آغاز معصوم خواہشات کے اظہار سے کرتے ہیں۔ دورہ سندھ کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے گھوٹکی کے جلسے میں عمران اسماعیل سے ’’تبدیلی آ گئی‘‘ کا گانا سننے کی فرمائش کی اور پھر خود ہی یہ کہہ کر انہوں نے اپنی معصوم خواہش کو کچل دیا کہ اب آپ گورنر سندھ ہیں اس لئے آپ کا گانا مناسب نہیں۔ دوسری معصوم خواہش کا اظہار دو روز پہلے وزیر خزانہ اسد عمر نے عوام کو طفل تسلی دیتے ہوئے کیا تھا کہ آپ گھبرائیں نہیں اور نہ ہی آنسو بہائیں تیل نکل آیا تو پھر ہر طرف بہاریں ہی بہاریں ہوں گی۔ جب میڈیا تھا نہ سوشل میڈیا تب حضرت عمرؓ بن خطاب خلیفہ ثانی راتوں کو اٹھ کر چپکے چپکے غریب عوام کا حال معلوم کرتے تھے اور مصیبت کے ماروں کی حاجت روائی اور دل جوئی کرتے تھے اور بڑی شدت سے خود احتسابی کرتے تھے۔ آج کے دور میں بھی بعض لوگ براہ راست دکھ درد کا مشاہدہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ خوش حال لوگوں کو معلوم ہو کہ بندہ مزدور و مجبور کس حال میں زندگی گزار رہا ہے۔ چند سال پیشتر جرمنی کا ایک امیر بزنس مین وزیر بنگلہ دیش کے دورے پر آیا اور اپنے ساتھ اپنی یونیورسٹی سٹوڈنٹ بیٹی کو بھی لایا۔ اس جرمن امیر زادی نے بنگلہ دیش کی خستہ حال خواتین اور بچوں کے ساتھ چند دن گزارے اور پھر بڑی دل دہلا دینے والی رپورٹ لکھی۔اگر وزیر اعظم عمران خان میڈیا اور سوشل میڈیا کی تنقید کو خاطر میں لانا پسند نہیں کرتے تو کم از کم وہ چاروں صوبوں میں غریبوں کی ہی بستیوں میں نہیں سفید پوشوں کی بستیوں میں دو دو دن گزاریں اور عوام سے ’’تبدیلی آ گئی‘‘ والا گانا براہ راست سنیں تو انہیں اندازہ ہو گا کہ غم کے ماروں کی پرسوز آواز میں ’’تبدیلی آ گئی‘‘ کے گانے کا اثر کچھ اور ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روز افزوں بے روزگاری کا براہ راست عمران خان کو مشاہدہ کرنا چاہیے۔ حکومت اصل مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اپنا سارا زور بیان نان ایشوز پر صرف کر رہی ہے۔ گھوٹکی میں وزیر اعظم عمران خان اور بعدازاں گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ’’بے نظیر انکم سپورٹ‘‘ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر پاکستان پیپلز پارٹی نے شدید ترین ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کیا انکم سپورٹ پروگرام کا نام ’’بے نظیر‘‘ کی بجائے ’’عمران خان‘‘ کر دیا جائے تو غربت کے ماروں کا کچھ مداوا ہو جائے گا۔ میرا قلم کہنے پر مجبور ہے کہ یہ بچگانہ باتیں ہیں۔ اسی طرح 18ویں آئینی ترمیم سے چھیڑ چھاڑ اور اس کے خلاف بیان بازی کی کیا ضرورت ہے۔ بلا شبہ 18ویں تریم میں شعبہ تعلیم اور قومی یکجہتی کے کچھ اور ادارے صوبائی حکومتوں کو دینا بالکل نامناسب تھا۔مگر اس کا حل افہام و تفہیم ہے بیان بازی نہیں۔ اس وقت حکومت کی اصل حریف اپوزیشن کی بجائے بگڑتی ہوئی معیشت ہے۔ جو کھلاڑیوں کی ٹیم کے اقتصادی اناڑیوں کے ہاتھوں بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت نے کچھ سوچے سمجھے بغیر اب پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 6روپے فی لٹر اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ اب صرف ٹرانسپورٹ کی ہی نہیں ضرورت کی ہر شے کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ اوپر سے رمضان المبارک اور گرمی دونوں ساتھ ساتھ آ رہے ہیں۔ جب سے یہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے اس روز سے صرف ایک شے میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے اور وہ مہنگائی ہے۔ سفید کاغذوں کا جو دستہ تبدیلی والی حکومت سے پہلے ساڑھے تین سو روپے کا دستیاب تھا وہ دو روزپہلے مجھے 6سو دس روپے میں ملا و علی ہذا القیاس۔ پٹرول ‘ گیس اور بجلی سے براہ راست ہماری صنعت کا بھی تعلق ہے۔ ایک طرف ان کی قیمتیں ہوش ربا ہوں گی اور بقول ’’سابقہ اسد عمر‘‘ سارے ایشیا میں سب سے زیادہ ہوں گی اور اس پر مستزاد ’’کرپشن‘‘ اور ٹیکس وصولی وغیرہ کے بارے میں دھمکیاں‘ چھاپے اور اب تو پنجاب کے خاموش وزیر اعلیٰ کے ترجمانوں کو بھی چھاپوں کی اجازت مرحمت ہو گئی ہے۔ ان حالات میں صنعت کار وطن عزیز میں کیوں ٹھہرے گا۔ بنگلہ دیش اور ملائیشیا وغیرہ کیوں نہیں جائے گا۔ اپوزیشن کے بعض سنجیدہ فکر لوگوں سے بات ہوتی ہے تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اس حکومت کو کسی سیاسی محاذ آرائی کے ذریعے گھر بھیجنے کی بجائے اس کی کشتی معاشی گرداب میں ڈوبے تو زیادہ بہتر ہے تاکہ عوام کو بھی اندازہ ہو۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں معیشت کی شرح نمو 6.2کی بجائے 3.5ہو گی۔ یکم جولائی سے 15مارچ تک 8مہینوں میں حکومت نے 33ہزار ارب روپے سٹیٹ بنک سے قرضہ لیا ہے۔ جو ملکی تاریخ میں اتنے عرصے سے لئے جانے والا سب سے بڑا ملکی قرضہ ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بنک نے زراعت کی کارکردگی کو بھی انتہائی ناقص قرار دیا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں پہلے ہی نصف سے زیادہ آبادی کے لئے ناقابل برداشت ہیں اوپر سے ان خدمات کی قیمتوں میں آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے مطابق حکومت مزید اضافہ کرنے کو تیارہے۔ پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ آبادی کی اکثریت کے لئے زندگی ایک ناقابل برداشت بوجھ بنا دے گا۔ عمران خان کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ عوام نے انہیں ایک باعزت زندگی اور خوش حالی کے لئے ووٹ دئیے تھے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈرا آرڈرن کی انسانیت نوازی کے تعریف کے لئے عمران خان نے اسے فون کیا اس موقع پر وہ ایک لمحے کے لئے سوچتے کہ سانحہ ساہیوال کے مظلومین اگر نیوزی لینڈ میں میں ہوتے تو کیا جیسنڈرا کا رویہ ان کے ساتھ وہی ہوتا جو خان صاحب نے اب تک بچ جانے والوں کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے۔ مہنگائی اور بیڈ گورننس کے علاوہ حکومت کو نیب اور خارجہ امور بالخصوص پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ چیئرمین نیب وفاقی و صوبائی سیکرٹریوں سے مل کر نیب کے انداز تفتیش کے بارے میں از قسم معذرت کر چکے ہیں کیونکہ بیورو کریسی بہت بددل ہو چکی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس موقع پر چیئرمین نیب اساتذہ کرام کو ہتھکڑیاں لگانے کے بارے میں بھی اوپن معذرت کرتے اور ڈاکٹر اکرم چودھری سمیت باقی ماندہ اساتذہ کی رہائی کا حکم دیتے۔ وزیر اعظم ادراک کر لیں کہ جو ’’تبدیلی آ گئی ہے‘‘ وہ عوام کے لئے بڑی ہولناک تبدیلی ہے۔ ان سارے مسائل کا حل کسی پروگرام کے نام کی تبدیلی یا 18ویں ترمیم پر تیر اندازی یا نیب کے ترجمانی اور دھمکیاں نہیں۔ صرف اور صرف ایک حل ہے کہ تمام معاملات کو پارلیمنٹ میں لایا جائے اور اپوزیشن کی شرکت و شمولیت کے ساتھ الجھی ڈور کو سلجھایا جائے۔