مولانا فضل الرحمن سے پریس کانفرنس میں کشمیر کے حوالے سے سوال کیا گیا تو فرمایا‘ جب تک میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین تھا‘ کسی کو کشمیر کا سودا کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ میرے جاتے ہی سودا ہو گیا۔ اخبار نویس جواب سن کر مسکرا دیے۔ حالانکہ معاملہ مسکراہٹ کا سزاوار نہیں تھا۔ مولانا کا چہرہ بھی سنجیدہ تھا اور لہجہ بھی‘ پھر بھی کچھ اخبار نویسوں نے اسے ازراہ تفنن والا جواب سمجھا۔ یہ بات پیپلز پارٹی اور اے این پی کے لیڈروں نے بھی کی ہے۔ پیپلز پارٹی کا بیان ہے کہ بھینسوں کے بعد کشمیر بھی بیچ دیا۔ اے این پی کے اعلیٰ ولی نے تو والا جاہ کا نام لے کر سوال کر ڈالا کہ کتنے میں بیچا۔ ادھر دربار شاہی کے ابوالفضل اور مفتی حضرات‘ جن کی تعداد لگ بھگ پون درجن ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں مصر ہیں کہ سودا نہیں ہوا۔ سودا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک ابوالفضل نے تو فرمایا‘ والا جاہ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ان کے لہجے کا زور’’سوچ بھی نہیں سکتے‘‘ کے الفاظ پر تھا۔ خدا خیر کرے۔ سوچنے سمجھنے کا اختیار واپس لے لیا گیا یا صلاحیت سلب فرمائی گئی۔ ٭٭٭٭٭ دونوں موقف بالکل الٹ ہیں۔ صحیح کیا ہے اس پر رہنمائی درکار ہے اور یہ رہنمائی جماعت اسلامی سے بڑھ کر کون دے سکتا ہے کہ کشمیر پر دوسری عام جماعتوں سے بڑھ کر رازداں ہے۔ جو ہوا ہے‘ اسے معلوم ہے لیکن پراسرار طور پر وہ خاموش ہے۔ مطلب یہ کہ بیانات تو وہ دے رہی ہے لیکن معنی مطلب کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر سراج الحق صاحب کے بیانات دیکھ لیجیے‘ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ نائب وزیر خارجہ لگا دو‘ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا۔ لگتا ہے کچھ چھپانے کی کوشش میں ہیں یا پھر اس سوچ میں گم ہیں کہ بولوں کہ نہ بولوں۔ سچ آکھاں تے بھانبٹر مچدا ہے اور جماعت فی الحال بھانبٹر مچانے سے بچنا چاہتی ہے۔ بہرحال جماعت کی پوری ’’تاریخ کشمیر‘‘ میں اس کی یہ خاموشی پراسرار ہے۔ البتہ راز کا اشارہ دے رہی ہے یعنی خاموشی اشارہ تھا۔ ٭٭٭٭٭ حالات دیکھئے‘ کسی طرح مثالی بنے۔ کئی عشروں سے الجہاد الجہاد کہنے والے اب امن کو واحد آپشن قرار دے رہے ہیں۔ کل تک جو امن کی آشا کے الفاظ کو ’’کلمات کفر‘‘ کہتے تھے‘ آج امن کی بھاشا کے سوا کچھ بولتے ہی نہیں۔ فرماتے ہیں‘ اسلام ان کا دین ہے امن کا پیغام دیتا ہے۔ جزاک اللہ۔ اسلام کا پیغام تین عشروں کے بعد اب سمجھ میں آنا شروع ہو گیا۔ امن کے پیغام تک بات پہنچائی کیسے گئی؟ دلچسپ بات ہے غیر متنازعہ اصول ہے کہ جس ملک کی معیشت تباہ ہو جائے وہ جنگ لڑ ہی نہیں سکتا۔ اس کا واحد آپشن امن کا پیغام رہ جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ‘ پچھلے دو برس سے امن کے پیغام کا سٹیج کس صفائی سے تیار کیا گیا۔ کوئی کمی نہیں رہنے دی گئی۔ اتفاق کی بات ہے۔ دو سال پہلے اس کالم نگار نے بار بار لکھا تھا کہ والا جاہ کو جس ایجنڈے کے ساتھ حکومت دینے کی تیاری ہو رہی ہے‘ اس کا پہلا نکتہ ہماری معیشت کا ’’انجام بخیر‘‘ ہے اسے آپ تحت الخیر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اب کشمیر پر جو لکیر پیٹی جا رہی ہے تو اسے بھی سکرپٹ کا حصہ کیوں نہ سمجھا جائے۔ ٭٭٭٭٭ اب کیا ہو گا‘ صدر بش ثالثی کریں گے۔ ثالثی کا فیصلہ کیا ہو گا؟ شیخ رشید سے پوچھا جا سکتا ہے۔ انہیں ہر فیصلے کا علم چھ ماہ پہلے ہی ہو جاتا ہے۔ پچھلے دنوں آپ کشمیر کاز کے لئے لندن تشریف لے گئے۔ کشمیرکاز کے لئے آپ نے زلف ،بخارا کی چھائوں میں مہنگے سٹور سے خریداری کی‘ ایک محفل موسیقی کا افتتاح فرمایا اور اسی طرح کی دیگر مصروفیات میں اتنے مصروف ہو گئے کہ کشمیریوں کے مظاہرے میں شرکت کرنا بھول گئے۔ بہرحال‘ مبصرین کا کہنا ہے کہ ثالثی کا فیصلہ بھی سکرپٹ میں پہلے سے لکھا ہوا ہے‘ وہ یہ کہ ماضی پر مٹی پائو‘ امن کے لئے آگے بڑھو ۔ بھارت کو کہہ دیا جائے گاکہ وہ فی الحال آزاد کشمیر اور گلگت پر میلی نظر ڈالنے سے باز رہے۔ ٭٭٭٭٭ مسئلہ کشمیر کی نوعیت بدل گئی گویا تبدیلی آ گئی اور تبدیلیاں بہت سے معاملوں میں آ رہی ہیں۔ حج پر جو تبدیلی آئی سب کو پتہ ہے اگرچہ میڈیا پر بہت کم ہی ذکر ہوا۔ اب ایک اور معاملہ دیکھیے۔ ہر عید قربان کے بعد کیا ہوتا تھا؟ کھالیں اکٹھی کرنے کا مقابلہ۔ ہر جماعت بعدازاں اخبارات میں خبر چھپواتی تھی کہ اسے اس بار اتنی کھالیں ملیں۔ جماعت اسلامی‘ ایدھی ٹرسٹ ‘ متحدہ ‘ جماعت الدعوۃ اور بہت ساری رفاہی تنظیمیں اور ادارے ۔ ساتھ ہی ہر بار یہ خبر بھی نمایاں شائع ہوتی تھی کہ پاکستان کے فرزندان توحید نے اس بار اتنے جانور قربان کئے۔ اس بار ایسی کوئی خبر آئی؟ تقریباً نہیں ایک آدھ اخبار نے چھاپی مگر چھپا کر پڑھنے والے کی قسمت نے یاوری کی تو پڑھ لے گا‘ ڈھونڈ کر۔ اس بار 36سے 40فیصد تک جانور کم قربان ہوئے اور کھالیں تو کسی نے اکٹھی ہی نہیں کیں۔بکرے کی کھال کی قیمت سو روپے سے زیادہ نہیں۔ اتنا خرچہ تو کھال اٹھانے اور تاجر تک لے جانے کے کرائے سے بھی کم ہے۔ پھر کوئی کیوں اکٹھا کرتا۔ اور کھالیں اتنی سستی کیوں ہو گئیں‘ کوڑیوں کے بھائو۔ جواب یہ ہے کہ ٹینریز کے کارخانے کچھ بند ہیں۔ کچھ مندے میں ہیں۔ کیوں بند ہیں؟ ارے صاحب ‘ باقی سارے کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ تو ٹینریز میں کیا سرخاب کے پر لگے کہ یہ کھلے رہیں۔ ماشاء اللہ برکات عمران کی گھٹائیں چھما چھم برس رہی ہیں‘ تبدیلی آ نہیں رہی‘ تبدیلی آ گئی ہے آج ہی کی خبر ایک یہ بھی ہے کہ بڑے پیمانے پر مصنوعات بنانے والے کارخانوں کی شرح نمو کم ہوتے ہوتے ہوتے ہوتے ساڑھے تین فیصد پر آ گئی۔