یونیسکو کی چند سال پرانی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک مسلمان سال میں اوسطاً ایک سے بھی کم کتاب پڑھتا ہے۔ ایک یورپیئن اوسطاً پینتیس کتب کا مطالعہ کرتا ہے، جب کہ ایک اسرئیلی اتنے ہی دورانیے میں اوسطاً چالیس کتابیں گٹک جاتا ہے۔ اس سے چند سال بعد کے اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ ہوش رُبا ہیں۔ یہ اس اُمت کی صورتِ حال ہے، جسے بے آب و گیاہ دَور میں بھی حصولِ علم کے لیے چین تک سفر کرنے کا حکم تھا اور جس کی ہدایت کے لیے آسمانوں سے کتاب اتاری گئی ۔ اس کے بعد بھی ہم کہتے رہیں کہ ہمارا تنزل و ترذل یہود و ہنود کی سازش ہے تو ہماری مرضی۔ہم فی الحال آپ کے لیے کچھ اور کتابوں کا تحفہ لے کے آئے ہیں۔ اس وقت یار جانی پروفیسر جمیل احمد عدیل کی 424 جمبو سائز صفحات پر مشتمل ’’ مِنطقات‘‘ دھنک رنگ مطبوعات سے دھنک کے رنگ لیے، مصنف ہی کی طرح سوٹڈ بوٹڈ ہو کر ہمارے سامنے براجمان ہے۔ اس کی کتابوں اور بچوں کے اوپر مرتکب کا نام نہ بھی لکھا ہو تو عنوان کی مشکل کی اُشکل ہی سے مترشح ہو جاتا ہے کہ یہ کس کی کار گزاری ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ کون مائی کا لال نایاب، مہلب، تفرید، سمیط، نروان، ہاویہ، اثبات جیسے ناموں کی چھانٹی کر کے بتا سکتا ہے کہ ان میں بچے کون سے ہیں؟ اور کتابیں کون سی؟ ایم اے اُردو کی کلاس کے دوران ایک دن جناب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے بتایا کہ طلبہ کے امتحانی پرچوں سے طالب علموں کو پہچاننا اگرچہ مشکل ہوتا ہے، لیکن بعض طلبہ اپنے مخصوص اسلوب اور لفظیات سے فوراً ذہن میں آ جاتے ہیں۔ مثلاً ایک پرچے میں ’’تخویفِ تطویل‘‘ جیسی ڈراؤنی ترکیب دیکھ کے میں فوراً سمجھ گیا کہ عزیزی عدیل کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا!! کتاب ایسی سجی سنوری ہے کہ مشفق خواجہ کی نظر پڑ جاتی تو فوراً کہہ اٹھتے کہ یہ کسی پریس میں نہیں بیوٹی پارلر سے چھپ کے آئی ہے۔ کتاب کا انتساب اظہر جاوید کے صاحب زادے سونان اظہر کے نام ہے جسے ہمارا ایک خوش خوراک دوست نہایت رغبت سے سَو نان پڑھتا ہے۔ کتاب کو اس عزیزی سے منسوب کرنے کی کم از کم ایک وجہ اس کا مشکل نام بھی ہے کیونکہ کسی آسان آدمی کے نام انتساب کرنے کا عدیل سوچ بھی نہیں سکتا۔ گھر والوں نے ذرا عجلت سے کام لیا وگرنہ اپنا نام یہ خود رکھتا تو جمیل کی بجائے جمازیل، تماچیل، سماجیل یا زماجیل رکھتا، معنی کی خیر ہے، لوگ اپنے اپنے حساب سے نکال ہی لیتے ہیں۔ کتابِ مذکور چار سطری ’حرفے چند‘، سترہ مضامین، اکیس ادبی کالموں، سولہ عدد خاکہ نما تحریروں (جس میں ایک’ نما‘ مَیں بھی ہوں) پانچ افسانوی مجموعوں کے تجزیاتی مطالعوں، سات خطوط، ایک کالم کہانی، ایک عدد فکاہیے اور کم و بیش پچاس رنگ برنگی کتب کے مفصل و مجمل تبصروں پر مشتمل اور ڈاکٹر معین نظامی اور ڈاکٹر افتخار شفیع کے فلیپس سے مزین ہے۔ مقبولیت و معقولیت کی سیڑھیاں برابر چڑھتے اور شعر شناس لوگوں کے دلوں میں مسلسل اُترتے شاعر شاہین عباس کا تازہ شعری کارنامہ ’’ گلیوں گلیوں‘‘ اوراحساس کی دولت سے چھلکتا ناول ’’پارے شمارے‘‘ بھی ہمارے تازہ مطالعے کی بالائی ہیں۔ شاہین عباس بنیادی طور پر الیکٹریکل انجنیئر ہیں اور ادب پاروں میں بجلیاں بھرنے کا فن شاید وہیں سے کشید کرتے ہیں۔ ان کا قلم نظم، غزل، افسانہ، ناول میں یکساں استقامت کے ساتھ رواں ہے۔ بالخصوص ان کی شاعری تو ایک عالم کو گھائل کیے ہوئے ہے، تازہ مجموعے سے دو شعر ملاحظہ کیجیے: کچھ بتا تو سہی اے دھیان سے جاتے ہوئے شخص! تُو چلا جائے تو پھر دھیان کہاں جاتا ہے سانسوں کا آنا جانا سہی زندگی ، مگر سانسوں کا آنا جانا تماشا ہی بن گیا اسی طرح تلمیذِ تلمبہ جناب اقبال محمد عابد کا پروفیسر منیر رزمی کے رنگین دیباچے، اور ’رچناوی وسیب‘کی خوشبو سے چھلکتا ناول ’’مانگی ہوئی محبت‘‘ بھی مزے کی چیز ہے۔ یہ ایک عمدہ ناول ہونے کے ساتھ ساتھ علاقائی جغرافیے اور تہذیبی تاریخ کا بھی امین ہے۔ وہ تلمبہ کی محبت میں اس قدر گرفتار ہیں کہ محمد بن قاسم کی معزولی سے لے کے غلام حیدر وائیں کے قتل تک انسانی تاریخ کا ہر اعزاز و المیہ، تلمبہ سے وابستہ کرنے پر مُصر ہیں۔ یہ ناول اپنی جگہ پہ خوبصورت اور مکمل تھا لیکن انھوں نے اس میں تصوف، تبلیغ، تاریخ، تہذیب، سماج سدھار، ہم جنس پرستی، دوست نوازی حتیٰ کہ بعض مقامات پر مشکل اور مصنوعی زبان کا بوجھ خواہ مخواہ اپنے کندھوں پر دھر لیا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے آدمی خوبصورت علاقے کی سیر کو جائے اور سودا سلف کی لمبی فہرست تھیلے میں رکھ کے لے جائے۔ گزشتہ دنوں زبانی امتحان کے سلسلے میںاوکاڑہ یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا۔ کیمپس دیکھ کے اندازہ ہوا کہ جنگل میں منگل اسی کو کہتے ہیں۔ ہمارا پرانا اعتقاد تھا کہ جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں لیکن کچھ عرصے سے احساس جاگا ہے کہ اب گاہے ماہے یونیورسٹیوں میں بھی بنتے ہیں۔ وہاں ایسے ہی ایک کامیاب جوڑے سے خوشگوار ملاقات رہی۔اس نئی نکوریونیورسٹی کے شعبہ اُردو کی پردھان ڈاکٹر سمیرا اعجاز کی تدوین کردہ سعادت یار خاں رنگین کی مثنوی ’’ایجادِ رنگیں‘‘ خاصے کی چیز ہے۔ رنگین یقینا، مصحفی، انشا، جرأت کے ہنگامہ خیز معاصر تھے۔ڈاکٹر صاحبہ نے رنگین کی اس کلاسیکی نشانی کو دریافت کر کے رنگین تر سرورق کے ساتھ محفوظ کر د یا ہے۔ اسی طرح اُن کے مزاجی خدا ڈاکٹر نسیم عباس احمر کی ڈاکٹرانہ تحقیق کا ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ایک حصہ ’’ میرزا ادیب: مطالعاتِ فکشن و ڈراما‘‘ بھی میسر آیا۔ میرزا ادیب بیسویں صدی کے فکشن کا ایک بڑا نام ہے اور یہ ان کے حوالے سے معتبر کام۔ دونوں کتب مثال پبلشرز فیصل آباد کی حسنِ طباعت کا نتیجہ ہیں۔ عزیز شاگرد اور انگریزی کی ہر دل عزیز استاد ذونیرا بخاری کی تین اُردو کتب کے بعد ان کی خوبصورت انگریزی نظموں کا تازہ ترین مجموعہ "The Sick Rose" کے عنوان سے علم و عرفان پبلشر نے شائع کیا ہے۔ کتاب کا فلیپ اوہائیو یونیورسٹی کے معروف پروفیسر امرجیت سنگھ نے لکھا ہے۔ ان کے بقول: ''Zunera Bukhari captures the vicissitudes of a young, romantic love with a freshness and intensity that hold literary promise.'' اسی طرح بورے والا سے اکرم باجوہ کی غزلیات کا تازہ مجموعہ ’’فصیلِ ضبط‘‘ موصول ہوا ہے۔ باجوہ صاحب کو قدرت نے بے پناہ تخلیقی وفور سے نوازا ہے اور ان کا قلم تنقید، تخلیق، نظم، نثر ہر جگہ چوکڑیاں بھرتاہے۔ وہ شاعری میں لفظی و معنوی پیکر تراشنے کے ماہر ہیں۔ ان کی لفظی مہارت کا ایک نمونہ دیکھیے: پنگھٹ، پانی، پاؤں، پگلی، پون، پیا، پردیسی، پیار بِرہا، بنسی، برگد، بادل، بارش، بجلی، بیلا تھا مبین مرزا کی محبتوں سے مزین ’مکالمہ‘ کا 56 ، 57 ، 58 نمبر بھی سالِ گزشتہ کی یاد رہ جانے والی نشانی ہے۔ مبین مرزا لمحۂ موجود کے ان قلم کاروں اور ادبی علم داروں میں ہیں کہ جو ہر پرچے میں قارئین کے لیے علم و ادب کے نادر ذائقے ڈھونڈ کے لاتے ہیں۔ اسی طرح ادبی روایات میں گُندھی ہوئی دو شخصیات جناب شاہد علی خاں کے ’الحمرائ‘ اور حیدرآباد دکن کے جناب مصطفیٰ کمال کے ’شگوفہ‘ کے سالنامے بھی نئے سال کے خاص تحفے ہیں۔