برطانوی پارلیمنٹ (ہائوس آف کامنز) میں پہلے ایشیائی ممبر ہونے کا اعزاز دادا بھائی نوروجی کو حاصل ہے یہ برٹش انڈیا میں سرگرم سیاسی لیڈر تھے پارسی مذہب سے ان کا تعلق تھا دادا بھائی نوروجی1860ء میں یونیورسٹی کالج لندن میں گجراتی زبان کے پروفیسر اور پھر بعد میں 1892-95ء کی دہائی میں ’’لبرل ڈیمو کریٹس پارٹی‘‘ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اسی پارٹی کے ٹکٹ پر برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے۔1886ء میں کانگریس کے صدر اور پھر نبرودا کے وزیر اعظم بھی رہے ۔لندن میں اپنی سیاسی زندگی کے دوران وہ قائد اعظم محمد علی جناح سے قریبی رابطے میں رہے اور ان سے مشورے بھی لیتے رہے ۔دادا بھائی نوروجی کی سیاسی سماجی اور قلمی خدمات کے اعتراف میں آج بھی کراچی‘ ممبئی اور لندن میں ان کے نام سے سڑکیں منسوب ہیں۔1867ء میں دادا بھائی نوروجی نے ’’ڈربن آف ویلتھ تھیوری‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی اس کتاب میں انہوں نے لکھا کہ دراصل برطانیہ ہندوستان کی دولت لوٹ رہا ہے انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس لوٹ مار کا تذکرہ کیا ہے بتاتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام کے تحت ہندوستان کی ساری دولت کا برطانیہ لے جانا اور پھر اس کے بدلے ہندوستان کو کچھ بھی نہ ملنا ہندوستان اور خود اس کے عوام کی بے بسی اور غربت کی اصل وجہ بنی ہے کیونکہ ہندوستان کی حکومت غیر ملکی ہے اس بنا پر یہاں نئے لوگ یا سرمایہ کار آتے ہی نہیں لہٰذا اس طرح غیر ملکی سرمایہ اس ملک میں آتا ہی نہیں جبکہ ہندوستان کے اندر سرکاری ملازمین اور فوج کے تمام تر اخراجات ہندوستان ہی کے سرمایہ سے پورے کئے جاتے ہیں دوسری جانب ہندوستان کے اندر اور دوسرے ممالک میں برطانوی سلطنت کی توسیع کے اخراجات اور دیگر امور میں بھی سرمایہ ہندوستان ہی کا استعمال ہوتا ہے حتیٰ کہ ریلوے سے ہونے والی تمام کی تمام کمائی بھی ہندوستان کے عوام کو نہیں ملتی۔ دادا بھائی نوروجی کی تنصیف ڈربن آف ویلتھ تھیوری کا اگر آج مطالعہ کیا جائے اور پھر پاکستان کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس تھیوری کا براہ راست اطلاق پاکستان کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورت حال سے بہت قریب نظر آتا ہے اس میں فرق صرف یہ ہے کہ برٹش انڈیا میں غیر ملکی قابضین ہندوستان کی دولت لوٹ کر برطانیہ لے جا رہے تھے لیکن آج اصل حقیقت یہ ہے کہ خود ہمارے اپنے حکمران وطن عزیز کی قومی دولت لوٹ کر برطانیہ لے جا رہے ہیں اگر کوئی آج’’ڈربن آف ویلتھ تھیوری‘‘ کے نام سے پاکستان کے بارے میں کتاب لکھے تو اس میں کسی غیر ملکی حاکم کا بالکل کوئی ذگر نہ ہو گا بلکہ خود ہمارے اپنے سیاستدانوں‘ افسر شاہی صاحبان کے نام سرفہرست ہونگے آج پاکستان کا سرمایہ جس طرح باہر لے جایا گیا اور بدستور جاری ہے یہ مکمل طور پر ان نکات سے مطابقت رکھتا ہے جو کہ دادا بھائی نوروجی نے اپنی کتاب ’’ڈرین آف ویلتھ تھیوری‘‘ میں بیان کیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہے اور ملکی دولت پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے جو کہ پاکستان کے عوام کی محرومیوں بے روزگاری اور غربت کی اصل وجہ ہے ۔بے ضمیر اور عوام دشمن اشرافیہ اقتدار پر قابض ہے۔ان خاندانوں کے افراد چہرے بدل بدل کر بار بار اقتدار میں آتے ہیں ان کی بیش بہا دولت اقتدار کے راستوں کو آسان بنا دیتی ہے ان کی اولادوں کا اور کوئی شغل ہی نہیں یہ بیرون ملک تعلیم حاصل کر کے واپس پاکستان لوٹتے ہیں اور پھر اقتدار کے ایوانوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ نسل در نسل اقتدار ان ہی خاندانوں کے ہاتھ میں رہتا ہے سیاسی پارٹیوں میں اگر باپ ایک پارٹی میں تو بیٹا دوسری پارٹی میں یا پھر ایک ہی پارٹی میں پورے کا پورا خاندان قابض ہو جاتا ہے بڑی مثال ہمارے سامنے ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی‘ ان دونوں پارٹیوں کی گزشتہ تیس سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ان پر کون قابض ہیں کن لوگوں کا سکہ ان پارٹیوں میں چلتا ہے ہائوس آف شریف میں میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف‘ مریم نواز اور پھر حمزہ شہباز ان کے علاوہ ہے کسی کی مجال جو کہ اس پارٹی کی قیادت کر سکے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی میں دیکھ لیں آصف علی زرداری پارٹی کی ہائی کمان کی صدارت کرتے ہوئے ایک طرف اپنے ولی عہد بلاول زرداری‘ دوسری جانب اپنی صاحبزادی آصفہ اور ساتھ میں اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کو بھی برابر بٹھاتے ہیں اس پارٹی میں کتنے ہی سینئر رہنما موجود ہیں چودھری اعتزاز احسن سے لے کر سید قائم علی شاہ اور قمر الزمان کائرہ جیسے لوگ ہیں۔ سابق چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک ارو نیئر بخاری بھی شامل ہیں یہ سب کے سب بلاول زرداری کو اپنا لیڈر مانتے ہیں کیا پارٹی میں کوئی ایسا جیالا نہیں جو کہ پارٹی کی قیادت کر سکے۔ جاتی امرا اور بلاول ہائوس کے گرد تمام سیاست گھومتی ہے۔ نااہل ہو کر بھی پارٹی کی تمام طاقت اور پارٹی کمان میاں نواز شریف کے ہاتھ میں چلی آ رہی ہے۔ گزشتہ 30سالوں میں جن دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے حکمرانی کی ہے ذرا ان کی تاریخ پر نظر ڈالیں کہ کس طرح ان پارٹیوں کے موجودہ قائد اپنی سیاسی قوت اور گرفت کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ان دونوں پارٹیوں کے قائد پاکستانی سیاست میں حادثاتی پیداوار ہیں ۔میاں نواز شریف کو خود جنرل ضیاء الحق نے پرموٹ کیا جنرل جیلانی نے انگلی پکڑ کر پنجاب کی سیاست میں اتارا یہ جرنیل ان کو سیاست میں نہ لاتے تو یقینا میاں نواز شریف آج بھی فولاد ہی کے کاروبار تک محدود ہوتے اور زیادہ سے زیادہ اپنی انڈسٹریل ایمپائر کو مزید فروغ دے پاتے مگر ہوا یہ کہ ان کا کاروبار بھی ایک ساتھ پروان چڑھا اور ساتھ ساتھ اقتدار کی راہیں کھلتی چلی گئی اور صوبائی وزیر سے وزیر اعلیٰ اور تیسری مرتبہ مملکت پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ یہ کمال ہے ہماری سیاست کا جس کو جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے اس وزیر اعظم کی تمام ادوار میں کسی بھی آرمی چیف سے نہ بنی اب عالم یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار قومی خزانے کے محافظ رہیں داماد کیپٹن صفدر ممبر قومی اسمبلی اور پھر بیگم کلثوم نواز بھی ممبر قومی اسمبلی اس کے علاوہ بے شمار اس خاندان کے لوگ کسی نہ حوالے سے اقتدار میں برابر شریک ہیں ۔ اس وقت میاں نواز شریف اکیلے 781ملین روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں بیرون ملک ان کے اثاثے اور ان کی اولادوں کی جائیدادیں اور اثاثے اس کے علاوہ ہیں اب ذرا آصف علی زرداری کا ماضی دیکھ لیں کہ یہ حاکم علی زرداری کے چشم و چراغ ہیں جو کہ بمبینو سینما کے مالک اور درمیانے درجے کے زمیندار تھے ان کی شہرت میں چار چاند اس وقت لگے جب ان کی قسمت کا ستارہ چمکا اور ان کی شادی محترمہ بے نظیر بھٹو سے ہو گئی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں بھر پور کوشش کی کہ ان کے شوہر عملی سیاست سے دور رہیں اور حکومتی امور میں مداخلت نہ کریں لیکن بہت سینئر بیورو کریٹس بتاتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہدایات کے باوجود آصف علی زرداری اعلیٰ سطح کے حکومتی مالی امور اور تجارتی معاہدوں کے لین دین اور بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں اپنا کمیشن کسی نہ کسی طریقے سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں جن میں ان کے فرنٹ مین اپنا کام دکھاتے رہے چونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی کرنا ہی ان کے لیے پاکستانی سیاست میں ان کو نمایاں کرنے کا باعث بنا اور پھر بدقسمتی سے جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہو گئیں تو پھر ایک پراسرار وصیت کے ذریعے پارٹی قیادت بھی ان کے قبضے آ گئی رحمن ملک جیسے لوگ ان کے خصوصی مشیر بن کر ان کے ہاتھ مضبوط بناتے رہے ذرا اندازہ کر لیں کہ پاکستانی سیاست میں کیا کیا کھلواڑ ہوا ہے۔2018ء کے قومی انتخابات ملکی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہونگے جس سے ملک کی تقدیر کا دھارا بدل سکتا ہے اور ملک میں واقعی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے اب یہ بھی امید رکھنی چاہیے کہ ہر بدعنوان سیاستدان بیورو کریٹ‘ ریٹائرڈ جرنیل غرض کہ ہر عوامی نمائدہ جو بدعنوانیوں کا مرتکب پایا گیا ہو اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے یقینا ماضی کے بدعنوان حکمران اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے تو پھر دیانتدار اور عوام دوست عوامی نمائندے ہی ابھر کر سامنے آئیں گے اب محض سزائیں دے کر معاملہ ختم نہ کیا جائے بلکہ لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی کو بھی یقینی بنایا جائے‘ صرف میاں نواز شریف کے 5سالوں کا قرضہ 30.1ارب ڈالر بنتا ہے اور پھر اس وقت پاکستان 95ارب ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے 17ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ماضی میں آصف علی زرداری کی 5سالہ حکومت میں ملکی قرضہ 20.6ارب ڈالر تھا وہ جاتے ہوئے ملک کو 60.9ارب ڈالر کا مقروض کر کے چلتے بنے۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام ان دونوں حکمرانوں کی لوٹ مار کی وجہ سے بھوک‘ بیماری اور جہالت اوڑھ کر جمہوریت کے نام پر خوش ہیں اگر اسی کا نام جمہوریت ہے تو پھر اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قوم اور پاکستان پر اپنا کرم کرے اور کوئی ایسا وسیلہ بنا دے کہ پاکستان میں واقعی تبدیلی آ جائے اور قوم کرپٹ حکمرانوں کے چنگل سے آزاد ہو جائے۔