دمشق سے باہر نکلے تو ہر سو ویرانی تھی۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے آثار تھے۔ شاہراہ پر صرف ہماری کار تھی جس کا رخ گولان کی پہاڑیوں کی جانب تھا۔ بارود کی سیاہی پتھروں کے چہروں پر ملی ہوئی تھی۔ دمشق کے پہلے شہری ایئر پورٹ کے رن وے پر تباہ شدہ جہازوں کے ڈھانچے بجھے ہوئے آتش دانوں کی مانند سرد تھے۔ دائیں جانب ’’جبل الشیخ‘‘ کی برفپوش بلندیاں تھیں یعنی ’’بوڑھے پہاڑ‘‘ کی چوٹیاں۔ کار کے اندر عرب موسیقار عطشی کی پرسوز آواز گونج رہی تھی۔’’ناتواں آدمی محبت کے سامنے ختم ہو جاتا ہے اور قوی شخص محبت کی قربت میں مکمل ہو جاتا ہے اور میرے وجود کے لئے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ میں کہاں ہوں اور ہم دونوں کہاں ہیں۔‘‘ ایک چیک پوسٹ کا شہتیر راستے میں حائل ہوا اور ہم رک گئے۔ ایک شامی فوجی نے ہمارے اجازت نامے چیک کئے اور سیلوٹ مارتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’پاکستانی برادر‘‘ بائیں طرف درختوں کا ایک جھنڈ نظر آیا’ حرب نشرین یعنی جنگ رمضان کے دوران شامی توپ خانہ اس جھنڈ میں روپوش تھا کچھ ہمارے لوگ بھی تھے’ مظہر نے بتایا۔ میں نے دیکھا کہ ہر چند کلو میٹر کے فاصلے پر سڑک کے دونوں جانب مٹی کے بلند تودے تاحد نظر ایک دیوار کی صورت کھڑے تھے۔ یہ دمشق کے دفاع کی نشانیاں تھیں۔ ہم درختوں میں گھرے ایک چھوٹے سے پل پر سے گزرے۔ تارڑ یہ ساسا کا پل ہے۔ اسرائیلی جنگ کے ابتدائی ایام میں یہاں تک آ گئے تھے کیونکہ ان کی یلغارگولان کی ڈھلوانوں سے شروع ہوتی تھی۔ پھر شامیوں نے یہاں اس پل پر انہیں باقاعدہ ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند روکا اور پھر دھکیلتے ہوئے گولان تک لے گئے۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جنگ بندی پر انہیں مجبور نہ کیا جاتا تو وہ گولان کی پہاڑیوں کے کچھ حصوں پر یقینا قابض ہو سکتے تھے۔ جون 67ء میں اسرائیل کے قطرہ وجود کے سامنے جس طرح عربوں کے سمندر کا سانس بند ہو گیا اور پھر مردنی چھا گئی وہ ذلت آمیز تھا۔18اکتوبر کو جب حرب نشرین کا آغاز ہوا تو مصر نے نہر سویز عبور کر کے جس طور اسرائیلی ڈیفنس مورچوں کو تہس نہس کر دیا وہ جنگی حکمت عملی کا ایک بے مثال کارنامہ تھا۔ ادھر شامیوں نے بھی حافظ الاسد کی قیادت میں شجاعت اور بے جگری کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ مکمل فتح اگرچہ عربوں کے نصیب میں نہ تھی مگر کم از کم ہزیمتوں کی دھول ان کے چہروں سے دھل گئی وہ اسرائیل کی جوابی کارروائی کے سامنے ٹھہر نہ سکے۔ جنگ کے دوران شائد یہ موشے دیان، تھا جون 67ء کی جنگ کا ہیرو جس نے اقوام عالم کے سامنے بیان دیا تھا کہ ہم چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر دمشق فتح کر لیں گے۔ جس کے جواب میں صدر حافظ الاسد نے کہا تھا کہ ہاں وہ دمشق میں داخل ہوں گے لیکن صرف تب جب آخری شامی مارا جائے گا۔ چنانچہ اسرائیل سرتوڑ کوشش کے باوجود دمشق تک نہ پہنچ سکے۔ جون 67ء کی جنگ میں بھی یہ صرف شامی تھے جنہوں نے دیگر عربوں کی نسبت اسرائیل کو سب سے زیادہ نقصانات سے دوچار کیا۔ بے شک گولان ان کے ہاتھ سے جاتا رہا لیکن وہاں بھی انہوں نے مدافعت اور شجاعت کی ایک نئی جنگی تاریخ رقم کی۔ انہوں نے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھ لیا تاکہ حالات جیسے بھی ہوں فرار ممکن ہی نہ ہو اور وہ سب کے سب سینکڑوں کی تعداد میں گولان کے لئے قربان ہو گئے۔ اسرائیلیوں نے کہا کہ دراصل شامی بھاگنا چاہتے تھے لیکن ان کے افسروں نے انہیںزنجیروں میں جکڑ دیا۔ یہ پروپیگنڈا ہمارے کچھ دوستوں نے شام دشمنی میں بخوشی قبول کیا اور یوں اسرائیل کے سنہری بچھڑے کے جھوٹ کے پجاری ہو گئے۔ زنجیروں میں بندھے شامی فوجیوں کی لاشوں میں ان کے افسر بھی شامل تھے۔ دھول کے پرشور غبار میں سے ایک سلسلہ کوہ نظر آنے لگا اور یہ گولان کی پہاڑیاں تھیں۔ ہم قریب ہوئے تو ایک وہیل نما پہاڑی ہماری کار پر حاوی ہونے لگی ’’گولان کی اہم ترین اور سب سے بلند پہاڑی‘ تل ابوندا‘ مظہر نے کار آہستہ کر لی۔ دامن سے چوٹی تک ہزاروں ایرئیل اور آلات گھاس کی مانند اگے ہوئے تھے۔ یہ راڈار کا ایک جنگل تھا جس میں اسرائیلیوں نے سینکڑوں دور مار توپیں دمشق کی جانب مرکوزکر رکھی تھیں۔ یقینا ہماری کار بھی ان کی دور بینوں کی زد میں تھی۔ تل ابوندا کے ساتھ دوسری پہاڑی تل احرام ہے اور اس کے پہلو میں تل کتانیہ دکھائی دے رہی تھی۔ خان دربند سے شام کا علاقہ ختم ہو گیا اور نو کلو میٹر کی نومین لینڈ کا آغاز ہو گیا جہاں یو این او کی عملداری تھی۔ جب نومین لینڈ کا علاقہ ختم ہوا تو ایک نوتعمیر دیوار نے کار کا راستہ روک لیا۔ دیوار کے دوسری جانب ایک اسرائیلی آرمرڈ کار حرکت کر رہی تھی اور اس پر حضرت دائود کا نیلا ستارہ نقش تھا۔ دیوار سے چند گز ادھر’’ترحب بکم‘‘ یعنی ’’خوش آمدید‘‘ کا ایک بورڈ آویزاں تھا اور ہم قنیطرہ شہر کے کھنڈروں میں داخل ہو گئے۔67ء کی جنگ میں گولان کے علاوہ قنیطرہ پر بھی اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا کہ یہ ان پہاڑیوں کے عین دامن میںواقع تھا۔ 73ء کی جنگ میں شامی اسرائیلیوں کو ساسا کے پل سے دھکیلتے ہوئے یہاں تک آ گئے اور قنیطرہ پر قبضہ کر لیا۔ اسرائیلیوں نے جوابی حملہ کیا اور قنیطرہ میں داخل ہو گئے ایک مرتبہ پھر شامیوں نے اسے حاصل کر لیا۔ جنگ بندی ہوئی تو قنیطرہ کا بیشتر حصہ اسرائیل کے قبضہ میں تھا۔1974ء میں اقوام متحدہ کے ایک معاہدے کے تحت یہ شہر شام کو واپس مل گیا لیکن اسرائیلی اسے خالی کرتے ہوئے تمام عمارتوں کو بل ڈوزروں کے ساتھ تباہ کر گئے۔ صدر اسد نے اس شہر پر جب شامی پرچم لہرایا تو وہ شہر نہ تھا ایک کھنڈر تھا۔ اس روز قبرص کا صدر آرچ بشپ مکاریوس شام کے دورے کے دوران قنیطرہ کے کھنڈر دیکھنے آیا تھا۔ اس کا سیاہ پادریوں والا چوغہ کھنڈروں کے درمیان گھومتا عجب ہولناک تصویر پینٹ کر رہا تھا۔ اس کے ہمراہ درجنوں سیاہ پوش پادری اس تصویر میں ایک ہولناک خواب کا رنگ بھر رہے تھے۔ ہم سرحد یا جنگ بندی کی لائن کی جانب بڑھنے لگے۔ راستے میں جتنے شامی سپاہی ملے انہوں نے ہمیں سیلوٹ کیا۔ ایک سپاہی آگے آیا اور کہنے لگا’’آپ پاکستانی بھائی ہیں اگر آپ گولان کی پہاڑیوں کو نزدیک سے دیکھنا چاہتے ہیں تو اس ٹیلے پر چلے جائیے۔ میں آپ کو اپنی دوربین دے سکتا ہوں تاکہ آپ تفصیلی جائزہ لے سکیں‘‘ہمیں کچھ خدشہ سا محسوس ہو رہا تھا کہ اس ٹیلے پر اسرائیلی ہمیں آسانی سے نشانہ بنا سکتے تھے’’آپ کے سامنے جو بارڈر کی سیاہ لکیر ہے اس کے قریب نہ جائیے گا وہاں لینڈ مائنز بچھی ہوئی ہیں۔ ہم آہستہ آہستہ ٹیلے پر چڑھتے گئے۔ وہاں پہنچ کر میں نے دوربین آنکھوں سے لگائی تو تل ابوندا پر نصب اسرائیلی تنصیبات کا گھنا جنگل قریب آ گیا۔ میں نے بارڈر کے ساتھ گشت کرتی ایک اسرائیلی جیپ کو فوکس میں لیا۔ جیب ڈرائیور سگریپ پی رہا تھا اور اس کے پچھلے حصے میں ایک مشین گن نصب تھی جس کا رخ قابل فہم طور پر ہماری جانب تھا۔ مشین گن کے ساتھ کھڑا فوجی جب دوربین کی زد میں آیا تو وہ مسکرانے لگا۔اس کی آنکھوں پر بھی ایک دوربین جمی تھی اور وہ مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔ اسرائیل کے علاقے میں دور دور تک انگوروں کے کھیتوں کے باغوں کی ہریاول تھی جن میں خودکار فوارے پھوار سے سینچ رہے تھے۔ ان انگوروں سے نفرت کی شراب کشید ہو گی جو مقبوضہ علاقوں پر چھڑکی جائے گی۔ ہم ٹیلے سے اترے اور شامی فوجی کا شکریہ ادا کیا وہ اپنی آٹومیٹک گن کی لبلبی پر انگلی جمائے کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا’’آپ گولان کب واپس لے رہے ہیں ؟‘‘ وہ شائد اس سوال کا منتظر تھا۔ تل ابوندا کو ایک نظر دیکھا اور پھر گہرے تیقن سے بولا’’شاید آج ہی۔ نہیں تو کل بہر صورت انشاء اللہ‘‘ وہ کل جانے کب آئے گی لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ آئے گی۔ ’’اے آل اسرائیل ایسا اِترانا بھی کیا گھڑی کی سوئیاں اگر آج رک گئی ہیں‘ تو کل یہ پھر سے چل پڑیں گی زمین کے چھن جانے کا غم نہیں‘ باز کے پر بھی تو جھڑ جایا کرتے ہیں اور اسے طویل تشنگی کا بھی خوف نہیں‘ پانی ہمیشہ چٹانوں کی تہہ میں ہوتا ہے تم نے درختوں کی چوٹیاں کاٹ لیں‘ مگر جڑیں باقی رہ گئی ہیں نزار قبانی۔ ترجمہ/ محمد کاظم