہ داری طرز حیات ہے جو معاشی عدم مساوات پر قائم ہے۔ ایسے لگتا تھا کہ روس اور امریکہ انہی اصولوں پر آپس میں برسر پیکار تھے۔ ہم اس سرزمین کے مرنجاں مرنج باسی یہ سمجھتے تھے کہ کمیونزم چونکہ مذہب دشمنی ہے اور انسانی آزادیاں بھی چھین لیتا ہے‘ اس لئے ہمارا وژن جمہوری دنیا کے ساتھ ہونا چاہیے۔ عالم اسلام میں بہت سے ملک ایسے تھے جنہوں نے جمہوریت کبھی دیکھی ہی نہ تھی‘ وہ اس نظام سے اس طرح کی کوئی کد رکھتے ہی نہ تھے۔ دونوں ہی سچے ہوں گے ‘ مگر دنیا میں خوب گرما گرمی اس حوالے سے تھی۔ ایسے میں اعتدال کی راہ دکھانے والے سوشل ڈیمو کریسی کا علم اٹھا کر چلے آتے تھے۔ اب لگتا ہے نقشہ بدل گیا ہے۔ چین نے اسے نئے معنی دے ڈالے ہیں۔ وہ معیشت کو تو آزادی دیتا ہے مگر اس نے سیاسی نظام اپنا ’’ٹائٹ‘‘ ہی رکھا ہوا ہے ادھر ایشیائی ٹائیگر دھاڑنے لگے۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے اس کی تعریف ہی کی‘ مگر وہاں کوئی ایسی جمہوریت نہ تھی جس کی اس نظر سے تعریف کی جائے۔ میرے جیسے ذہنوں میں بھی یہ سوال پیدا ہونے لگے کہ مغرب نے تو ہمیں فحاشی ‘ بے حیائی ‘ آزاد روی‘ مذہب بیزاری کے علاوہ اور کیا دیا ہے۔ جواب آیا معاشی خوشحالی۔ اس پر بھی جوابی وار ہوا کہ وہ تو ایشیائی ٹائیگروں نے بھی حاصل کر لی ہے اور وہاں کوئی ایسی جمہوریت بھی نہیں ہے جس کی تعریف کی جائے۔ بلکہ ایشیا میں جہاں جمہوریت کا بول بالا کہا جاتا ہے وہ تو بھارت ہے۔ وہاں خوب ترقی بھی ہو رہی ہے اور نام نہاد جمہوری قدروں کے پرخچے بھی اڑائے جا رہے ہیں۔چنانچہ اس خطے میں ہمارے جو آئیڈیل تھے وہ معاشی ترقی کے حوالے سے تھے۔ جمہوری قدروں کے تناظر میں نہیں۔ ادھر ہمارے ملک کا معاملہ یہ ہوا کہ یہاں مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ جاوید احمد غامدی صاحب کو ملک چھوڑناپڑا۔ وہ جا کر ملائشیا میں آباد ہو گئے۔ اب وہ وہاں سے امریکہ شفٹ ہو رہے ہیں کیا یہاں کے ذہن کا پیراڈائم شفٹ بھی ہے۔ یہ سارا سفر‘ ذہنی سفر بھی بن جاتا ہے۔ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ آپ جس ماحول میں ہوتے ہیں‘ اس کا اثر آپ کی فکر پر بھی پڑتا ہے۔ یہ بات تو یہاں تک کہی جاتی ہے کہ ہمارے بڑے بڑے آئمہ کرام کے نکتہ ہائے نظر میں جو فرق ہے اس کی تاریخی‘ جغرافیائی اور نسلی وجہ بھی ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ بنیاداسلامی اصول بھی ہوتے ہیںمزارعت کے بارے میں امام ابو حنیفہ ؒاور امام ابو یوسفؒ کی رائے میں فرق کیوں ہے۔ میں نے خود اس بات پر غور کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہمارے جو مسلمان دانشور ان ممالک میں رہتے ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں‘ وہاں ان کی رائے میں ان دانشوروں کی رائے سے فرق کیوں ہے۔ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ فراق گھورکھپوری نے کہیں کہہ رکھا ہے کہ اقبال اس اذیت کے ساتھ کہتا ہے کہ وہ جس ملک میں رہتا ہے وہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ یہ بہت باریک نکتہ ہے۔ پاکستان کا مسلم دانشور اسلام کی اس تعبیر کا زیادہ قائل ہو گا جو اسلامی حکومت قائم کرنے کے حق میں ہے۔ ہندوستان میں رہنے والا وحید الدین خاں بن کر رہ جائے گا۔ کیونکہ اس نے اکثریت کے ساتھ نباہ کرنا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں رہنے والے وہ مسلمان تارکین وطن جنہیں مغرب کی تہذیب و اقدار کے ساتھ جینا ہے۔ بعض معاملات پر مختلف انداز فکر رکھیں گے۔ عرب بہاراں کے بعد جب تیونس‘ مراکش اور مصر میں انتخابات کی بنیاد پر اسلامی ذہن رکھنے والے کامیاب ہوئے تو بڑی شدو مد سے ماڈریٹ اسلام کا چرچا ہوا۔ ترکی کے ماڈل کی شہرت ہوئی۔ اس سے پہلے جہاد والی تعبیر کو بھی مقبولیت ملتی رہی ہے۔ اس کی بھی وجوہ ہیں ان دونوں کے درمیان وہ اسلام تھا جسے مغرب سیاسی اسلام کہتا ہے۔ اور ہم جیسے اسے اسلام کی جمہوری تعبیر قرار دیتے ہیں۔ اس ساری بحث کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اسلام کو اپنے قد کے مطابق کاٹ لیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بعض پہلوئوں پر ہمارا اصرار ہمارے حالات کی وجہ سے ہوا کرتا ہے۔ اسے کفر و اسلام کی لڑائی نہیں بنانا چاہیے۔ خیر یہ بھی ایک بحث ہے جو الگ نشست کا تقاضا کرتی ہے۔ غامدی صاحب کے پیروکاروں میں سب سے نمایاں خورشید ندیم ہیں جو مذہب کو سیاست بنا کر ریاست پر مسلط کرنے کے بجائے یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ سیاسی نظام کو جمہوری قدروں کے مطابق چلتے رہنا چاہیے۔ اس پر مجھ جیسوں کو کبھی کبھی یہ خیال آتا تھا کہ یہ تو جمہوریت کو مذہب کے مخالف کھڑا کرنے کی بات ہو گئی۔ یعنی اسلام کے لئے سیاسی میدان میں جدوجہد نہ کریں۔ تیونس کے ’’اہل اسلام‘‘ نے یہی فیصلہ کیا ہے۔ وہاں کی تحریک اسلامی کے ممتاز رہنما عبدالرشید الغنوشی اسی راہ پر چل پڑے ہیں اور پاکستان میں جماعت اسلامی سے بھی بعض لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ دین اور سیاست کی جدوجہد کو دو الگ حصوں میں بانٹ لیں۔ یہ تاریخ کا جبر ہے یا کچھ اور مطلب یہ کہ تعبیر ہی بعض اوقات سیاہ اور سفید کی طرح ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوا کرتیں۔ حضرت عثمان غنی ؓاور حضرت ابو ذر غفاری ؓکے درمیان حکم بنناآسان نہیں ہے۔ بڑا دل گردہ چاہیے اور اسے کفرو اسلام کی جنگ قرار دینا تو ممکن ہی نہیں۔وگرنہ جنگ صفین اور جنگ جمل بھی ایک حقیقت ہیں۔ اصل میں بات صرف ایک نکتے تک محدود ہوئی جا رہی ہے۔ اور وہ ہے غامدی کا سفر یا غامدی کی ہجرت۔ عملی طور پر ہی نہیں فکری طور پر بھی۔ گزشتہ دنوں سلیم صافی صاحب کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں غامدی صاحب نے دنیا میں برپا تصادم کو جمہوریت اور آمریت کی جنگ قرار دیاہے۔ پاکستان سے ملائشیا اور ملائشیا سے امریکہ ہجرت کرتے ہوئے ان کی فکر کا سفر جس رخ پر چلے گا‘ اس کا یہ فطری تقاضا ہے کہ وہ اس سوال پر غور کریںصرف اس سفر ہی کا نہیں خود ان کے ذہن کا بھی‘ جس کی تشکیل میں اور بہت سے عوامل نے حصہ لیا ہے۔ میں اس کا بہت سنجیدگی سے مطالعہ کروں گا مگر اسے اس آخری جنگ سے تعبیر کرنے میں اجتناب کروں گا جو ہمارے بعض دانشوروں کی رائے میں حدیثوں کی روشنی میں آخری جنگ ہے۔ بات میں نے یہاں سے شروع کی تھی کہ ہماری دانش نے بہت گہرائی میں جا کر سوچنا شروع کر دیا ہے۔ یہ عمل تکلیف دہ تو ہے مگر اس لحاظ سے قابل قدر بھی ہے کہ ہم صرف سطحی بحثوں میں الجھنے سے گہرائی میں اتر رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ مگر اس بات کا بھی اعلان ہے کہ حالات اتنے گھمبیر ہیں کہ ہم اپنی ذات کی تہوں کے اندر اترنے پر مجبور ہے۔ نواز شریف بھلے سے ناشتہ ریستوران میں کرتے رہیں‘ مجھے کیا لینا دینا‘ مگر مجھے تو سوچنا چاہیے میرا اصل مسئلہ کیا ہے کبھی کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے کہ ہلکے پھلکے انداز میں لکھنے والے بڑی گہرائی میں چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ترکی کے صدر طیب اردوان نے ترکی میں معاشی بحران پیدا کرنے کی کوشش کو ’’سوروس وائرس‘‘ کہا۔ چلیے جرثومۂ روس کہہ لیجیے۔ یاد ہے کہ اس نے گزشتہ صدی کے آخری دنوں میں مہاتیر محمد کے ملک پر بھی حملہ کیا تھا۔ یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ رئوف کلاسرا ہاٹ سٹی کا ہاٹ ‘ پر سوٹ کر رہے ہیں۔ ہم اپنے اندر ڈوب کر اپنے حسن کو تلاش کر رہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے مگر اس بات کی نشانی ہے کہ بات جڑ پکڑ چکی ہے۔ وگرنہ ہم جیسی زندہ دل قوم ان مصیبتوں میں کیا الجھتی۔ خیال رہے کہ ہم ابھی ملائشیا اور ترکی تک نہیں پہنچے وہ منزل دور ہے جب سوروس حملہ آور ہو۔ وہ تو ابھی دور کی بات ہے۔ غامدی صاحب چونکہ آج کل چل رہے ہیں اس لئے ان کا تذکرہ آ گیا‘ وگرنہ سوچنے کی بہت سی باتیں ہیں اور اسے تھیوری میں سمیٹنا آسان نہیں۔ یہ کام فوکوہاما سے ہوا‘ نہ ہٹگنٹن سے اور نہ غامدی صاحب سے یہ ہو رہا ہے رہ گئے بھائی اوریا اوریہ خاکسار تو ہم اس دور فتن میں اپنا ایمان بچا پائیں تو بڑی بات ہے۔ چلئے کوشش کئے لیتے ہیں۔