اکانومی یعنی اقتصادیات کا آدمی نہیں مگر کیا تحریک انصاف کی حکومت کے وزیرخزانہ اسد عمر سمیت آدھی ٹیم کو تبدیل کرنے کے فیصلے کونیا پاکستان کا خواب دکھانے والے وزیر اعظم عمران خان کی معاشی و سیاسی پالیسیسوں کی ناکامی سے تعبیر نہیں کیا جائے گا؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ کیا تحریک انصاف کی حکومت کی تواتر سے ایک ہی رٹ کرپشن، کرپشن کے خاتمے کے علاوہ کوئی اقتصادی پالیسی تھی بھی۔۔۔ حکومت کی معاشیات پر آنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی سیاسی پالیسیوں پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ در اصل یہ سیاسی فیصلے ہوتے ہیں جو معیشت سمیت زندگی کے ہر شعبے میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ 2008 اور پھر 2013میں کے پی میں حکومت لینے کے باوجود وفاق میں اکثریت نہ حاصل کرنے کے بعد خان صاحب یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ انہیں جولائی 2018کے الیکشن میں ہر صورت میں وزارت عظمیٰ کا تاج سر پہ سجانا ہے۔ اور اس کے لئے ایک ہی راستہ ہے۔۔۔ یعنی زیادہ سے زیادہ الیکٹیبل کی کھیپ کو پارٹی کے اندر لانا۔الیکٹیبل کی اصطلاح پاکستان میں نئی نئی تھی۔ مگر50ء کی دہائی سے اسے لوٹا کا نام دیا جاتاتھا۔ یہ وہ الیکٹیبل یعنی لوٹے ہوتے جو اپنی وراثتی اور لوٹ مار کی کمائی کے سبب اپنے اپنے علاقوں یعنی حلقوں میں اتنے طاقتورہوتے کہ انتخابات فوجی حکومت کے دور میں ہوں یا سویلین۔۔۔ اکثریت ان ہی کی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں لنگر انداز ہوتی۔ کالم کی تنگ دامنی کے سبب ان لوٹوں کی طویل فہرست میں نہیں جانا چاہتا۔ مگر ماضی کی دس قومی و صوبائی اسمبلیوں کی طرح جولائی 2018ء میں منتخب ہونیوالی اسمبلیوں میں بھی دو تہائی اکثریت ان ہی الیکٹبل یعنی لوٹوں کی بیٹھی ہے۔ پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ میں دھڑے بندیوں کا آغاز قائد کی آنکھ بند ہوتے ہی شروع ہوگیا تھا۔1951ء سے 1958ء تک یعنی سات سال میں سات وزرائے اعظم اس طرح بدلے کہ پڑوسی ملک بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو یہ پھبتی کسنے کا موقع مل گیا کہ اتنی میں شیروانیاں تبدیل نہیں کرتا جتنی جلد پاکستان کا وزیر اعظم تبدیل ہوجاتا ہے۔ فیلڈ مارشل ِایوب خان کے بعد ہر سویلین فوجی حکمراں اپنے مطابق مسلم لیگ کو گود لیتا رہا۔ جنرل ایوب خان کو جب سویلین ٹوپی پہننے کی ضرورت پیش آئی تو کونسل لیگ راتوں راتوں کنوشن مسلم لیگ بن گئی۔ ایوب خان رخصت ہوئے تو کنونشن لیگ پگارا لیگ بن گئی۔ جو بڑے فخر سے دعویٰ کرتے کہ جی ایچ کیو کے آدمی ہیں۔ یقینا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس کا کریڈٹ بانی پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کو ہی جائیگا کہ جنہوں نے مسلم لیگ کو ہائی جیک کرنے کی بجائے اپنی پارٹی تو بنائی ہی، ساتھ ہی ان روایتی وراثتی گھرانوں کے امیدواروں کے مقابلے میں سن 1970ء کے انتخابات میں اکثریت میں درمیانی طبقے کے امیداروں کو ٹکٹ دئیے۔ جن میں سے بیشتر تو سکہ بند سوشلسٹ تھے۔ پاکستانی سیاست میں 23 سال بعد یہ ایک بڑی تبدیلی ہی نہیں انقلاب تھا۔ مگر اس کے تا بوت میں بدقسمتی سے پہلی کیل ٹھوکنے کا سہرا بھی ان کے سر گیا۔۔۔ کہ ابھی سال نہیں گذرا تھا کہ سارے ملک کے موقع پرست تاجر ،وڈیرے پارٹی کے جیالوں کی جگہ لے چکے تھے۔ مارچ 77ء میں جب بھٹو صاحب کے اقتدار کی کشتی ڈوب رہی تھی تو اس وقت بھی انکا انحصار ان ہی الیکٹیبل یعنی لوٹوں پر تھا جنہوں نے بھٹو صاحب کو دو تہائی اکثریت تو دلا دی مگر 5 جولائی سن 77ء کی رات ان کے اقتدار پر شب خون مارا گیا تو ان کی فوج ظفر موج ضیاء الحق کی حکومت کے آگے سجدہ ریز ہوچکی تھی۔ poor جیالوں نے بڑی لاٹھیاں ، کوڑے اور جیلیں بھگتیں۔۔۔ مگر بھٹو صاحب کو تختہ? دار سے نہ بچا سکے۔ سن 1988ء میں طویل جدوجہد کے بعد بے نظیر بھٹو نے جو مشروط اقتدار قبول کیا تو اسکی ہنڈیا سال ڈیڑھ سال میں تو پھوٹنی ہی تھی۔ 1990ء کی دہائی پاکستان میں shame of democracy کی دہائی کہلاتی ہے۔۔۔ زرداریز اور شریفوں نے ایکدوسرے کوگرانے کے لئے جو ہتھ کنڈے استعمال کئے ساتھ ہی جو اربوں کی لوٹ مار کی اس کے بعد امید کی ایک کرن تحریک انصاف کے قائد عمران خان ہی تھے۔2013ء میں انہیں ایک صوبے میں حکومت اور قومی اسمبلی میں 50کے قریب نشستیں بھی ملیں۔۔۔۔ مگر جولائی 2018ء کے الیکشن کے آتے آتے وہ ہر صورت میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے قرار ہوچکے تھے۔ یوں ایک بار پھر انہیں اْن ہی الیکٹیبل یعنی لوٹوں کے پاس جانا پڑا جن کی آل اولاد ستر سال سے ہر سویکین اور فوجی دسترخوان سے نوالے ہی نہیں۔۔۔۔ دیگوں اور تھالیوں سے پیٹ بھرتی رہی۔۔پہلے سو دن قوم نے اس لئے بھی فراخدلی سے دئیے کہ وہ شریفوں اور زرداریوں کے چہروں اور ان کی کرپشن سے نفرت کی حد تک بیزار ہوچکے تھے۔ یقیناً وزیر اعظم عمران خان کی پہلی ٹیم وننگ نہیں بھی تھی تو گزارا لائق ضرور تھی۔ بڑے بڑے مگر مچھوں کی جس طرح پکڑ دھکڑ ہوئی اس پر بھی عوام نے خوب خوب تالیاں پیٹیں۔۔۔۔ مگر بصد احترام ہمارے معصوم کپتان اقتدار میں آنے کے بعد پاکستانی ریاست کی اس ڈائنامک کو سمجھنے میں ناکام رہے کہ جس میں مقتدر اداروں کا اقتدار میں لانا اور پھر ہلانا اور گراناکلیدی کردار ادا کرتا ہے۔۔۔ خان صاحب نے جو تیور دکھائے اور ان کے ساتھ ہی ان کے نائب کپتان وزیر خزانہ اسد عمر نے جو پالیسیاں اختیار کیں۔۔۔ وہ ریاست کے مقتدر اداروں کی مرضی و منشا کے مطابق نہیں تھیں۔زیادہ تفصیل میں نہیں جاونگا۔۔۔مگر نیب کے ہاتھوں کرپشن کے الزام میں پکڑے جانے والے جس طرح باری باری گلوں میں پھولوں کے ہار ڈالے با عزت باہر آرہے تھے۔۔۔۔ وہ خان صاحب کے لئے ایک سگنل تھا۔پہلے ہی سے بحران زدہ معیشت کو روکنے کے لئے انصاف کے ترازو کو مضبوطی سے پکڑنا ان کی ایک بھول تھی۔۔۔ رہی سہی کسر ناتجربہ کار ٹیم نے پوری کردی۔ جو بنی گالہ کو سارا پاکستان سمجھ بیٹھے تھے۔.صرف آٹھ ماہ بعد کپتان کی ٹیم کے بڑے بڑے برج جس طرح الٹے گئے ہیں اور وہ بھی خود ان کے ہاتھوں۔۔۔وہ اس بات کا پیغام ہے کہ بدقسمتی سے ایک بار پھر پاکستان کے غریب عوام کی تبدیلی کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ افسوس کہ ابھی تبدیلی آئی ہی نہیں تھی کہ باجو والی گلی سے واپس لوٹ گئی۔