قازقستان کے نامور دانشور چنگیز ایتماتوف ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ گھر سے اعلیٰ طبی تعلیم کا بتا کر شہر آئے۔ وہاں ایک ویٹرنری یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ قازقستان میں دنیا کے عمدہ ترین نسلوں کے گدھے پائے جاتے ہیں۔ وسیع چراگاہوں میں گدڑیے سینکڑوں مویشیوں کا ریوڑ لے کر گھومتے ہیں۔ جدید شہری طرز زندگی نے اس ملک کے لوگوں کو مویشیوں‘ چراگاہوں اور مقامی ثقافت سے دور نہیں کیا۔ چنگیز کے پروفیسر ان کی ساری جماعت کو پریکٹیکل کے لیے مویشی منڈی لے کر گئے۔ پروفیسر صاحب مختلف نسلوں کے خچروں اور گھوڑوں کی پہچان بتا رہے تھے لمبے کانوں اور بلند قامت والے گدھوں کے پاس کھڑے اپنے طلباء کو ان مشقتی جانوروں کی خوبیاں بتا رہے تھے کہ ایک دیہاتی غور سے چنگیز کو دیکھنے لگا۔ چنگیز کو بھی جلد احساس ہوا کہ کوئی اسے بغور دیکھ رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو پہچاننے کی کوشش میں تھے۔ اچانک چنگیز کو یاد آیا کہ یہ تو اس کے گائوں کا آدمی ہے۔ چند ہفتوں بعد وہ گائوں گیا تو اس کی ماں اسے دیکھ کر رونے لگی۔ بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے وہ کہہ رہی تھی کہ تم نے ہماری عزت خراب کر دی۔ تم ڈاکٹر بننے گئے تھے مگر جانوروں کا کام کرنے لگے۔ ایسا ہی کرنا تھا تو ہمارے گائوں میں گدھوں کی کیا کمی تھی۔ ہم اس بات میں تمیز کرنے میں ایسے ہی سادہ لوح اور نادان ہیں کہ سیاسی جماعتیں کیا کام کر سکتی ہیں جیسا کہ چنگیز کی معصوم والدہ ویٹرنری ڈاکٹر کا کام سمجھنے سے قاصر تھیں۔ہمارے قارئین کا ایک بڑا حلقہ ناروے‘ سویڈن‘ برطانیہ ‘ امریکہ اور سپین میں آباد پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔ ان میں امریکہ اور برطانیہ میں سیاسیات اور میڈیا کی تعلیم سے وابستہ بہت سے اہم افراد سے گزشتہ چھ سال کے دوران رابطہ رہا۔ سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ پرامن تبدیلی کی اجتماعی خواہش صرف سیاسی جماعت کے ذریعے پوری کی جا سکتی ہے۔ سیاسی جماعت ہم خیال افراد کا گروپ ہے۔ یہ افراد مشترکہ مقاصد کے تحت جماعت کے نظم و ضبط کی پابندی قبول کرتے ہیں۔ جماعت کے معاملات چلانے کے لیے کچھ اصول طے کر لیتے ہیں اور پھر اپنی ساری زندگی ان مقاصد کے حصول کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ لاہور میں سائیں ہرا اپنی گدھا ریڑھی پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگا کر گشت کیا کرتا، روشن رکشے والا کو بھٹو صاحب سے ایک ملاقات نے نظریاتی بنا دیا۔ کوٹ لکھپت میں ایک جیالہ بھٹی نام کا ہوا کرتا تھا۔ شائد اب بھی ہو۔ وہ دن رات پیپلز پارٹی کے پرچم سے سلا ہوا چولا پہنے رکھتا۔ ضیاء الحق دور میں غیر انسانی تشدد سے اس کی ذہنی حالت خراب ہو گئی۔ بے نظیر بھٹو کی شادی میں اسے بڑے حترام سے مدعو کیا گیا۔ یہ تینوں کردار میں نے دیکھے ہیں اور بھی سینکڑوں لوگ ہیں۔ ہمارے سینئر دوست علی جعفر زیدی نوجوان استاد تھے جب جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا۔ جلا وطن ہوئے تو برطانیہ میں اپنا سیاسی کردار جاری رکھا۔ پاکستان کے بے لوث دوست اور رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے کے ساتھ مل کر پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا۔ زیدی صاحب اب بھی یہ کام کر رہے ہیں لاکھوں نوجوانوں اور خواتین نے تبدیلی کی ایک خواہش کو پیپلز پارٹی کی طاقت بنایا تھا۔ عمران خان کی ساری سیاسی جدوجہد میرے سامنے ہے۔ اس نے تہیہ کر رکھا تھا کہ فوجی آمروں کے ہاتھوں عوام کے سیاسی شعور کو جو نقصان پہنچا ہے اسے درست کرے گا۔ ہر ریاست کی ایک مخصوص شکل اور مزاج ہوتا ہے۔ اس مزاج کو سیاسی مقاصد طے کرتے وقت پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ عمران خان نے تبدیلی کی نفسیات کا مطالعہ کیا ہے۔ اسے اندازہ ہوا کہ قوم محنتی ہے اور باصلاحیت بھی ہے۔ اس کو علم ہے کہ ریاست وسائل کے اعتبار سے قلاش نہیں۔ اس نے تبدیلی کا پرچم پنجاب سے بلند کیا۔ پنجاب پینتیس سال سے ایک موروثی اقدار کے چکر میں پھنسا ہوا تھا۔ یہاں ایک خاندان کے کاروباری مفادات ہی حوالے اجتماعی مفادات کی شکل اختیار کر گئے تھے اور کوئی اسے چیلنج کرنے والا نہ تھا۔ پولیس اس خاندان کی غلام‘ بلدیاتی ادارے ان کے خادم‘ بدقماش اور جرائم پیشہ لوگ ان کے دست و بازو، تعمیراتی ٹھیکیدار‘ پرمٹ مافیا‘ عدالتی اہلکار‘ تاجر اور طلباء رہنمائوں کی شکل میں بھتہ خور ان کے ساتھی۔ ان تمام گروہوں‘اداروں اور مافیاز سے جو لوگ پریشان تھے انہیں ایک تحفظ درکار تھا، یہ لوگ لاکھوں میں تھے۔ ایک جیسا سوچتے تھے مگر ایک نہ تھے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی سمیت تمام جمہوری جماعتوں کے کارکن لاوارث تھے۔ ان سب کو عمران خان کی شکل میں ایسا جنگجو نظر آیا جو پینتیس سالہ کارخانہ دار اقتدار کا قلعہ مسمار کر سکتا تھا۔ عمران خان کو 22برس لگے پنجاب کے لوگوں کو نواز شریف کے اقتدار کی خرابیاں باور کرانے میں۔ خواجہ جمشید امام‘ شبیر سیال‘ اشتیاق احمد‘ میاں ثانی‘ امین ذکی، محمود الرشید جیسے بہت سے کارکنوں نے دن رات کام کیا۔ حسن نثار جیسے تبدیلی پسند دانشور نے تحریک انصاف کے ابتدائی نقوش تراشے۔ احسن رشید‘ سلونی بخاری‘ زہرہ شاہد جیسے کتنے ہی لوگوں کی بند آنکھوں کے خواب آج عمران کے سامنے کھڑے ہیں۔عمران خان کپتان سے وزیر اعظم بن گیا۔اس کی تقریب حلف برداری میں بہت سے لوگ تھے۔ اس سے توقع تھی کہ وہ جدوجہد کے ساتھیوں کو اس مرحلے پر فراموش نہیں کرے گا۔ بانی کارکنوں کو ٹکٹیں اس لیے نہ ملیں کہ وہ انتخابی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اس تقریب میں بیٹھے بہت سے لوگ ہر حکومت کے آنے کی مٹھائیاں کھاتے رہے ہیں۔ خان کے بے لوث کارکن اپنی جیب سے مٹھائی بانٹ رہے تھے اور اس کی کامیابی کی دعا کر رہے تھے۔ تحریک انصاف پہلی بار اقتدار میں آئی ہے۔ تبدیلی کی جو خواہش عوام پالتے رہے ہیں اب تحریک انصاف کو ثابت کرنا ہے کہ وہ اس خواہش کو حقیقت میں بدلنے کی اہلیت رکھتی ہے۔اسے ثابت کرنا ہے کہ وہ ایک مثالی سیاسی جماعت ہے جو تبدیلی لاتی ہے اور پھر تبدیلی کو استحکام دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔