پاکستان ریلوے کے لیے پچھلا سال باقی دنیا سے مختلف نہیں رہا۔ کورونا ریلوے کے لیے بہت بڑا چیلنج تھالیکن کورونا کے زور پکڑنے پر ٹرین آپریشن معطل ہونے کے باوجود نہ ہی ریلوے دفاتر بند ہوئے اور نہ ہی روٹین کا کام متاثر۔ اذا خیل ڈرائی پورٹ اور فیصل آباد ڈرائی پورٹ تو کورونا کے عذاب سے پہلے ہی تیار ہوگئے تھے کیونکہ ریلوے میں 2020 ء کو فریٹ کا سال ہونا تھا اور پھر وباء آگئی۔ ایمرجنسی میں ریلوے نے تمام ہسپتالوں کو آئسولیشن وارڈز میں تبدیل کیا۔ اس چیلنج کو موقع میں تبدیل کیا اور نئے پراجیکٹ کی تیاری کی گئی۔ اس سلسلے میں چیئرمین ریلوے حبیب الرحمن گیلانی کا کردار کلیدی رہا جنہوں نے ریلوے کو کارپوریٹ طرز پر منتقل کرنے کی تیاری انہی مشکل دنوں میں کی۔ کارپوریٹ سیکٹر سے مراد یہ نہیں کہ ادارہ کسی پرائیویٹ کمپنی کی طرح صرف پیسے بنانے پرتوجہ دے۔ یہ نئی سمت کارپوریٹ سیکٹر کی طرح مسافروں کی شکایات کا ازالہ، کسٹمر کیئر اور اوقات کار بہتر کرنے کے لیے ہے۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے قانونی امور، کسٹمر کیئر، فنانس اور انسانی وسائل کے مشیر پرائیویٹ سیکٹر سے مستعار لیے جا رہے ہیں۔ریلوے کا سب سے اہم مسئلہ ٹریک اور سگنلگ سسٹم ہے اس کی وجہ سے اوقات کار متاثر ہوتے ہیں۔ 2020ء میں تاریخی اہم پیش رفت ایم ایل ون کی منظوری تھی جس کے تحت کراچی سے پشاور تک 1872 کلومیٹر ٹریک کی بحالی ،نیا سگنلگ سسٹم، برجز اور انڈر پاسز بنائے جائیں گے۔2021ء میںباضابطہ طور پر یہ خواب شرمندہ تعبیرہوگااور ایم ایل ون کے پہلے حصے میں لاہور‘ راولپنڈی‘ سکھر‘ ملتان ڈویژنوں میں پھیلا 706 کلومیٹر کا ٹریک 5 سال کے عرصہ میں اپ گریڈ کیا جائے گا۔ اس اثناء میں ML- 2 کو نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ پہلی بار ٹریک کو ٹھیک کرنے کی دعوت پرائیویٹ سیکٹر کو دی گئی اس سے پہلے یہ کام ریلوے خود کرتا تھا۔ -2 ML (1254)کلومیٹر کوٹری سے اٹک تک کا یہ ٹریک بطور متبادل روٹ اور کارگو کے لیے بہترین ٹریک ہے۔ آنیوالے وقت میں اسلام آباد‘ ایران‘ ترکی کارگو ٹرین ہو یا ٹرانز افغان ریلوے بچھانے کا پراجیکٹ جو وسطی ایشیائی ریاستوں کو بحیرہ عرب تک رسائی دے گا۔ ان سب میں پاکستان ریلوے کی مین لائن ML-I، ML-2اور ML -3 (روہڑی تا چمن 296 کلومیٹر) کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس سلسلے میں ML -2 کا ٹینڈر ہوچکا اور یہ مین لائن جون 2022 ء تک اپ گریڈ ہو جائے گی۔ کے سی آر ریلوے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جزوی بحال کردی گئی جوکہ تجاوزات ہٹانے کے بعد 3 مرحلوں میں مکمل بحال کردی جائیگی۔ کراچی پورٹ اور پپری کے درمیان کارگو ٹریفک کیلئے خصوصی فریٹ کا ریڈور بھی بنایاجائے گا۔ یہ پراجیکٹ بھی پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے بنایا جائے گا۔ یہ 50 کلومیٹر کا ٹریک کراچی شہر کو کنٹینر ٹرکوں کے رش سے نجات دے گا اور شہر کے اندر سے سامان کی ترسیل صرف اس کاریڈور سے ہوا کرے گی جبکہ کنٹینر ٹرمینل پپیری یارڈ پر بنے گاجہاں سے کسٹم کلیئرنس کے بعد کارگو باقی ملک میں مختلف ذرائع سے ترسیل ہوگا۔ریلوے کے حوالے سے ایک سوال ہمیشہ پوچھا جاتا رہا ہے کہ افغانستان سے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی ہو یا ایران سے ترکی۔ پاکستان کا رولنگ سٹاک یعنی کوچز ، ویگنیں ، انجن کیا اس بڑے چیلنج کیلئے تعداد و کوالٹی کے اعتبار سے تیارہیں؟ فی الحال 820 ہائی کپیسٹی ویگن اور 230 مسافر کوچز خریدنے اور تشکیل دینے کے لیے بین الاقوامی ٹینڈر ہوچکا۔ اس کے علاوہ 100 انجن کی خصوصی مرمت اور 5 ایسے انجن جو مختلف حادثات میں تباہ ہوگئے ان کی مرمت پی ایس ڈی پی میں منظور کرالی گئی ہے اور اس پر کام جاری ہے۔ 600 کوچز کی مرمت اور 1200 ویگنوں کی مرمت اس کے علاوہ ہیں۔ سب سے اہم پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر 5000 ویگنیں اور 1000 مسافر کوچز کو بنانے کا منصوبہ ہے جو یہاں پاکستان ریلوے کی فیکٹریوں میں بین الاقوامی مکنیکل اور ریلوے انجینئرنگ کے ماہرین کی مدد سے مکمل کیا جائیگا۔ اس سے فیکٹریوں میں کام چلنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی میں بھی خاطر خواہ مدد ملے گی اورپاکستان آنے والے وقت میں یہ کوچز اور ویگنیں اپنی فیکٹریوں میں تیار کرنے میں خودکفیل ہوسکے گا۔ واضح رہے کہ اس پر اجیکٹ کے لیے بھی بین الاقوامی کمپنیوں سے interest of expression طلب کیا جا چکا ہے۔ پاکستان ریلو ے 2020ء میں ٹریکر کی سہولت کے ساتھ معذوروں اور بوڑھے افراد کی آن لائن ٹکٹنگ کا اجراء بھی کرچکاہے۔ مسافروںکا آن لائن بکنگ کی طرف خاصا رجحان ہے اور اس وقت آن لائن ٹکٹنگ 60 سے 70 فیصد تک پہنچ گئی۔ نئے ’’رابطہ‘‘ پراجیکٹ کے حوالے سے ہمارا کسٹمر چاہے وہ تاجر ہو یا مسافر اْس کے اور ریلوے کے درمیان انسانی عمل داری کم سے کم کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے ’’رابطہ‘‘ کے نام سے خاص interface لانچ کیا گیا ہے جس کے بعد مسافر ٹی ٹی ،بکنگ سٹاف یا کسی ریلوے عملہ کے رحم وکرم پر نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ اپنی سیٹ فون سے چلتی ٹرین میں بھی بْک کراسکے گااس حوالے سے پائلٹ پراجیکٹ میں راولپنڈی اور لاہور کے درمیان ریل کار عملے کو ہینڈ ہیلڈر ڈیوائس دے دئیے گئے ہیں جن کے ذریعے ٹکٹ کے پیسے ٹرانسفر اور بکنگ سب آن لائن ہوگی۔ ریلوے نے آٹو میشن کی طرف بڑھتے ہوئے تمام ملازمین کا ڈیٹا بھی سافٹ ویئر سے لنک کردیا یعنی اب گھوسٹ ملازمین والا قصہ بھی ختم ہوا۔ پنشنر ز کو بھی اب پنشن اْن کے اکائونٹ میں ٹرانسفر ہونا شروع ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ پنشنز کے مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے خصوصی پنشن فنڈ قائم کیا جارہا ہے جس کے بعد ریٹائر ہونے والے ملازمین کو پنشن واجبات کے لیے دفتروں کے چکر لگانے اور انتظار کی زحمت نہ ہوگی۔ پاکستان ریلوے نے حادثات اور خاص طور پر لیول کراسنگ حادثات کو کنٹرول کرنے کے لیے 1600 غیر قانونی راستے بند کردیئے ہیں۔ پاکستان ریلوے اسی سال اپنی کالونیوں کو ڈسٹریبوشن پاور کمپنیوں کے حوالے کرے گا اور بجلی کے نئے میٹر لگائے گا جس سے ڈھائی ارب کی بچت متوقع ہے۔ ریلوے کو لفظ خسارہ کے ساتھ نتھی کردیاگیاہے۔ ریلوے پرائیویٹ کمپنی نہیں جو صرف پرافٹ یا آمدن کے لیے کام کرتی ہے مثلاً کراچی سے پشاور تک کا کرایہ 1600 روپے ہے کیا کوئی اور ٹرانسپورٹ سروس اتنے کم کرائے میں پسنجر کوسفری سہولت دیتی ہے؟۔ پوری دنیا میں ریلوے فریٹ سے کماتی ہے اور عوام یعنی اپنے مسافر کو سہولت دیتی ہے۔ اوپر بیان کیے گئے تمام پراجیکٹس فریٹ بڑھانے میں اہم ہیںپاکستان ریلوے بھی حکومت سے سبسڈی لیتا ہے تاکہ پسنجر کو سستا اور محفوظ سفر میسر ہو اور پنشنرز کے گھر کا چولہا جلتا رہے۔