صدر مملکت جناب ممنون حسین نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کے تحت نو منتخب ارکان کی حلف برداری کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس 13اگست کو طلب کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ اجلاس میں نو منتخب اراکین حلف اٹھانے کے بعد سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کریں گے۔ تا ہم بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم کا انتخاب بعد میں عمل میں لایا جائے گا۔ حالیہ انتخابات کے موقع پر تحریک انصاف وفاق پسند پارٹی کے طور پر ابھری ہے۔ ملک کے تمام صوبوں میں تحریک انصاف کی نمائندگی موجود ہے۔ کے پی کے اسمبلی کا اجلاس بھی 13اگست کو طلب کیا گیا ہے جس میں سپیکر صوبائی اسمبلی، ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواہ کا انتخاب کیا جائے گا۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی نے جام کمال کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا ہے۔ سندھ میں اکثریتی جماعت پیپلزپارٹی نے سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو پھر سے وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف نے حکومت سازی کی مطلوبہ صلاحیت حاصل کر لی ہے تا ہم تادم تحریر وزیر اعلیٰ اور دیگر کلیدی عہدوں کے لیے ناموں کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ امید ہے کہ وزیر اعظم کا انتخاب ہونے تک پنجاب کی صورت حال بھی واضح ہو جائے گی۔ مرکز اور تین صوبوں میں حکومت سازی کی اہلیت رکھنے والی تحریک انصاف نے سٹیٹس کو توڑنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 35برس کے دوران دو جماعتی نظام موجود رہا ہے، اگرچہ پارلیمنٹ میں کسی زمانے میں مسلم لیگ(ن) اسٹیبلشمنٹ نواز اور پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت سمجھی جاتی تھی۔ 90ء کے عشرے میں ان دونوں جماعتوں کی یہ شناخت قومی امور میں مختلف پالیسیوں کی صورت میں دکھائی دیتی رہی۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ دونوں جماعتوں نے اداروں کو مضبوط کرنے اور سیاست سے بدعنوانی کے خاتمہ کی کوششوں پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز حکومت برطرف کرنے کی جو وجوہات بیان کیں ان میں سے دو بدانتظامی اور بدعنوانی تھیں۔ 2006ء میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ خوش گمان حلقوں نے میثاق جمہوریت سے بہت بڑی امیدیں وابستہ کر لیں۔ اسے بل آف رائٹس اور میگنا کارٹا جیسی جمہوری دستاویز کہا گیا۔ یقیناً یہ معاہدہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا تھا۔ اس معاہدے میں دونوں بڑی جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بنیادوں پر مقدمات نہیں بنائیں گی۔ اس نکتہ پر پاکستان کے عوام کی رائے بھی یہی تھی کہ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بلا جواز انتقامی کارروائیوں میں قوم کا وقت اور وسائل ضائع نہ کریں۔ دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو آگے بڑھایا اور ایک دوسرے کے لیے سیاسی سہولیات کا حصول ممکن بنایا۔ بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے مذاکرات کئے۔ ان مذاکرات کی درپردہ حمایت میاں نواز شریف بھی کر رہے تھے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں این آر او تیار ہوا۔ اس این آر او نے قتل، بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دیگر جرائم میں ملوث سرکاری افسران و سیاستدانوں کو معافی دی اور انہیں موقع دیا کہ وہ قومی معاملات میں ایک بار پھر اپنا کردار ادا کر سکیں۔ این آر او کی وجہ سے میاں نواز شریف پرویز مشرف کے ساتھ جو معاہدہ کر کے ملک سے باہر گئے تھے اس میں نرمی کر دی گئی اور وہ اپنے خاندان سمیت پاکستان واپس آ گئے۔ تا ہم بعد ازاں میاں نواز شریف یہ کہتے رہے کہ وہ این آر او میں شامل نہیں تھے۔ 2008ء کے انتخابات ہوئے۔ مرکز میں پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی۔ حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ(ن) کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر دونوں جماعتوں میں اتفاق اور یکجہتی کا جو مظاہرہ دیکھنے کو ملا وہ نوے کی دہائی سے بالکل مختلف تھا۔ عوام حیرت کا شکار تھے۔ مسلم لیگ(ن) کچھ عرصہ مرکز میں شریک اقتدار رہی اور پنجاب میں پی پی کو حکومت میں شامل کیا۔ اس وقت عمران خان نے این آر او کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ عوامی سطح پر عمران خان کو پذیرائی ملنے لگی۔ دونوں بڑی جماعتیں خیر سگالی اور میثاق جمہوریت کی آڑ میں ایک دوسرے کے خلاف جائز قانونی کارروائی سے اجتناب کرنے لگیں۔ تحریک انصاف نے مفاہمت کے نام پر ایک دوسرے کے جرائم کی پردہ پوشی کی کھل کر مخالفت کی۔ آہستہ آہستہ احتساب کا نعرہ عوام کا مطالبہ بنتا گیا۔ 2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف خیبرپختونخواہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ پنجاب میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنی اور مرکز میں قابل ذکر نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت بن گئی۔2013ء کے بعد عوامی احتجاج کی جتنی قابل ذکر تحریکیں اور مظاہرے ہوئے ان کی قیادت تحریک انصاف نے کی۔ دونوں پرانی جماعتوں اور ان کے اتحادیوں نے عوامی آرزوئوں کو نظرانداز کیا۔ پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ جمہوریت کو مادرپدر آزاد رکھنے کی بجائے اسے قانون کے سامنے جوابدہ بنایا جائے۔ سرکاری وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ بند کیا جائے۔ جو لوگ کسی بدعنوانی اور مالیاتی جرم میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق بلاتفریق کارروائی کی جائے۔ وطن عزیز میں نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ چیزوں کو بدلے بغیر اس نئے آغاز سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس خبر کو دلچسپی سے سنا اور پڑھا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے حکومت سازی سے قبل بلیو بک تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلیو بک انتظامیہ کے لیے ہدایات کی دستاویز ہے۔ اس میں وزیر اعظم، وزراء اور دیگر اعلیٰ حکومتی شخصیات کے پروٹوکول کی شرائط بھی درج ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف نے فیصلہ کیا ہے کہ اعلیٰ شخصیات کے پروٹوکول کو غیر ضروری شان و شوکت کے اظہار کی بجائے صرف حفاظتی نکتہ نظر سے ترتیب دیا جائے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ پاکستان جیسا ملک حکمرانوں کی عیاشی اور نمائشی شان پر بھاری اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ملک بھر میں جمہوری استحکام کی روایت کو توانا ہوتا دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں نے جمہوری نظام کو یرغمال بنانے کی بجائے صحت مند تنقید اور اختلاف رائے کا احترام کیا۔ کسی معاشرے کی سیاسی نشو و نما کے لیے یہ بنیادی چیزیں ہیں۔ مگر نظام کہنہ سے فوائد سمیٹنے والے کچھ حلقے ہنگامہ آرائی اور انتشار کے خواہاں نظر آ رہے ہیں۔ یہ امر قومی اطمینان کا باعث ہے کہ گٹھ جوڑ کا نظام دم توڑ رہا ہے۔ عوام اور ریاستی ادارے قانون کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی پر متفق ہو رہے ہیں۔ توقع کی جا رہی تھی کہ نئے وزیر اعظم 14اگست کے مبارک دن اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر عوامی خدمت کا آغاز کرتے لیکن کچھ حلقوں کی غیر ضروری سستی نے ایسا ممکن نہ ہونے دیا۔ 13اگست کو قومی اسمبلی کا اجلاس تبدیلی کی خواہشات کو حکومتی ترجیحات میں ڈھالنے کا روز آغاز ہے۔ ایسی شروعات کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔