انتظامی و سیاسی معاملات میں اپوزیشن کی بڑھتی ہوئی تنقید اور مشکلات پر وزیر اعظم نے اپنی ٹیم کو ثابت قدم رہنے کا کہا ہے۔ کراچی اور اسلام آباد میں مختلف تقریبات اور ملاقاتوں کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو عظیم ملک بنانا ان کا خواب ہے۔ انہوں نے کہا کہ مافیاز پیسہ بنانے کے لیے مہنگائی کرتے ہیں اور ان کی حکومت ایسے تمام افراد کو ایک ایک کر کے پکڑے گی۔ وزیر اعظم نے مسلسل مشکلات پر اراکین کابینہ کے اترے ہوئے چہروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اراکین کابینہ کو تاکید کرتے ہیں کہ برے وقت سے گھبرایا نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو ملک شدید اقتصادی بحران کا شکار تھا۔ مسلم لیگ ن کی سابق حکومت نے روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں جس طرح مصنوعی استحکام دیئے رکھا حکومت کے خاتمے کے بعد ڈالر کو پر لگ گئے اور نگران حکومت کی مختصر مدت میں ڈالر 124روپے تک پہنچ گیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے نہ صرف مشکل فیصلے کیے بلکہ وزیر اعظم عمران خان نے ذاتی حیثیت میں دوست ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ہنگامی دورے کیے۔ تحریک انصاف کی قومی مفاد میں دن رات کی سفارت کاری کا ہی ثمر تھا کہ سعودی عرب یو اے ای اور چین نے نہ صرف پاکستان کو بحران سے نکالنے کے لیے 17ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کی حامی بھری بلکہ سعودی عرب نے پاکستان کو موخر ادائیگیوں پر تیل بھی فراہم کیا۔ اسی طرح وزیر اعظم نے دنیا بھر سے بہترین افراد کو ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے پاکستان آنے پر آمادہ کیا۔ حکومت کو نا چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینا پڑا۔ وزیر اعظم کی اقتصادی ٹیم کی شب و روز محنت کا ہی ثمر ہے کہ ملک اقتصادی بحران سے نکل چکا ہے اور سٹاک مارکیٹ جو مسلم لیگ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد مسلسل زوال پذیر تھی اور 32ہزار کی نفسیاتی حد تک گر چکی تھی اب 42ہزار کا ہدف عبور کر چکی ہے۔ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں رواں برس واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ملک میں تجارتی سرگرمیاں کافی حد تک بحال ہو چکی ہیں، ملکی اور غیر ملکی ماہرین پاکستان میں معیشت کی بہتری کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ ملک میں اقتصادی ٹھہرائو کے بعد جب حکومت نے عوامی بہبود کے منصوبوں پر اپنی توجہ مرکوز کی اور عوام میں حکومت پر اعتماد بحال ہونا شروع ہوا تھا تو بدقسمتی سے یکایک حکومت کو مختلف مصنوعی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ کے پی کے اور صوبہ پنجاب میں حکومتی ارکان نے حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان کا اظہار شروع کر دیا تو نادہندہ مافیا نے آٹے کے شدید بحران کا تاثر ابھارنا شروع کر دیا حالانکہ زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔ اس سے مفر نہیں کہ عام مارکیٹ میں چند دن کے لیے آٹا حکومتی ریٹس پر 65سے 70روپے کر دیئے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کی طرف سے فراہم کیے گئے سستے آٹے کے ٹرکوں میں خریداروں کا رش بھی نہیں ہے بلکہ اکثر مقامات پر ٹرک دن بھر کھڑے رہتے ہیں اور شام کو نصف سے زاید واپس چلے جاتے ہیں بلاشبہ حکومت کو عام مارکیٹ میں بھی آٹے کی قیمت میں ستحکام کے لیے تمام تر ضروری اقدامات کرنا چاہیے اور مصنوعی بحران پیدا کرنے والے عناصر کا قلع قمع کرنا چاہیے مگر حکومت کے فوری اقدامات کے نتائج کی تحسین نہ کرنا بھی نا انصافی ہو گی۔ وزیر اعظم کا بحرانی کیفیت پیدا کرنے میں مافیاز کا ذکر کرنا اس لحاظ سے بھی نامناسب نہیں کیونکہ حکومت ابھی آٹے کے بحران سے مکمل طور پر نمٹنے میں جتی ہوئی ہے جبکہ کچھ عناصر کی طرف سے چینی کے بحران کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ قدرتی امر ہے اب جبکہ وزیر اعظم نے بحران پیدا کرنے والے مافیاز کے خلاف ایک ایک کر کے اقدامات کرنے کا عندیہ دیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت نہ صرف عوام میں مایوسی پھیلانے والے مافیاز کے لیے منصوبوں کی بروقت اور مؤثر اندز میں تکمیل کو بھی یقینی بنائے گی ایسا کرنے سے بھی حکومتی کوششوں کا ثمر عوام تک پہنچ سکتا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں کرپشن کو ادارہ جاتی حیثیت حاصل ہو چکی ہو، جہاں لوگ عوامی نمائندہ بننے کے بعد ریاستی وسائل کو ذاتی ملکیت تصور کرنے لگیں۔ جہاں اس شفق نما لکیر کا پتہ ہی نہ چلتا ہو جو جھوٹ اور سچ میں تمیز کے لیے بنائی گئی تھی اور جہاں قانون شکنی کو طاقت کی علامت سمجھا جانے لگا ہو وہاں سماج، سیاست، حکومت اور معیشت کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم نے اپنے رفقا کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا وہ نظام کی تبدیلی میں حائل رکاوٹوں کے اثرات ہیں۔ بہت سوں نے اصلاح کی کوشش کی۔ اصلاح کی کچھ کوششیں جزوی طور پر کامیاب ہوئیں لیکن پورے سماج اور ریاست کو عام آدمی کے لیے ہمدرد اور غم خوار بنانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ تحمل، حوصلہ اور ثابت قدمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مہنگائی، آٹا بحران، کرپٹ افراد کا قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور کئی بار حکومت کی بے بسی سنجیدہ مسائل ہیں لیکن قوم نے تحریک انصاف کو تبدیلی کا مینڈیٹ دیا ہے۔ تبدیلی کی نوعیت عوام کے لیے سہولت کا باعث ہوگی تو وزیر اعظم کی اعلیٰ ہمتی کو یاد رکھا جائے گا۔