ان تمام دوستوں ،رفقاء اورشاگردوں کاتہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے میری والدہ محترمہ کے انتقال پرفون ،سوشل میڈیاویٹس ایپ ،فیس بک اورای میل کے ذریعہ تعزیت کی ۔یقینامیں دوہرے صدمے سے دوچارہوا،ایک یہ کہ والدہ انتقال کرگئیں اس پرمستزاد یہ کہ اپنی جنم بھومی سے کوسوں دورہونے کے باعث میں اپنی والدہ کاآخری دیدارکرسکا نہ انکے جنازے میں شریک ہوسکااورنہ ہی ان کے تابوت کوکندھادے سکا۔ اس عالم میں والدہ صاحبہ کی جدائی ایک ایسا زخم اور ایسا گھائو دے گیاجو تازیست سہلاناہے۔اگرچہ والد گرامی 28برس قبل اس دارفانی سے کوچ کر گئے ۔والدہ حیات تھیں اورانکی دعائوں کے صدقے سخت ودشوارترین اورکٹھن لمحات میں رب الکریم نے میری دستگیری فرمائی اورمشکلات رفع فرمائیں لیکن ماں کی جدائی سے محسوس ہواکہ آج میں یتیم ہوچکاہوں کیونکہ والدہ کی دعائوں کاسلسلہ اب منقطع ہوگیا۔ میری ماں نہ معلوم تیری لحدکی زیارت کرسکوں یانہ کرسکوں مگر تو ہمیشہ ایک خوشبو کی طرح میری یاد میں زندہ رہے گی ۔ تو اگر دنیا میں نہیں رہی لیکن ساتھ ہے میرے اپنی یادوں کے ساتھ اور وہی ہمارا کل سرمایہ ہے۔ ماں کا رشتہ ہی ایسا ہے جس میں سوائے محبت، احساس، درد، مددگار، خلوص، اپنائیت، جذبہ، قربانی، ایثار کے سوا کچھ نہیں۔ اسے اولاد سے کچھ ملے نہ ملے لیکن اس کے خلوص او ر محبت میں کوئی کمی نہیںآتی۔ لبوں پہ اس کے بدعا نہیں ہوتی بس اک ماں ہے جو کبھی خفا نہیں ہوتی دنیا میں کہیں بھی کوئی انسان کامیاب ہے تو اس کے پیچھے اس کی ماں ہی کا ہاتھ ہے ۔ اس کی ماں نے پال پوس کر اسے قابل بنایا اور اپنی ماں ہی کے طفیل آج وہ کامیاب ہے۔ماں کی دعاوں نے ہی اولاد کو بڑے سے بڑا ولی اور بادشاہ بنایا ہے۔ کتنی عظیم ہے ماں اور کتنی عظیم ترین ہوتی ہے ماں کی ممتاکہ خود رب کریم نے صفا اور مروہ کو ماں کی محبت اور ایثار کی علامت کے طور پر حج ایسی عبادت کاضروری رکن بنا دیا ۔ جب بھی ماں کا لفظ منہ سے نکلتا ہے ایسے لگتا ہے جیسے ساری دنیا کی محبت ہمارے آس پاس بکھر گئی ہو،جیسے کڑی دھوپ میں سایہ مل گیا ہو یا پھرکسی خطرناک سمندر کا ساحل مل گیا ہو ایسا لگتا ہے کے ہر مشکل سے آزادی مل گئی ہے یا پھر کسی نے ہماری مشکل اپنے سر لے لی ہو ایک ماں اپنی اولاد کے لیے اپنی آخری سانس تک قربانیاں دیتی ہے۔ ایک بچے کو اس دنیا میں لانا اور پھر اسے اس زمانے میں رہنے کی تہذیب سکھانا۔ اس کے لئے زمانے بھر کی تکلیفیں برداشت کرنا۔ اگر ہم ساری زندگی بھی اپنی ماں کی خدمت کرتے رہیں تو ہم اس کی ایک آہ کا بھی بدلہ نہ لوٹا سکیں گے۔ جو اس نے ہماری پیدائش کے وقت بھری تھی۔ ماں مثل ایک سائبان ہے جو زمانے کے گرم سورج کی تندوتیز شعاعیں اپنے سینہ میں جذب کرلیتا ہے اورسایہ میں بیٹھنے والوں کو احساس بھی نہیں ہونے دیتا کہ کتنی شعلہ بار کرنیں اس کے جگر میں پیوست ہوچکی ہیں اور وہ کتنی قیامت خیز تپش کو روکے ہوئے ہے ۔ ماں ہمیشہ بے مثل ہوتی ہے کیونکہ وہ بغیر کسی صلے کی پرواہ کئے اورواہ واہی کے ڈونگر ے بٹورے بغیر بچے کو خون ِ جگر پلاتی ہے۔ اپنے بچے کو آسائش کے لئے اپنی زندگی کے سکون وآرام کو خیر باد کہتی ہے۔ جس نے بچے کی گستاخی کو اس کے ناز شوخی کو اس کے حق اور ایذادہی کو اس کی ناسمجھی سے تعبیر کیا ہو وہی ماں کہلانے کے مستحق ہے۔ اسی لئے عقلاء زماں اورعلمائے دہرنے اپنی زندگی کوخدمت والدین کے لئے وقف کردیا۔ قرآن کریم والدین کے ساتھ احسان ونیکی اور ان کے حقوق کی رعایت پہ تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ترجمہ’’ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے کہ اس کی ماں مصائب برداشت کرتے ہوئے اسے پیٹ میں رکھا اور اس کے دودھ پینے کی مدت دو برس ہے کہ اے انسان تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کراور تم سب کومیری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے‘‘۔ایک اور مقام پہ قرآن فرماتا ہے۔ترجمہ!ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ،اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے پیدا کیا۔ ماں اس ہستی کا نام ہے جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ اپنی زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں، شادمانیوں میں صرف کرتی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہی رسم جاری رہے گا۔ ماں اپنی اولاد کوپالنے پوسنے اور اس کے لئے سرد کو گرم اور گرم کو سردکرنے میں جن مسائل کا سامنا کرتی ہے اس کااس کے سوا کس کو اندازہ نہیں ہوسکتا ہے اپنی اولاد کی سلامتی کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتیں ، راتوں کو اٹھ اٹھ کر ان کی عافیت اوران کی ترقی ،نیک اور صالح بننے کے لئے دعائیں مانگ مانگ کراپنے آنسوں اس قدربہاتی ہے کہ اس کا دامن بھیگ جاتا ہے ۔ والدہ کی عظمت اس سے بڑ کر کیا ہوسکتی ہے کہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ،عظیم والد ہ کے ہاتھوں ہوتی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ والدہ اپنی تربیت کے ذریعے سچائی اور نیکوکاری کاجو بیج اولاد کے دلوں میں بوتی ہے ،مستقبل میں وہ ایک پودے کی شکل میں ظاہر ہوکر ایساتناور درخت بنتا چلاجا تاہے کہ جس کی شاخوں کے نیچے لوگ پناہ لیکر آرام حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ موت مشیت ایزدی ہے اور اس کا احساس شدید و تلخ ہے۔ کسی کو اس سے مفر نہیں، اس لئے صبرکے سواکوئی چارہ نہیںہوتا۔اس ابدی حقیقت کے سامنے میں بے بس ہوں اور رب الکریم سے ملتجی ہوں کہ وہ میری والدہ ماجدہ کی مغفرت فرمائے اورانہیںجنت الفردوس میں مقام عطافرمائے۔ رب الکریم کو اصلاََانسان کی زندگی اس قدر محبوب ہے کہ اس نے زندگی کو مغلوب نہیں غالب بنایا ہے۔ انسان کوزندگی کے مقابلے میں موت اس لئے غالب نظر آتی ہے کہ اس کی ظاہر میں نگاہیں اصل حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں۔ موت تو ایک عارضی کیفیت کا نام ہے جس طرح انسان چندلمحات کے لئے سوجاتاہے لیکن جلدہی جاگ کر معاملات زندگی میںمحوہوجاتا ہے۔اسی طرح موت ایک عارضی کیفیت ہے یہ کیفیت ختم ہوجانے کے بعد ایک ایسی زندگی کا آغازہوجاتا ہے جس میںموت نام کی کوئی شئی سرے سے موجودہی نہیں۔اس لئے انسان کو اس لازوال اخروی حیات کی کامیابی کے لئے رب کے بتائے ہوئے کام رسول اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقے کے عین مطابق انجام دے کر رب کے سامنے سرخروہونے کی کوشش کرنی چاہئے ۔