بدقسمتی سے ستر سالوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور واشنگٹن رہا ہے۔ اس میں کلیدی کردار جہاں ہمارے وردی پوش حکمرانوں کا رہا ہے وہیں سادہ لباس والے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ دیکھا جائے تو ہماری خارجہ پالیسی سات دہائیوں میں کبھی کسی جوہری تو کیا سطحی تبدیلی سے بھی نہیں گزری اور اس کی لرزتی کانپتی قطب نمائی سوئی ہر حال میںامریکہ کی طرف رخ کئے کانپتی اور جان کی امان مانگتی رہی۔ ساٹھ کی دہائی میں جان ایف کینیڈی نے دنیا میں کمیونزم کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے ہنری ٹرومین کے اینٹی کمیونزم نظرئیے کو آگے بڑھاتے ہوئے یو ایس ایڈ کی بنیاد رکھی جس نے پاکستان میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع کئے۔ اسی دہائی میں پاکستان سیٹو اور سینٹو کا ممبر بن کے امریکی چھتری تلے آگیا او ر بھارتی عسکری حجم اوراس کی روایتی پاکستان دشمنی کے خوف سے امریکہ کے ساتھ عسکری اور دفاعی معاہدے قبول کرکے عملی طور پہ امریکی چھتری تلے آگیا ۔جب روس نے افغانستان پہ چڑھائی کی تب بھی ہم امریکہ کی چھتری پہ بیٹھے دانے چگ رہے تھے۔ایک عرصے تک افغانستان میں کمیونسٹ نظریات کی آبیاری بھی روس کو راس نہیں آئی۔افغانیوں نے کبھی براہ راست جارحیت قبول نہیں کی۔افغان مجاہدین کی نظریاتی جڑیں تو بہت دور کہیں الجزائر تک پھیلی ہوئی تھیں ۔انہوں نے حسب توقع ہتھیار اٹھا لئے۔ 1974 ء میں پاکستان میں بھٹو برسراقتدار تھا جب وادی پنج شیر میں بغاوت کا آغاز ہوا۔ جنرل نصیراللہ بابر سرحد کور کے انچارج تھے اور احمد شاہ مسعود، حکمت یار،برہان الدین ربانی روس کے خلاف پاکستان کی مدد حاصل کرنے سب سے پہلے ان ہی کے پاس آئے تھے۔ امریکہ تو بہت بعد میں اس کہانی میں داخل ہوا۔وادی پنج شیر کی بغاوت کے بعد ڈیڑھ سال کوئی امریکی امداد نہیں آئی۔ یہ وہ فیصلہ کن ڈیڑھ سال تھے جب روس کو نیچے اترنے سے روکے جانے کی استعداد کا اندازہ لگانا تھا۔ جب یہ اندازہ لگالیا گیا کہ یہ جنگ رکنے والی نہیں اور افغانستان کو روس کا قبرستان بنایا جاسکتا ہے تو تین سو ملین ڈالر کی وہ امدا د جو ضیاالحق کے مارشل لا کی وجہ سے روک دی گئی تھی ، احسان دھر کے بحال کردی گئی۔امریکی ذہنیت سے واقف جرنیل نے اسی پہ مونگ پھلی کی بھپتی کسی اور اسے اپنی شرائط سے نتھی کردیا۔ان میں سے ایک یہ تھی کہ پاکستان افغان مجاہدین کو امداد خود دے گا امریکہ براہ راست مجاہدین کے کسی گروپ کو رقم نہیں دے گا اس کا فائدہ یہ ہوا کہ افغان جہادی گروپ براہ راست پاکستان کی کمان میں رہے ساتھ ہی بھٹو مرحوم کا شروع کیا گیا جوہری پروگرام بھی جاری رہا۔ آپ ضیاء الحق سے لاکھ اختلاف کریںلیکن دو باتیں نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ ایک تو یہ کہ اس مرد زیرک نے حالات کو پاکستان کے حق میں استعمال کیا دوسرے یہ کہ حالات پاکستان کے حق میں تھے۔ اور یہیں سے اس بحث کا آغاز ہوتا ہے جس کے لئے یہ تمہید طولانی باندھی گئی ہے۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ کمیونسٹ افغانستان پہ کمیونسٹ روس نے براہ راست حملہ کرکے بازی پلٹ دی تھی۔ مجاہدین کے گروہوں نے جہاد کا آغاز کرکے ایک فریق کی حیثیت اختیار کی تو میکانیکی طور پہ یہ جنگ کفرو اسلام کی جنگ بن گئی جس میں اسلام کا ساتھ دینا پاکستان کی اخلاقی اور دینی مجبوری بن گئی۔ ادھر امریکہ کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور اس نے سوویت روس کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا تو یہی مجاہدین تھے جو اس جنگ کا ایندھن بنے۔ اسی لئے پاکستان میں افغان مہاجرین کے لئے سرخوں نے افغان بھگوڑوں کی اصطلاح ایجاد کی اور دیواریں اس نعرے سے رنگ دیں۔ ان کا نظریاتی محور ، روس امریکہ اور امریکی فنڈڈ جہاد کی زد میں تھا۔ان کی بدقسمتی لیکن یہ تھی کہ ملک پہ ایک بنیاد پرست آمر کا قبضہ تھا ساتھ ہی ان کی جڑیں اسلام پسند عوام میں نہیں تھیں۔انہیں عوامی حمایت نہ پہلے کبھی حاصل تھی نہ بعد میں کبھی ہوسکی۔ یہ تو پھر کفر واسلام کی جنگ تھی ۔یوں تازہ اصطلاح کے مطابق امریکہ مجاہدین اور پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پہ آگئی۔ ایسی آئیڈیل صورتحال پھر کبھی ہمیں نصیب نہ ہوئی۔ سوویت روس کے انہدام کے بعد جب امریکہ افغانستان کو خانہ جنگی کے حوالے کرکے نکلا تو طالبان نے کمان سنبھال لی۔ کل کے مجاہدین واشنگٹن میں بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ جب ملا عمر نے امارات اسلامی افغانستان قائم کی تو امریکہ کے کان کھڑے ہوئے۔ یہ ناقابل برداشت جسارت تھی۔ نائن الیون کے بعد دنیا بدل گئی ۔ ہم جہاں تھے وہیں رہے۔ ہماری غیر مشروط وفاداری امریکہ کے ساتھ تھی۔ کل کا جہاد آج کا فساد بن گیا۔ کل کے ہیرو آج ولن ٹھہرے۔مشترکہ پیج پہ ہم اور امریکہ توڈٹ کے کھڑے رہے لیکن مجاہدین جو اب طالبان تھے، مخالف صف میں کھڑے ہوگئے۔اس کے ساتھ ہی وہ نظریاتی تفریق پیدا ہوگئی جس نے ہمارا تورا بورا بنادیا۔ جنرل مشرف کے سب سے پہلے پاکستان کے پرفریب نعرے نے صرف امریکی مفاد پور اکیا ورنہ اس نعرے کی گہرائی میں کچھ نہ تھا۔ بعد میں میں نے بارہا جنرل حمید گل مرحوم سے دریافت کیا کہ فرض کریں ستر کی دہائی میں روس کی بجائے افغانستان پہ امریکہ نے حملہ کیا ہوتا تو کیا تب بھی پاکستان تاریخ کی اس سمت کھڑا ہوتا جہاں خوش قسمتی سے کھڑے ہونے کی ہمیں جگہ مل گئی تھی یا جنرل ضیاء الحق ، جنرل مشرف ہی کے پیش رو ہوتے؟ بدقسمتی سے مجھے اس سوال کا جواب کبھی نہیں ملا۔اور یہی وہ سوال ہے جس پہ وزیر اعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی کا وہ اہم ترین حصہ استوار ہے جس کا تعلق پاک امریکہ تعلقات سے ہے۔ عمران خان ہمیشہ امریکی پالیسیوں کے ناقد رہے ہیں۔ انہوں نے کھل کر نہ صرف دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا حصہ بننے پہ فوج اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ ڈرون حملو ں کے خلاف لندن اور پاکستان میں مظاہرے کئے۔انہوں نے نیٹو سپلائی بھی بند رکھی اور بارہا حکومت سے اس امریکی جنگ سے نکلنے کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات اس تواتر سے کی کہ انہیں طالبان خان کہا جانے لگا۔ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرواد سے وزیراعظم بننے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ وہ کتنی شدت کے ساتھ اسی اسٹیبلشمنٹ پہ تنقید کرتے رہے ہیں۔ پھر بھی اگر وہ وزیر اعظم بن گئے ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہے ۔ ایک تو یہ کہ اب اسٹیبلشمنٹ نے قبلہ بدل لیا ہے یا پھر یہ کہ وہ خارجہ پالیسی میں مداخلت سے تائب ہوگئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا منصب سنبھالتے ہی یہ اعلان کہ خارجہ پالیسی اب دفتر خارجہ میں بنے گی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکی امداد کی کٹوتی اور سکیورٹی امداد کی بندش کے بعد امریکی پالیسیوں پہ آنکھ بند کر کے عمل کرنا اور سو پیاز سو جوتے کھانا اب وقت کی ضرورت نہیں رہی۔ صدر ٹرمپ امریکی معیشت کو سنبھالا دینے کی فکر میں ہیں اور انہیں پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کی بیخ کنی کے نام پر اربوں ڈالر کی امداد دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ طالبان امریکہ کے ساتھ براہ راست بات کرنے کو تیار ہیں ااور اس سلسلے میں روس اور چین کا پھینکا ہوا ترپ کا پتہ کام کرگیا ہے۔ ماسکو مذاکرات منسوخ ہوگئے ہیں اور وہ کبھی ماسکو میں ہونگے بھی نہیں۔ عمران خان کی تقریب حلف برداری کے فوراً بعد طالبان ترجمان ہیبت اللہ اخوندزادہ نے دس صفحات کا بیان جاری کیا تھا جس میں امریکہ کو براہ راست مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ ایسے حالات میں دو کے درمیان کسی تیسرے کی گنجائش کم ہی نکلتی ہے ۔ ایسا ہوا تو پاکستان کی اس قصے سے جان ویسے ہی چھوٹ جائے گی۔ بات وہاں خراب ہوگی جب طالبان امریکی شرائط پہ راضی نہیں ہونگے نہ ہی عمران خان انہیں ایسا کرنے پہ مجبور کرینگے۔ تب حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان میں براہ راست امریکی کاروائیاں ہونگی اور یہیں عمران خان کی آزادخارجہ پالیسی اور ملکی وقار پہ ان کے آئیڈیل بیانیے کا امتحان ہوگا۔ اس امتحان میں ان کی سرخروئی کے بڑے واضح امکانات کچھ یوں ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اب کیری لوگر بل کے اثرات سے نکلنا چاہتی ہے اور بہت سے تلخ فیصلے وہ عمران خان جیسے شخص کے ہاتھوں کروانا چاہتی ہے۔ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ عمران خان بلیک میل ہونے والوں میں سے نہیں ہیں اور کل کا سپر پاور امریکہ آج بہت سے مسائل میں ہاتھ پھنسا چکا ہے۔ شمالی کوریا ، ایران،یورپ اور چین۔یہ وہ سوراخ ہیں جن میںامریکہ نے ہاتھ پھنسا لیا ہے۔ سوائے افغانستان کے، ٹرمپ نے ہر جگہ سفارتکاری سے کام نکالنے کی کوشش کی ہے اور کامیاب رہے ہیں۔ جوہری طاقتوں سے براہ راست الجھنے کی تاریخ وہ ویسے بھی نہیں رکھتے۔ حالات مشکل ضرور ہیں لیکن خوش قسمتی سے موافق بھی ہیں۔تھوڑی سی جرات اور ذہانت سے کام لیکر ہم ہمیشہ کیلئے تاریخ کے ایک سیاہ دور سے نکل سکتے ہیں۔