الیکشن 2018ء کا مرحلہ بالآخر کامیابی سے طے ہو گیا۔ آج الیکشن کے بعد دوسرا دن ہے۔ ملک کے طول و عرض میں پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹرز اور ووٹرز میں جشن کا سماں ہے اور کیوں نہ ہو کہ الیکشن 2018ء کا معرکہ تحریک انصاف نے اپنے نام کر لیا ہے اور اب ملک میں نئے پاکستان اور تبدیلی کے نعروں کی گونج ہے۔ ہر الیکشن میں کچھ نتائج توقع کے خلاف یا توقع سے بڑھ کر آتے ہیں اور ایسے ہی غیر متوقع نتائج انتخابی عمل کی سنسنی خیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس الیکشن میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ قومی انتخابات جب بھی کسی ملک میں ہوتے ہیں تو اس کی کئی جہتیں ہوتی ہیں اس کو ڈسکس کرنے کی صرف امیدواروں کی شکست و فتح کے نتائج ہی نہیں ہوتے جس پر غور کیا جائے یا جس پر تبصرہ کیا جائے۔ بہت سے نئے ٹرینڈز بھی بنتے ہیں۔ عوام کی سوچ کا رجحان کیا ہے۔ ہر الیکشن میں یہ نئے سرے سے طے ہوتا ہے اس بار عوام کا رجحان تبدیلی کو دیکھنے کی زبردست خواہش کی جانب رہا اور اسی تبدیلی کے لیے وہ اپنے گھروں سے باہر آئے۔نہ صرف یہ بلکہ دور دراز شہروں سے سفر کر کے اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے حلقوں میں آئے۔اور تبدیلی کو ووٹ کرنے کے لیے وہ ووٹر باہر نکلا جو 2013ء کو چھوڑ کر اگر ہم دیکھیں تو اس سے پہلے ہونے والے انتخابات میں پولنگ سٹیشنوں پر نظر نہیں آیا یہاں تک کہ ووٹر طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد نئے پاکستان کی خواہش میں ووٹ ڈالنے کے لیے جوش و خروش سے باہر نکلی۔ الیکشن کی بساط پر اوندھے منہ پڑے ہوئے بڑے بڑے سیاسی سورما ایسے بھی ہیں جنہوں نے شاید کبھی سوچا نہ ہو گا کہ وہ بھی شکست سے دوچار ہو سکتے ہیں کیا کبھی ہار بھی ان کا مقدر ہو سکتی ہے۔!اس الیکشن میں الٹنے والے سیاسی برجوں میں سرفہرست چودھری نثار علی خان ہیں وہ دونوں حلقوں سے انتخاب ہار کر اس سوچ میں گم بیٹھے ہیں کہ ن لیگ کے دائرے سے باہر نکلنا ان کو مہنگا پڑ گیا ہے۔ اسی طرح ہر حکومت کے ساتھی اور پاکستان میں مفاد اورمفاہمت سیاست کے ماہر مولانا فضل الرحمن بھی بری طرح شکست سے دوچار ہوئے ہیں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی دو حلقوں سے ہارنے کے بعد حیران اور پریشان ہیں۔ اگرچہ لاہور سے وہ قومی اسمبلی کی سیٹ جیت چکے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور مصطفی کمال کی پی ایس پی‘ پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھوں پٹ چکی ہے۔ کراچی کے عوام کے لیے صحیح معنوں میں تبدیلی کا عمل شروع ہواہے ایک زمانے تک یہ شہر خوف وحشت اور موت کے جن تاریک سایوں میںرہا آج اس خوف اس وحشت کا خاتمہ ہو چکا ہے لوگوں نے تحریک انصاف کو چن کر اپنے لیے ایک نئے اور تبدیل شدہ منظر کا انتخاب کیا ہے۔ این اے 125سے یاسمین راشد کی شکست کا مجھے افسوس ہوا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے بالکل عوامی انداز میں گرمی کے موسم کی سختیوں کے باوجود اپنی الیکشن مہم چلائی ڈاکٹر صاحبہ اچھی اور صاف ستھری شہرت رکھتی ہیں۔ لیکن ایک سخت مقابلے کے بعد ن لیگ کے وحید عالم خان نے یہ سیٹ ڈاکٹر صاحبہ سے جیت لی ہے ۔یہ حلقہ بلا شبہ ن لیگ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا اسے ن لیگ کے خاص حلقے کا اعزاز حاصل رہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف 2013ء میں اسی حلقے سے منتخب ہوئے تھے۔ پھر نااہلی کی صورت میں دوبارہ انتخابات ہوئے۔ ڈاکٹر صاحبہ اس وقت بھی کم مارجن سے ہاری تھیں۔ بہرحال سیاست اسی کا نام ہے بعض اوقات صورت حال تجزیوں اور سیاسی پیش گوئیوں سے قطعاً مختلف ہو جاتی ہے جیسے جیپ کے نشان والے آزاد امیدواروں کے بارے میں یہی رائے دی جا رہی تھی کہ جیپ‘ اس بار الیکشن میں جیت کا نشان ہے اسی بنیاد پر چودھری نثار کو اگلے پرائم منسٹر کے طور پر چودھری نثار سنجرانی بھی کہا جا رہا تھا مگر چودھری نثار سنجرانی بنتے بنتے دونوں حلقوں سے ہار گئے۔ لاہور سے ایک انتہائی اہم حلقے این اے 131کا نتیجہ سامنے آیا رات سے سعد رفیق ریٹرننگ آفیسر کی عدالت میں دھرنا دیے بیٹھے تھے کہ شکست کی پہلی خبروں پر یقین سے انکاری ہی تھے لیکن اب اعلان ہو چکا کہ عمران خان نے سعد رفیق کو ایک کڑے مقابلے کے بعد شکست دے دی ہے۔ الیکشن 2018ء کا معرکہ کپتان نے اپنے نام کر لیا ہے۔ کل سے ٹی وی چینلز پر گونجتے اور اخبار کے کالموں میں بولتے ہوئے گوناگوں تبصروں اور تجزیوں کے ہنگام میں عمران خان کی اس شاندار کامیابی پر ایک مختصر مگر موثر تبصرہ توجہ اپنی جانب کھینچتا ہے۔ عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ نے اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پر لکھا کہ ’’22برس کے بعد۔ کئی طرح کی ناکامیوں خواریوں اور رکاوٹوں کے بعد بالآخر میرے بیٹوں کے والد پاکستان کے وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ یہ فتح شکست تسلیم نہ کرنے اور مستقل مزاجی سے اپنے نظریات پر یقین رکھنے کا ناقابل بیان درس دیتی ہے۔مگر اصل چیلنج یہ ہے کہ عمران خان یہ یاد رکھیں کہ وہ سیاست میں آخر کیوں آئے تھے۔!!‘‘ بات جو آخری جملے میں کہی گئی ہے کہ عمران خان بھی یہ نہ بھولیں کہ وہ کس مقصد کے لیے سیاست کی وادی پُرخار میں 22برس پہلے داخل ہوئے تھے۔ کیوں تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تاکہ ’’سٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کیا جا سکے اور اس بات کو یاد رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ عمران خان کی اس شاندار فتح کے پیچھے وہ سارے خواب ہیں جو انہوں نے کرپشن سے لتھڑی ہوئی باریوں کی سیاست سے نالاں پاکستانیوں کی آنکھوں میں بوئے تھے۔ چلو ساری زمین کھودیں اور اس میں اپنے دل بو دیں۔ کہ اس بے رنگ جینے سے۔ نہ تم خوش ہو۔ نہ ہم خوش ہوں! پھر پاکستانیوں نے اس شخص پر جو کبھی کرکٹ کا ہیرو تھا تعین کیا۔ مگر یہ تعین کرتے کرتے 22برس بیت گئے اب امیدوں کی زمین میں تبدیلی کے منتظر پاکستانیوں نے اپنے اپنے دلوں کو بو دیا وہ خواہش مند ہیں کہ تبدیلی صرف چہروں کی نہ ہو بلکہ تبدیلی کاروبار حیات میں نظر آئے۔ اداروں کی مضبوطی میں نظر آئے‘ کرپشن سے مبرا ماحول میں نظر آئے۔ وہی آئی پی کلچر کے خاتمے میں دکھائی دے غربت کے خاتمے میں نظر آئے۔ قانون کی بالادستی میں دکھائی دے۔ قانون جو غریب اور کمزور کی گردن پر پائوں رکھتا ہے اور اثرورسوخ رکھنے والے اہل اختیار کے سامنے کورنش بجا لاتا ہے۔ وہ قانون سب پر لاگو ہو جائے تو تبدیلی نظر آئے گی۔ ملک کا پیسہ ملک پر اور عوام پر خرچ ہو گا تو تبدیلی آئے گی!کپتان اپنی سابقہ اہلیہ جمائمہ گولڈ سمتھ کے یہ الفاظ یاد رکھیں کہ اصل چیلنج یہ ہے کہ اب عمران خان یہ یاد رکھیں کہ وہ سیاست میں کیوں آئے تھے۔‘‘ بہرحال عمران خان کی 22برس کی سیاسی جدوجہد مستقل مزاجی اور عزم مصمم کی ایک داستان ہے اس فتح کے بعد اس داستان کے سب سے اہم باب کا آغاز ہونے والا ہے۔ پاکستانیوں نے عمران خان پر اعتماد کرکے اپنا نصیب ان کے اختیار میں دے دیا دعا ہے کہ اس بار عوام کے مقدر میں مایوسی نہ لکھی ہو ۔ امیدوں کی یہ فصل اس بار اکارت نہ جائے۔ ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہوچھڑکا ہے پھول اگر اب کے بھی نہ کھلتے تو قیامت کرتے