وہی ہوا جس کا ا ندیشہ تھا۔ شکست خوردہ عناصر اپنی شکست ماننے کو تیار نہیں۔ شاید ان کی قسمت میں ابھی اور رسوائی لکھی ہے۔ وہ نوشتہ دیوارپڑھنے سے قاصر ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہ 1977ء نہیں اور نہ ان کا واسطہ کسی جمہوری ڈکٹیٹر سے ہے کہ وہ نتائج کو ماننے سے انکار کریں گے اور عوام ان کے ساتھ ہو جائیں گے۔ گلی کوچوں میں جلوس نکلیں گے اور مسجدوں میں اذانیں گونجیں گی۔ 1977ء کے انتخابی نتائج کو نہ ماننے کے نتیجے میں فوج آ گئی تھی اور گیارہ برس قوم کے فوجی راج میں گزر گئے۔ اب کے ایسا نہ ہو سکے گا اس لیے کہ تحریک انصاف کو عوام کا واضح مینڈیٹ مل چکا ہے مگر جن کی پیشانی پر شکست خوردگی کا داغ لگ چکا ہے‘ وہ اب مٹنے والا نہیں۔ اب یہ داغ اور گہرا ہوگا۔ افسوس کہ ان کی آنکھوں میں اتنی بھی حیا نہیں کہ وہ اپنی شکست‘ اپنی ہزیمت کو چپکے سے مان کر کہیں منہ چھپا کے نکل جاتے۔ ڈھٹائی اس درجے کی کہ میڈیا کے سامنے آ کر اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ اتنے واشگاف طریقے سے کہ یہ بھی خیال نہیں کہ ملک کن بحرانوں میں گھرا ہے‘ عوام کس درجہ دکھی اور پریشان حال ہیں۔ بم دھماکوں میں کتنے بے گناہ مارے جا چکے‘ امن و امان کے ساتھ معاشی عدم استحکام نے کس طرح عوام کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ قرآن نے جو تصویر کشی کی ہے کہ آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں‘ کان ہیں مگر سنتے نہیں‘ دل ہے مگر محسوس نہیں کرتے۔ آگے اور کیا درج ہے‘ یہ انہیں بھی معلوم ہے کہ وہ اپنی ڈھٹائی میں کس سے بدتر ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان کو عوام کی زیادہ حمایت کی سہولت حاصل ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بڑے بڑے برج جو الٹے ہیں‘ وہ عوام ہی کا فیصلہ ہے۔ 1977ء میں اگر دھاندلی دھاندلی کا شور مچا تھا تو اس کے ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد موجود تھے۔ عوام کو اپنے ووٹ اور اپنے فیصلے کا علم تھا اور انتخابی نتائج اس کے برعکس تھے۔ اب کے وہی دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں جنہیں عوام نے مسترد کردیا ہے مثلاً مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی‘ سراج الحق اور فاروق ستار۔ میڈیا کے سامنے ان کے چہرے لٹکے اور کندھے جھکے ہوئے تھے اور صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہمارا ملک اس خطہ ارض پر شاید واحد مثال ہے جہاں تاریخ اپنے آپ کو بار بار دہراتی رہی ہے۔ ایک ہی جیسے واقعات بار بار پیش آتے رہے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر الم یعنی یہ ہے کہ ان سے سبق سیکھنے والا کوئی نہیں۔ کل تک پی این اے کے سربراہ مفتی محمود نے جملہ حزب اختلاف کی طرف سے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا تھا‘ آج ان ہی مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن وہی موقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ مفتی محمود کا تو ایک اصول پسند سیاست دان کے طور پر ملک بھر میں احترام پایا جاتا تھا کہ بھٹو صاحب نے جب نیپ پر پابندی لگائی اور بلوچستان میں اس کی حکومت کو برطرف کیا تو مفتی محمود بحیثیت وزیراعلیٰ سرحد اظہار یکجہتی کے طور پر مستعفی ہو گئے تھے۔ اتنی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کبھی کسی موقع پر ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن نے دکھایا؟ ان کی بابت تو یہ لطیفہ مشہور ہے کہ ہر حکومت جاتے ہوئے اپنے پیچھے دو چیزیں چھوڑ جاتی ہے۔ قرضے اور مولانا فضل الرحمن۔ مولانا کو تو عمران خان سے ویسے ہی خدا واسطے کا بیر ہے اور بہتان طرازی میں وہ اس درجہ آگے بڑھے ہیں کہ یہودیوں کو بھی اس الزام تراشی پہ شرم آئے۔ ہمیں عمران خان اور ان کی پارٹی سے کوئی ایسی عقیدت نہیں کہ ہم ان کے ہر عمل پر آمنا و صدقنا کہیں۔ ان ہی کالموں میں ان پر شدید تنقیدیں کی جا چکی ہیں لیکن اگر عوام انہیں مینڈیٹ دیں، عالمی نگران ادارے انتخابات کو شفاف مانیں اور بحیثیت مجموعی انتخابی عمل شفاف اور منصفانہ ہی نظر آئے تو ان کو قبول کرنے میں تھڑڈلے پن کا مظاہرہ کرنا کہاں کی جمہوریت پسندی ہے۔ الیکشن والے دن ہی ہم نے لکھا تھا کہ اپنی شکست کو تسلیم کرنے میں ہم قیل و قال کرنے کے عادی ہیں اور یہ سب کچھ اپنا قومی مزاج ہے کہ ہار کر بھی ہم ہار نہیں مانتے لیکن ملک ابھی جن بحرانوں سے گزر رہا ہے‘ ان کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر نتائج کو تسلیم کریں۔ آخر یہ کس صحیفے میں لکھا ہے کہ مولانا اور ان کے حواریوں کے حق میں فیصلہ نہ آئے تو اسے تسلیم نہ کیا جائے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ایک رویے کا نام ہے۔ اگر رویہ جمہوری نہ ہو تو یہ حکومت میں آج اور نہ آج کا ایک ٹھس طریقہ بن جاتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر تو بادشاہت اور شہنشاہت ہی ٹھیک ہے کہ بادشاہ مرا تو بادشاہ زندہ باد۔ مولانا فضل الرحمن نے اعلان تو کیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جلسے جلوس نکالے جائیں گے اور بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ ہم پارلیمنٹ میں ڈاکوئوں کو داخل نہیں ہونے دیں گے۔ وہ کیا سمجھتے ہیں کہ عوام جنہوں نے تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا ہے اور جو تبدیلی کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں‘ انہوں نے کوئی چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی یہ کوشش مولانا کو بہت مہنگی پڑے گی۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت کو جس غیر دانش مندانہ طریقے سے قبول کیا ہے‘ اس نے جماعت کی عوام میں رہی سہی عزت کو خاک میں ملا دیا ہے۔ آدمی شریف اور ایماندار ضرور ہو لیکن بصیرت سے عاری تو نہ ہو۔ آخر عمران خان اور جماعت کے دعوئوں میں فرق ہی کیا ہے۔ مولانا مودودی نے کہا تھا کہ ایک اسلامی ریاست میں مجھے چپڑاسی کا عہدہ بھی منظور ہے تو اگر عمران خان پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں اور مدینے کی ریاست کو ماڈل ریاست سمجھتے ہیں اور اسی طرز پر ملک کی سیاست‘ معاشرت اور معیشت کو ڈھالنا چاہتے ہیں تو اکابر جماعت کو تو خوش ہونا چاہیے کہ یہ بابرکت فریضہ جماعت کے ہاتھوں نہ سہی عمران خان کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے۔ لیکن خدا تقویٰ کے تکبر سے بچائے کہ چند ظاہری شعائر کی پابندی سے یہ احساس اندر جڑ پکڑ جائے کہ ہم ہی متقی ہیں چاہے قیادت کتنی ہی مفاد پرست اور حکومت پسند ہو۔ کیا سراج الحق اور لیاقت بلوچ نہیں جانتے کہ عوام مولانا فضل الرحمن کو کن ناموں سے یاد کرتے ہیں اور ان کی عمومی شہرت کیا ہے؟ افسوس کہ مولانا مودودی کی جانشینی کن کوتاہ علم اور تدبر و بصیرت سے محروم قیادت کے ہاتھوں میں تھما دی گئی ہے۔ جماعت کی مجلس شوریٰ کو ضرور اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ ساری بات فقط اتنی ہے کہ ملک کو اور اداروں کو سالہا سال سے جس اسٹیٹس کو کا سامنا ہے اس جمود سے کون سی پارٹی اور کون سا رہنما ایسا ہے جو ہمیں نکال سکتا ہے۔ اس سڑے بسے نظام سے ہمیں چھٹکارا پانا ہے جس میں عدل ہے نہ مساوات۔ ظلم و استحصال کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ بدنصیبی یہ ہے کہ جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی رہی ہیں اور جن طالع آزما جرنیلوں کو اس ملک میں حکومت کرنے اور عوام پر سواری کرنے کا موقع ملتا رہا ہے‘ انہوں نے اسی فرسودہ نظام کو پختہ کیا ہے‘ تبدیلی کے بجائے انہوں نے صورت حال کو جوں کا توں ہی رکھا ہے اس میں رہی سہی خوبیوں کو بھی ختم کرکے نظام میں سڑاند پیدا کردی ہے۔ عمران خان پہلا لیڈر ہے جس نے ایک واضح وژن کے ساتھ ملک میں تبدیلی کا نقشہ پیش کیا ہے۔ اس کا بہت کچھ عملی تبدیلی کا تجربہ خیبرپختونخوا میں اپنی صوبائی حکومت کے ذریعے اس نے کیا ہے اور اب وفاق میں وہ وہی کچھ کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں ایک عادلانہ نظام چاہیے‘ ایک صاف ستھری حکومت چاہیے‘ ہمیں میرٹ کو نافذ کرنا ہے اور قانون کو سب کے لیے واجب الاحترام بنانا ہے۔ ان ساری تبدیلیوں کا اگر کسی لیڈر کو واضح شعور ہے تو وہ عمران خان ہی کو ہے۔ جیتنے کے بعد اس نے جو تقریر کی ہے‘ وہ ایک سلجھے ہوئے ذہن اور تہذیب و شائستگی کی عکاسی کرتی ہے‘ اس نے صحیح معنوں میں ایک جمہوری رویے کا مظاہرہ کیا ہے لیکن یہ خوبیاں ان سیاست دانوں کو بھلا کیسے نظر آ سکتی ہیں جنہیں اپنی ناک سے آگے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ جو اپنی ذات اور مفادات کے گنبد بے در میں قید ہیں جنہیں ملک اور اپنے چار ٹکے کے فائدوں میں اپنا ہی فائدہ عزیز ہے۔ یہ ساری پارٹیاں اور سارے لیڈر اس لیے اکٹھے ہو کر عمران خان اور ان کی پارٹی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں کہ اب انہیں اس مملکت میں اپنی روایتی اور موروثی سیاست کا سورج غروب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر اب کے عمران خان کو حکومت بنانے کا موقع مل گیا تو پورے ملک میں وہی ہو گا جو خیبرپختونخوا میں ہوا کہ جملہ نشستوں پر عمران کے امیدواروں نے جھاڑو پھیر دی۔ ہمارے خیال میں ہر محب وطن شہری کا فرض ہے کہ ان روایتی سیاست دانوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں اور پوری قوت سے جیتی ہوئی پارٹی کے مینڈیٹ کی حفاظت کریں۔ یہ آخری موقع ہے۔ اگر اس آخری موقع کو ضائع ہونے دیا گیا تو پھر دانشوروں کی دانش وری باقی رہ جائے گی اور قوم و ملک کا کوئی بھلا نہ ہو سکے گا۔