سمجھی ہوئی باتوں نے، پریشان کیا ہے مْشتاق ہوں اْس کا، جو سمجھ میں نہیں آتا! اگلے وقتوں کے بزرگوں کی بات بات میں نصیحت ہوتی تھی۔ پْرانے شعروں، حکایتوں اور تذکروں کا رنگ دیکھ لیجیے۔ یہ جو آج، ہر قدیم شاعر کو صوفی قرار دیا جاتا ہے، اس کی بھی وجہ، یہی ہے! اس زمانے کی عام باتیں، آج خاص نظر آتی ہیں! اسماعیل میرٹھی کہتے ہیں۔ کیا کیا خیال باندھے، ناداں نے اپنے دِل میں پر اْونٹ کی سمائی، کب ہو چْوہے کے بِل میں انسانی دماغ اور اس کی رسائی بھی، بَس اتنی ہے کہ ایک حّد ِمقررہ سے آگے نہیں بڑھ سکتے! انتہا کو پہنچ نہیں پائے، لا انتہا تو ان کے وہم و گمان سے بھی پرے ہے! ذہن میں جو گھِر گیا، لا انتہا کیوںکر ہوا؟ جو سمجھ میں آ گیا، پھر وہ خْدا کیوںکر ہوا؟ اللہ اللہ! زمین سے نمٹ نہیں پائے اور مٹی کے پْتلے، آسمانوں کو تسخیر کرنے چلے ہیں! کلام ِپاک میں آیا ہے۔ "اے جن و اِنس کے گروہ! اگر تم استطاعت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کی حّد سے باہر نکل سکو تو نکل جاؤ۔ مگرتْم نکل نہیں سکتے، اِلّا کہ خْدا کی تائید حاصل ہو!"۔ اپنی کم مائیگی اور بے بسی کا احساس اور اعتراف، جتنا زیادہ رہے گا، تسلیم و رضا بڑھتے رہیں گے! یہ جو ان سطور میں بار بار خوف ِخْدا پر زور دیا جاتا ہے، اس کی بنیاد بھی، تسلیم و رضا ہے! ہر ایسا لفظ، جس نے خْدا کی نفی کی، خواہ لکھا گیا بولا گیا یا سوچا گیا، مِٹا دینے کے فنا کر دینے کے لائق ہے! خصوصاً خْدا پرستوں کے ہاں پیدا ہونے والوں کی یہ گَت، ایک ٹریجڈی ہے! یہ مْنکر صرف خْدا کے نہیں، اگلوں اور اپنے بڑوں کے لیے بھی گالی بن کر رہ جاتے ہیں! اسی لیے ہم ایسی کْل کتابیں، قابل ِضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کے، بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں چند روز پہلے، ایک وڈیو موصول ہوئی، جس میں ایک، بظاہر، تعلیم یافتہ خاتون مذاق اْڑا رہی ہیں کہ پاکستانی نصاب میں، سائنسی ایجادات کی توجیہ میں لکھ دیا جاتا ہے "خْدا کی مرضی، خْدا کے حْکم سے"! ان کی یہ شکایت یا طنز، بجا ہوتی، اگر "خْدا کے حْکم" کے بعد، کسی سائنسی کْلّیے یا ترکیب کا ذکر، سرے سے غائب ہوتا۔ لیکن اس میں کیا شک کہ سائنس کی ہر کتاب کا سرنامہ، خْدا کے نام سے شروع ہونا چاہیے! خْدا پرستوں کے اس یقین کا رَّد ممکن ہی نہیں کہ وہ دو ذرّے، بغیر اذن ِخْدا، مِل ہی نہیں سکتے کہ جن کے میل سے، سائنس کی دْنیا اْبھرتی ہے یہ نکتہ، ذہن نشین رہے، تو پھر کسی طرح کی سائنس یا فلسفہ، دماغ کو نہیں چڑھے گا! سرسید احمد خاں نے، جب علی گڑھ کالج کا ڈول ڈالا تھا تو ان کا نعرہ تھا کہ ہمارے دائیں ہاتھ میں فلسفہ اور بائیں ہاتھ میں سائنس ہو گی۔ اور لاالٰہ الا اللہ کا تاج سر پر! لیکن ہْوا کیا؟ فلسفہ خاک اْڑاتا رہا، سائنس یک رْخی ذہنیت کو فروغ دیتی رہی اور لا الٰہ الا اللہ کی تاثیر سے قوم،محروم ہونے لگی۔ ایک کالم نگار، جو خیر سے اہل ِزبان بھی ہیں، اپنی تازہ تحریر میں، پہلے تو سائنس پر دین کی چھاپ کو عبث قرار دیتے ہیں، اس پر افسوس کرتے ہیں۔ پھر بڑی مسرت سے بتاتے ہیں کہ فلاں کتاب ایسی کسی بدعت سے پاک ہے۔ کتاب کی تعریف میں لکھتے ہیں "بشر کی ابتدا کیسے ہوئی، اس کا ارتقاء اور اس کا مستقبل، وقت، مصنوعی ذہانت، ٹرانس ہیومنزم، بگ بینگ، بلیک ہولز اور ملٹی ورس، ان تمام موضوعات کا تعارف کرایا گیا ہے اور سائنسی پس منظر بھی بیان کیا گیا ہے"۔ یہ بزرگ، کبھی اہل ِزبان تھے، مگر اب چونکہ ایک مدت سے لندنی ہیں، زبان کی غلطیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ اْن لوگوں میں ہرگز نہیں ہیں، جن کے بارے میں کہا گیا ہے ع شْکر یہ ہے گر کوئی ٹوکے، تو گرماتے نہیں لیکن زبان سے بڑھ کر، ان کے خیالات پر مغرب اور ماّدیت کا اس طرح چھا جانا، اس کِبر سنی میں یہ ہڈرا، عبرت ناک ہے! حیرت اس پر ہوتی ہے کہ مغرب کے گْن گانے والے مشرقی، مغرب میں پہنچ کر بھی غیر معروف، بے نام و نشان ہی رہتے ہیں! کہیں ایسا تو نہیںکہ راہ ِمغرب میں، یہ لڑکے لْٹ گئے واں نہ پہنچے، اور ہم سے چھْٹ گئے کتاب نے کالم نگار کے دِل کی کَلی، کہنا چاہیے کہ چَٹکا دی ہے۔ مصنف کے ہم نوا ہو کر، فرماتے ہیں۔ "ایجادات وہ ذہانت اور صلاحیت پیدا کریں گی کہ مادی ترقی کی رفتار بے انتہا فروغ پائے گی اور مشین اور انسان کے یکجا ہونے سے ایک نئی آفاقی مخلوق وجود میں آئے گی جس کے بعد کمپیوٹر اور انسانی ذہانت میں کوئی فرق نہیں رہے گا"۔ سبحان اللہ! "زمینی" مخلوق کو آفاقی، مشینیں بنائیں گی! گویا ع پاپوش میں لگائوں، کرن آفتاب کی اور نہایت خوشی ماّدی ترقی پر ہو رہی ہے! ع فکر ِہَر کَس، بقدر ِہمت ِاْوست انسان کو سائنس سے زیادہ، دیکھنے والی آنکھ درکار ہے! اگر دیکھ پائے تو ذّرے ذّرے میں بناو دکھائی دے! مگر آنکھ، شاید مرنے کے بعد ہی کھْلتی ہے! قْدرت کے یہ مظاہر، کسی اْستاد کے اس شعر کے مصداق ہیں۔ پری رْو، تاب ِمستوری ندارد چو دربندی،ز روزن، سر برآرد یعنی، "حْسن کی نمائش سے حسین، رْک نہیں سکتے۔ دربند کرو گے تو نمائش، روزن سے کرا کے رہیں گے"! سوچنے کی بات ہے کہ تعلق خواہ کسی مذہب سے ہو، تصوف کے فلسفے کو طبیعت، اتنی جلدی قبول کیوں کر لیتی ہے؟ اس کی بھی لِم یہ ہے کہ تصوف، ہر طرح کی دوئی کا مْنکر اور وحدت کا مْبلّغ ہے! بقول ِاکبر تصوف کے بیاں کو، ہوش نے روح آشنا پایا معانی کچھ نہ سمجھا پر قیامت کا مزا پایا ان سطور میں عقل کی نہیں، اس پر انحصار ِکْلی کی مذمت کی جاتی ہے! عقل تو خْدا کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ہے۔ صرف عقل پر تکیہ کرنے والے، اس سے گم راہ ہوتے اور دوسروں کی راہ کھوٹی کرتے ہیں! مثلاً یہاں امریکا میں، ایک ریکارڈنگ سامنے آئی ہے، جس میں سابق صدر ریگن، افریقیوں کو بندر اور گنوار کہہ رہے ہیں۔ یہ وہ ریگن ہیں، جن کی "عظمت" کوہ ِہمالیہ تک پہنچا دی گئی ہے! ریگن ہوں یا چرچل، تھیچر ہوں یا کوئی اَور پھٹیچر، یہ سارے کے سارے، دکھاتے کچھ، اور کرتے کچھ اَور تھے۔ ان کے اصل "جوہر" ان کے مرنے کے بعد، ٹیپ، وڈیو کی گفتگوئوں سے پتا چل رہے ہیں! دْور کیوں جائیے؟ نواز شریف اور آصف زرداری کا فریب، کیا سب پر کھْل چکا ہے؟ پہلے کچھ بھی رہی ہو، اب سیاست نام ہی دھوکا دہی کا ہے۔ اور اس میں آج کے سیاستدان، درجہ ء کمال کو پہنچ چکے ہیں۔ بقول ِلسان العصر ہْوں فریب ِستم ِیار کا قائل اکبر مرتے مرتے نہ کھْلا یہ، کہ جفا ہوتی ہے