اخبارات سے اطلاع ملی ہے کہ سرکار انتظامی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے۔ خبر نگار چونکہ مستند شخص ہے اور ویسے بھی یہ خبر اسی دن سے سنائی دے رہی ہے جب یہ حکومت برسراقتدار آئی ہے۔ عشرت حسین پاکستان کے سینئر بیوروکریٹ ہیں‘ سٹیٹ بنک کے گورنر رہ چکے ہیں‘ ریٹائرمنٹ کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن(آئی بی اے) کے سربراہ کی ذمہ داری نبھائی۔پہلے بھی انہیں یہ کام سونپا جاتا رہا ہے‘ اس لئے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس سلسلے میں ضرور کچھ کام ہوا ہے۔ جسے ہم کبھی نوکر شاہی کہتے ہیں۔ کبھی افسر شاہی یا پھر سیدھی طرح بیورو کریسی‘ اسے ہم نے خاصی لعن طعن کی ہے۔ کبھی اسے دیسی انگریز کہا ہے۔ کبھی کالا صاحب ‘ کبھی نوآبادیاتی نظام کی پیداوار‘ اس میں ہمیشہ کیڑے نکالے ہیں۔ اسے اپنی ساری خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ہم نے گاہے گاہے اس میں تبدیلی بھی کی ہے اور ہمیشہ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ جب اس حکومت نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اس نے یہ کام عشرت حسین کو سونپ رکھا ہے اگرچہ میری رائے عشرت صاحب کے بارے میں بڑی مثبت رہی ہے‘ مگر بعض حلقوں نے اس پر تنقید کی۔ بیورو کریٹ میں جو دانشور ہیں‘ ان میں اظہار الحق نے ممکنہ تبدیلیوں کا نقشہ کھینچا۔ کیونکہ ان کے خیال میں عشرت حسین سروسز کے جس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں‘ اس کا مزاج کچھ ایسا ہے۔ ہمارے دوسرے دانشور دوست اوریا مقبول جان جنہوں نے زندگی بیورو کریسی میں بتا دی‘ اس بات کا اظہار کرنے لگے کہ سیاستدانوں کو غلط راہ پر لگانے والے یہ بیورو کریٹ ہی ہیں۔ کہیں سے خیر کی خبر نہیں آ رہی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب جو تبدیلی ہو رہی ہے‘اس کس کس کا کتنا دخل ہے۔ البتہ باقی کے تجربات کی روشنی میں کچھ عرض کر سکتا ہوں۔ بھٹو صاحب نے اس حوالے سے بڑا قدم اٹھایا تھا۔ ویسے تو وہ یحییٰ خان کے بعد پہلے حکمران تھے جنہوں نے افسر شاہی میں چھانٹی کی۔ گویا ساری خرابیوں کی جڑ یہ ہیں۔ یحییٰ نے 303نکالے تھے تو بھٹو نے کوئی 1100کو فارغ کر دیا۔ ان میں بظاہر نیک نام لوگ بھی تھے۔ نیک نام نہ کہیے‘ یوں کہہ لیجیے ایسے لوگ بھی تھے جن کی بطور ایڈمنسٹریٹر شہرت تھی۔ پھر قانون سازی کی ٹھانی ان کا بھی ہمارے موجودہ مبینہ پالیسی سازوں کی طرح خیال تھا کہ افسر کی نوکری اتنی پکی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ خودسر ہو جائیں۔اس وقت جو منتخب ہوتا‘ اسے جو سروس دی جاتی وہ اس میں سنیارٹی کے لحاظ سے ترقی کرتا جاتا۔ بھٹو صاحب کی سکیم میں یہ تصور تھا کہ اگر کوئی شخص خاص شعبے کا ماہر ہے تو اسے اعلیٰ گریڈ میں براہ راست ملازمت دی جا سکتی ہے۔ خرابی مگر اس میں یہ ہوتی کہ قانون پاس کرنے کے بعد اشتہار آیا کہ 18گریڈ کے 90افسر چاہئیں۔ مطلب یہ کہ کسی خاص شعبے میں نہیں۔ کسی خاص تخصص کے ساتھ نہیں‘ بس چاہئیں۔ کچھ 18میں آ گئے‘ کچھ 19میں‘ کچھ 20میں۔ براہ راست سروس کا سارا ڈھانچہ تلپٹ ہو گیا۔ سروس میں تین طرح کے لوگ تھے۔ ایک پرموٹی جو نیچے سے ترقی کر کے آئے تھے مثلاً گریڈ 16میں یا 14میں بھرتی ہوئے۔ ترقی کرتے ہوئے آگے آگے‘ دوسرے سروسز کا امتحان پاس کر کے آنے والے اور تیسرے یہ کئی قسم‘ براہ راست اعلیٰ ترگریڈ میں چلے آنے والے۔اس میں یہی ہوا کہ سروسز کے درمیان میں بھی براہ راست ترقی دی جا سکتی تھی۔ آپ سرکار کے رحم و کرم پر آ ئے۔ جب چاہے آپ سے اوپر کسی جونیئر کو بٹھا دیا۔ عجیب چوں چوں کا مربہ بنا دیا گیا۔ پھر ایک کام یہ کیا گیا کہ ان کے سر سے آئین کا سائبان اٹھا لیا گیا۔ اعلیٰ سروسز کے افسران کو آئین کا تحفظ حاصل تھا۔ وہ ختم کر دیا گیا۔ اب سرکاری ملازم سیاست دانوں کے رحم و کرم پر تھے۔ اس پوری سکیم میں بہت سی باتیں تھیں۔اچھی بھی تھیں۔ اسے بتانے والے ایک بہت ذہین افسر تھے۔ حسن حبیب غالباً ان کا نام تھا۔ سول سروس اکیڈمی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے ان دنوں اپنے ساتھ کام کرنے والے جن دو ایک افسروں کی مدد لی۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ وہ بہت ذہین لوگ تھے۔ ڈرافٹ جس طرح تیار کیا گیا۔ لگتا تھا کہ اب بیورو کریسی میں گویا انقلاب آنے والا ہے۔ عمودی محرک‘ افقی محرک۔ جانے کیا کیا تصورات تھے جن کا تماشا بنتا ہم نے دیکھا ہے۔ دوسری اصلاحات مشرف صاحب نے کی ہیں۔ انہوں نے اخبارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے نام پر لگے ہاتھوں بیورو کریسی کا سارا ڈھانچہ بھی بدل دیا۔ بڑی گالیاں پڑتی تھیں ڈی سی کو۔ اسے ڈی سی او بنا دیا گیا۔ پولیس کو آزاد کر دیا گیا۔ کہا گیا یہ ڈی سی کے ماتحت نہیں ہو گی۔ شہر کے ناظم یا میئر کی نگرانی میں ہو گی۔ یہ الگ بات کہ اس کا تبادلہ ترقی اس کے اعلیٰ پولیس افسر کے ہاتھ میں ہو گا۔ ضلع کا کوتوال ڈپٹی کمشنر کے ماتحت نہیں تھا۔ یہ طے تھا کہ ایک پولیس کمشن بنایا جائے گا۔ وہ بن نہ پایا۔ اس وقت جو لطائف ہو رہے ہیں‘ وہ اس ڈھانچے کا شاخسانہ ہے۔ تحریک انصاف نے پولیس کو آزاد کرنے کا اعلان کیا۔ جانے اس پر خیبر پختونخواہ میں کتنا عمل ہوا۔ مگر جب پنجاب کی باری آئی تو ساری قلعی کھل گئی۔ چار چار آئی جی تبدیل ہوئے۔ ادھر کسی نے اختلاف کیا‘ ادھر پلک جھپکتے ہی وہ بدل دیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ ان کا کام حکم ماننا ہے پالیسی بنانا نہیں۔ جس کسی نے تبدیلی کرنا چاہی وہ بھی کہتا ہوا آیا کہ بیورو کریسی روڑے اٹکاتی ہے۔ روڑے تو آپ صاف کر لیں گے مگر نیچے سے ساری شاہراہ ہی غائب ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ نظام چل نہیں پا رہا۔ ڈی سی کے نظام کو تو شہباز شریف ہی واپس لے آئے تھے اور موجودہ تبدیلی والی تحریک انصاف اس کو اور سخت کر رہی ہے۔ یہ جو نئی تبدیلی کی خواہش ہے‘ یہ ماضی کے تجربات میں اضافہ ہے۔ پہلی بات تو یہ بنا دی گئی کہ لازمی نہیں کہ ہر افسر ترقی کرتا جائے۔ فوج میں تو ایسا نہیں ہوتا کوئی میجر پر ریٹائر ہو جاتا ہے‘ کوئی کرنل یا بریگیڈیئر پر۔ اس لئے ہم سول میں بھی افسروں کی خودبخود ترقی کے تصورکو مسترد کر دیں گے۔ پھر اعلیٰ سطح پر بہت سی آسامیاں براہ راست پر کی جائیں گی۔ مجھے اندازہ نہیں یہ نیا نظام پوری طرح کس شکل میں تیار ہو گا۔ ڈر لگتا ہے یہ ایک اور لطیفہ ہو گا۔ مقصد صرف یہ ہو گا کہ بیورو کریسی کو نکیل ڈالی جائے۔ میں نے عرض کیا ہم نے بیورو کریسی کو بہت گالیاں دی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت انتظامیہ بکھری پڑی ہے۔ جو نظام ہمارے ہاں ہے‘ اس میں کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ سول سروس ریڑھ کی ہڈی کا کام کرے تاکہ وزیر‘ مشیر سرکاری منصب دار گڑ بڑ نہ کر سکے۔ جانے ہم کب توازن قائم کر پائیں گے۔ لگتا ہے ایک مضبوط دیانتدار سول سروس انتظامی معاملات کو چلانے کے لئے ضروری ہے۔ مجھے شک ہے ہم نے کبھی ایسی تبدیلی کی ہے جو بہتری کی طرف جاتی ہو۔ اس لئے ہر تبدیلی کی خبر سے تو اب کانپ کانپ اٹھتا ہوں۔ اللہ خیر کرے۔ ہر تبدیلی کے پیچھے کتنا شاندار تصور کیوں نہ ہو۔ اس کی افادیت کا اندازہ اس کے استعمال سے ہوتا ہے۔ ڈر ہے کہ ہماری نیت اب بھی ٹھیک نہیں۔ اشارے تو کر دیے ہیں۔ ذرا نقشہ سامنے آنے دیں‘ کھل کر بات کریں گے۔