سولہویں چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی اختتام پذیر ہوئی ، پہلے نمبر پر صاحبزادہ سلطان اور دوسرے نمبرپر میر نادر مگسی آئے ، چولستان جیپ ریلی کی خاص بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار وہاں پہنچے اور جیپ ریلی کے ٹریک پر خودگاڑی چلائی ، اس موقع پر انہوں نے کہاکہ چولستان جیپ ریلی سے سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور آئندہ غیر ملکی ریسرز کو بھی ریلی میں شرکت کی دعوت دی جائے گی ،وزیر اعلیٰ کی طرف سے ریلی کو بین الاقوامی ایونٹ بنانے والی بات درست ہے کہ ریلی یکسانیت کا شکار ہو گئی ہے ، البتہ اس بات کا اہتمام ہونا چاہیے کہ ریلی سے مقامی تہذیب و ثقافت کو اُجاگر کرنے کے مواقع ملیں ۔اس مرتبہ چولستان جیپ ریلی کے موقع پر ایک سانحہ یہ ہوا کہ چولستان جیپ ریلی میں شریک سرائیکستان ڈیمو کریٹک پارٹی کے مرکزی رہنما ملک مانک علی بُچہ حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے ۔ وہ جواں سال تھے اُن کی وفات سے پورے وسیب کو صدمہ ہوا ،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں ۔ چولستان ڈیزرٹ ریلی کے موقع پر اس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے مقامی دستکاری کو فروغ حاصل ہو ، لائیو سٹاک کی ترقی ہو اور چولستانیوں کے تعلیم ،صحت اور روزگار کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کے مسائل حل ہوں۔ چولستان میں سینکڑوں کی تعداد میں سرائیکی شعراء ‘ فنکار اور گلوکار موجود ہیں ‘ ان کو بھی نظر انداز کئے جانے کی شکایات ہیں ۔ ریلی والے گند پھیلا کر چلے جاتے ہیں ، ایک چولستانی نے بتایا کہ چولستانیوں کو جیپ ریلی کے سلسلہ اختتام پر کوڑا ،کچرا، شراب کی خالی بوتلیں دیگر خرافات نماء اشیاء ملتی ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب ہو یا مرکز کسی نے آج تک چولستان اور چولستان کے مسائل کے بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی وہ بظاہر سوچنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ چولستانیوں کو خود بھی آگے آنا ہوگا اور وہ اس ایونٹ کے موقع پر مقامی فوڈز متعارف کرائیں اور مقامی دستکاریوں کے سٹال لگائیں تاکہ ان کو مالی فائدہ حاصل ہو سکے ۔ یہ بات درست ہے کہ چولستان ڈیزرٹ ریلی سے جہاں سیاحت کو فروغ مل رہا ہے ‘ وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ مقامی لوگوں کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ ریلی سے مقامی لوگوں کو فائدہ ملنے کی بجائے انہیں دوری اور اجنبیت کا احساس ہوتا ہے ۔ وہ کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں آنے والے لوگوں کو محض حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں ۔ چولستان ڈیزرٹ ریلی کے نتیجے میں چولستان میں آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے، چولستان ڈیزرٹ ریلی کا مقصد یہ بتایا گیا تھاکہ اسے چولستان کی تہذیب و ثقافت کو فروغ ملے گا اور چولستان کے مسائل کے بارے میں لوگوں کو آگاہی ہوگی ۔ ان میں سے ایک بھی مقصد پورا نہیں ہوا۔ چولستان میں اس طرح کی کوئی کانفرنس ، سیمینار یا سمپوزیم نہیں کرائے جاتے چولستان میوزیکل نائٹ ہوا کرتی تھی، اس مرتبہ کرونا کا بہانہ بنا کر وہ بھی نہیں کرائی، اسے کہتے ہیں عذر گناہ ،بدتراز گناہ، لاکھوں افراد کی ریلی ہوسکتی ہے کلچر پروگرام کیوں نہیں؟مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گذشتہ سال ٹورازم نے کلچر شو کے موقع پر سرائیکی فنکاروں کو نظر انداز کیا تو ا س وقت کمشنر آصف اقبال چوہدری نے جیپ ریلی کے موقع پر اس کا ایکشن لیا اورسرائیکی فنکاروں کی دلجوئی کے لئے سابق کلب بہاولپور اور آرٹس کونسل میں دو الگ ا لگ پروگرام منعقد کئے اور فنکاروں کی مالی مدد کے ساتھ دلجوئی کی ۔اس مرتبہ ایسا نہ ہوا تو ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد ‘‘ والا مصرعہ یاد آیا ۔ وہ دوری اور اجنبیت کا احساس ختم کریں کہ یہ ان کی اپنی دھرتی ، اپنا خطہ اور اپنا وسیب ہے ۔ اگر وہ پیچھے رہیں گے تو باہر والے آ کر قبضے کرتے جائیں گے۔ پوری دنیا میں سیاحت بہت بڑی صنعت بن چکی ہے، دنیا کے بہت سے ملکوں کی آمدنی کا انحصار محض سیاحت سے ہونیوالی آمدن پر ہے۔ اس لحاظ سے بھی ذی شعور شخص سیاحتی ایونٹ چولستان ڈیزرٹ ریلی کی مخالفت نہیں کرتا لیکن اس سیاحت کا اگر کسی مقامی شخص کو فائدہ نہیں ہوتا تو اسے کسی بھی لحاظ سے سود مند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میں نے خود جا کر سروے کیا اس سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ چولستان ڈیزرٹ ریلی سے مقامی لوگوں کو آؤٹ کر دیا گیا ہے ۔ اس سے دوسری غلط باتوں کے ساتھ نا جائز شکار کی وبا تیزی سے بڑھ رہی ہے ، موجودہ حکومت تبدیلی کے نام پر برسر اقتدار آئی ہے ، وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پرندوں کو شکار ہونے سے بچائیں خصوصاً چولستان جو کہ پرندوں اور قیمتی جانوروں کے لئے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ اگر آج بھی وسیب کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو پھر کون سا ایسا وقت آئے گا جب وسیب کے مسئلے حل ہونگے ؟ ہماری صرف اتنی درخواست ہے کہ چولستان کو پرندوں کے شکاریوں سے بھی بچایا جائے اور لینڈ مافیا جو کہ مسلسل زمینوں کا شکار کر رہا ہے ‘ ان سے چولستان کو محفوظ بنایا جائے کہ وہ نہ تو چولستان کی تہذیب و ثقافت سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کو چولستان کے تقدس کا کچھ خیال ہے ۔بات صرف چولستان کی نہیں بلکہ پورا وسیب محرومی کا شکار ہے موجودہ حکومت کی طرف سے تبدیلی اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے حوالے سے صرف باتیں سننے کو مل رہی ہیں عملی طور پر ایسا نہیں ہے ۔ عمران خان نے خود کہا تھا کہ دو نہیں ایک پاکستان سب سے مساویانہ سلوک ہونا چاہیے غیر منصفانہ نظام کی تبدیلی نہایت ضروری ہو چکی ہے ، پورے ملک میں سینٹ کا شور بپا ہے ، حکومت دھاندلی کا نام لے کر اوپن بیلٹ کی بات کرر ہی ہے جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے سینٹ ٹکٹوں کے معاملے پر وسیب کو نظر انداز کرنا بذات خود دھاندلی ہے کہ تحریک انصاف کے پاس مینڈیٹ سرائیکی وسیب کا ہے جبکہ وہ سینٹ کی ٹکٹیں دوسرے علاقے کے امیدواروں کو دے رہے ہیں ۔صرف دو ٹکٹ وسیب کو ملے ایک سید یوسف رضا گیلانی اور دوسرا ٹکٹ ن لیگ کی طرف سے میاں بلیغ الرحمان کو ، سوال یہ ہے کہ تحریک ا نصاف کا انصاف کہاں گیا؟ آج باتوں کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے کہ سینٹ کے بعد بلدیاتی اور بلدیاتی کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہونگے اور سیاسی جماعتوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ملیں گے ۔