اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ علم اور شعور کی ترقی معاشرتی ترقی کو جنم دیتی ہے جسے سادہ لفظوں میں ارتقاء کہتے ہیں۔ چنانچہ انسانی زندگی کا جتنا پیچھے جا کر مشاہدہ کیا جائے نظر یہ آتا ہے کہ آثار قدیمہ اور تاریخ کی پرتوں میں سماج کے عجیب و غریب ادوار پوشیدہ پڑے ہیں۔ انہی ادوار میں سے ایک دور موہنجودوڑو اور مصری تہذیب و تمدن کا ہے تو ایک دور وہ بھی ہے جو ’’پتھر کا دور‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور اس سے بھی پیچھے ایک غاروں کا دور بھی کہیں مدفون ہے۔ آج انسان اور اس کا شعور ترقی کرتا کرتا غاروں کے دور سے سیٹلائیٹ کے دور تک آپہنچا ہے جہاں وہ مریخ کو فتح کرنے کی تیاری میں ہے۔ مگر اس طویل سفر کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی کہ ارتقاء نے انسانی زندگی کے چند ادوار کو ہی جنم نہیں دیا بلکہ یہ ادوار اپنی ہیئت اور آلات کے لحاظ سے فی الحقیقت ان گنت بھی ہوسکتے ہیں۔ پتھر کا دور اور سائنسی دور کی تقسیم صرف بڑی تقسیم کی طرف اشارہ ہے ورنہ خود سائنسی دور کی بھی تو کئی پرتیں ہیں۔ اور پتھر کے دور کی حالت بھی ایک سی نہ رہی ہوگی بلکہ اس دور کا ابتدائی حصہ بھی بہت زبوں حالی کا رہا ہوگا اور اور پھر آخری حصہ بڑا ترقی یافتہ۔ یہ بات یقین سے اس لئے کہی جا سکتی ہے کہ انسانی ذہن اور شعور مسلسل ترقی کرتا رہا ہے، سو یہ ممکن ہی نہیں پتھر کے دور کی حالت بھی سائنسی دور کی طرح کئی پرتوں پر مشتمل نہ رہی ہو۔ یوں تو پوری ہی انسانی تاریخ میں اس بات کے آثار بکھرے نظر آتے ہیں کہ ایک جانب انسانی ذہن مسلسل ترقی کو جنم دیتا رہا ہے تو دوسری جانب اس ترقی سے سب سے زیادہ خوفزدہ بھی انسانی ذہن ہی رہا ہے۔ چنانچہ اسی خوف کے نتیجے میں ترقی کو وجود بخشنے والی ہستیوں کو شدید مزاحمت اور تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ صورتحال مغرب میں بھی رہی اور مسلمانوں کے ہاں بھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی ترقی میں مسلم گولڈن دور کو سب سے کلیدی دور اب مغرب بھی تسلیم کر چکا ہے۔ یہاں تک کہ نیشنل جیوگرافک کے ماہرین یورپ کی سب سے اہم درسگاہ ’’آکسفورڈ‘‘ کا مسلم سپین سے ماخوذ ہونا دستاویزی طور پر ثابت کرچکے۔ چنانچہ مسلمان اپنے دور اولین میں اس جدید علمی ترقی کے بانی نظر آتے ہیں لیکن جب زوال آیا تو مسلم ذہن سب سے زیادہ ترقی سے ہی ڈرنے لگا۔ دوسری جانب یورپ پچھلے ادوار میں ترقی سے خوف زدہ تھا جبکہ آج جب انسانی ترقی میں وہ اپنا حصہ ڈال رہا ہے تو یہ خوف اس کے ہاں ختم چکا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں ہی سماج اپنے ترقی کے دور میں ترقی سے بے خوف تھے اور دونوں ہی تنزل کے دور میں اس سے خوفزدہ رہے۔ اب اگر غور کیا جائے تو جہل تنزل اور علم ترقی ہے۔ اسی سے یہ گتھی بھی سلجھ جاتی ہے کہ خوف اوربے خوفی کا اصل سبب ہے کیا ؟ بالکل عیاں نظر آرہا ہے کہ علم کو جہل سمیت کسی چیز کا خوف نہیں اور جہل کو علم سمیت ہر چیز کا خوف رہتا ہے۔ تو بنیادی طور پر بات وہی ہے جو قرآن مجید نے کہی کہ ’’یہ گردش ایام ہے جسے ہم لوگوں میں الٹتے پلٹتے رہتے ہیں‘‘ کبھی ہم اپنے زمانے کی سب سے ترقی یافتہ قوم تھے تو بے خوف تھے۔ تب یورپ تاریکیوں کے دور میں تھا تو خوفزدہ تھا۔ آج یورپ سمیت پورا مغرب ترقی کے دور میں ہے تو بے خوف ہے اور تنزل اختیار کرتے ہوئے ہم جہل کے دور میں پہنچ چکے ہیں تو خوفزدہ ہیں۔ گویا گردش ایام میں کردار ہی بدلے ہیں رویہ اور نتائج ایک ہی ہیں۔اب ذرا اس خوف کے اظہار دیکھئے۔ آج سے سو سال قبل لاؤڈ سپیکر نے مسلم ذہن کو خوف سے دوچار کردیا تھا۔ ریڈیو بیچارے کو تو جادو سمجھا جاتا رہا ہے۔ اور تو اور موٹر سائیکل بھی ’’شیطانی چرخہ‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا جا چکا ہے۔ ہموار سڑک اور موٹر کار کا دور آیا تو اس عہد کے ذہین لوگوں کا سب سے بڑا خوف یہ رہا کہ اب مسلمان آرام پرست ہوکر برباد ہوجائے گا۔ لیکن جب یہی آلات ترقی کی رفتار میں کل کی کہانی ہوکر رہ گئے اور عہد آگیا سمارٹ فون کا تو اب مسلم ذہن لاؤڈ سپیکر، ریڈیو اور موٹر سائیکل والے عہد کو تو عہد زریں کہنے لگا ہے اور اس کی جگہ آج کی تاریخ میں یہ اس خوف کا اظہار کر رہا ہے کہ سمارٹ فون نے میل جول اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا عمل بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہاں تک کہ بچوں کے جسمانی کھیل کود بھی متاثر ہوتے جا رہے ہیںجس کا بڑا نقصان ہوگا۔ مگر دیکھ لیجئے گا تیس چالیس سال بعد وہ وقت بھی آئے گا جب اگلی نسل اسی سمارٹ فون دور کے متعلق کہہ رہی ہوگی۔ ’’کتنا اچھا تھا وہ پرانا وقت، لوگ فیس بک پر پوسٹ لکھ کر اپنے دل کی بات کہا کرتے تھے تو دنیا بھر سے دوست احباب، اپنے اور پرائے سب ہی اس پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے، کوئی روٹھ جاتا دوسرا اسے منانے لگتا، کوئی غصہ دکھاتا تو اسے بلاک کردیا جاتا، عید پر رنگ رنگ کے تہنیتی وٹس ایپ پیغامات ہوتے، لوگ ٹویٹر پر ڈیڑھ سطر لکھتے تو پورے ملک پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے۔ اور اب دیکھو کیا زمانہ آگیا کہ فیس بک اجڑ چکی، ٹویٹر پر ٹویٹ تو دور کی بات کوئی ٹر ٹر بھی نہیں رہی اور وٹس ایپ کا تو آج کے بچے نام تک نہیں جانتے۔‘‘یہ طے شدہ ہے کہ وہ وقت آکر رہے گا جب جس چیز کو ہم معیوب بتا رہے ہیں، اس چیز کے لئے اس دور میں ٹسوے بہائے جا رہے ہوں گے۔ اب کچھ سوالات ہیںجن میں کہیں اس گتھی کا سرا پایا جاتا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مغرب میں بھی آج کا انسان گزرے ہوئے زمانے کو بہتر پاتا ہے یا یہ صرف مسلم سماج کا ہی چلن ہے ؟ اگر مسلم سماج کا چلن ہے تو پھر کیا اس کا سبب یہ ہے کہ مسلم ذہن بہتر تجزیے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ؟