یہ کرامت بھی صرف مولوی کے ہاں ہی ملتی ہے کہ چائے پیش کیجئے تو وہ جیب سے سکرین کی ڈبیا نکال لیتا ہے کہ ڈاکٹر نے چینی سے پرہیز کا کہا۔ اسی مولوی کے آگے حلوہ یا کوئی بھی میٹھی ڈش رکھدیجئے اور پھر دیکھئے تماشا۔ نتیجہ یہ کہ جلد اپنے ڈاکٹر سے رجوع فرماتے ہیں کہ شوگر تو نیچے آنے کا نام نہیں لے رہی۔ ڈاکٹر پوچھتا ہے"میٹھے سے پرہیز جاری ہے نا ؟"وہ فورا جیب میں ہاتھ ڈال کر سکرین والی ڈبیا نکال کر ثابت بھی کردیتے ہیں کہ جی ہاں پرہیز جاری ہے۔ دراصل مولوی یہ سمجھتا ہے کہ کمبخت چائے ہی وہ منحوس چیز ہے جس میں پڑنے کے بعد چینی زہر بن جاتی ہے ورنہ حلوے میں تو یہ تریاق کا کام دیتی ہے۔ایک مولوی صاحب کو ڈاکٹر نے وزن کم کرنے کے لئے واک اور ڈائٹ کا مشورہ دیا۔ ڈائٹ پلان بناتے وقت داکٹر نے پوچھا"آپ کی دن بھر کی ڈائٹ کیا ہے ؟""ڈائٹ کیا ہوتا ہے ڈاکٹر صاحب ؟""ڈائٹ کھانے کو کہتے ہیں"کردیا نا ڈاکٹر نے غلط لفظ استعمال ؟ اسے کھانے کے بجائے خوراک کہنا چاہئے تھا۔ اب نتیجہ دیکھتے جائیے۔ مولوی صاحب بولے"ناشتے میں پراٹھا، آملیٹ اور چائے لیتا ہوں۔ دن کے کھانے میں دو روٹیاں کھا لیتا ہوں اور رات کے کھانے کا کوئی لگا بندھا حساب نہیں ہوتا، نکاح پڑھانے چلا جاؤں تو وہاں کھا لیتا ہوں یا پھر دوستوں کے ساتھ دعوت وغیرہ میں شرکت ہوجاتی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں نہ ڈشیں طے شدہ ہوتی ہیں اور نہ ہی مقدار"ڈاکٹر نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈائٹ پلان ترتیب دیا اور مولوی صاحب سے قسم لے لی کہ آپ اس کی پابندی فرمائیں گے۔ مہینے بعد مولوی صاحب پھر اسی داکٹر کے سامنے بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر نے وزن کیا تو حسب سابق 120 کلو ہی نکلا۔ اس نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا"نہ آپ نے ڈائٹ کا خیال رکھا اور نہ ہی واک کی پابندی کی حالانکہ آپ نے حلفیہ بیان دیا تھا کہ پابندی فرمائیں گے" یہ سننا تھا کہ مولوی صاحب کی غیرت ایمانی پوری شدت کے ساتھ بیدار ہوگئی۔ یہاں یہ سمجھتے چلئے کہ چونکہ غصہ حرام ہے سو مولویوں نے غصے کا نام "غیرت ایمانی" رکھ کر اسے اپنے لئے حلال فرما لیا ہے۔ مولوی صاحب غیرت ایمانی سے بھرپور لہجے میں بولے… "انا للہ و انا الیہ راجعون ! آپ مولوی پر جھوٹ کا الزام لگا رہے ہیں لیکن آپ شاید جانتے نہیں کہ بعض اہل علم نے مولوی کی توہین کو کفر قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آپ مرتد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ میرے نزدیک تو مرتد ہو بھی چکے جو واجب القتل ہوتا ہے" یہ سنتے ہی ڈاکٹر کے تو ہوش پراں ہوگئے ! چند ہی لمحوں میں ممتاز قادری سمیت بہت سے مسلح چہرے اس کی نظروں کے سامنے سے آ آ کر گزر گئے۔ قبل اس کے کہ ان میں سے کوئی چہرہ اسے قتل کرتا جلدی سے انہی مولوی صاحب کے ہاتھ پر تجدید ایمان فرمائی اور بولے "حضرت ہمیں لگتا ہے شیطانی طاقتیں آپ کے وزن کی راہ میں حائل ہوگئی ہیں۔ ہمیں ایمان کی طاقت سے ان کا سدباب کرنا ہوگا" ڈاکٹر کی زبان سے ایسا خالص دینی بیانیہ سن کر مولوی صاحب سمجھ گئے کہ تجدید ایمان کی برکت سے ڈاکٹر کے سارے پچھلے گناہ دھل گئے جس کا نتیجہ اتنی پاکیزہ سوچ کی صورت ظاہر ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر نے مولوی کی آنکھوں سے غیرت ایمانی رخصت اور چہرے پر نورانیت پھیلتی دیکھی تو حوصلہ کر کے ایک بار پھر اصل موضوع پر آگئے اور دریافت فرمایا "ڈائٹ پلان پر پورا پورا عمل فرمایا آپ نے ؟" "جی بالکل ! کھانے میں وہی کھایا جو آپ نے لکھ کر دیا تھا" "واک بھی چلتی رہی ؟""جی ہاں ! پورے پانچ کلومیٹر !"'اچھا واک کا آپ کا کیا معمول ہوتا ہے ؟ وقت کیا ہوتا ہے ؟ رفتار کیا ہوتی ہے ؟ اور واک سے فارغ ہو کر کیا کرتے ہیں ؟ پانی کتنا لیتے ہیں ؟ فورا لیتے ہیں یا تھوڑی دیر ٹھر کر لیتے ہیں ؟""واک عصر اور مغرب کے مابین کرتا ہوں، ٹھیک رفتار سے کرتا ہوں، واک کے بعد پانی نہیں بلکہ ایک روزتین گلاب جامن اور دوسرے دن آلو والے دو سموسے لیتا ہوں !" یہ سنتے ہی ڈاکٹر کی چیخ نکل گئی اور وہ بے اختیار چلا کر بولے"کیا ! ! ! ! ! لیکن آپ نے تو کہا تھا کہ ڈائٹ پلان پر عمل ہوا ہے !""بخدا اس پر عمل ہوا ہے، حرام ہے جو کھانے میں اس کی ذرا بھی خلاف ورزی کی ہو !" "تو یہ تین گلاب جامن اور دو آلو والے سموسے کیا ہیں ؟""آپ نے "کھانے" کا کہا تھا نا ! تو کھانا تو میں آپ کے پلان کے مطابق کھاتا ہوں، یہ گلاب جامن اور سموسے تو تفکہ ہیں" جانتے ہیں یہ سانحہ کیوں رونما ہوا ؟ کیونکہ ڈاکٹر نے ڈائٹ کا ترجمہ خوراک کی بجائے کھانا کردیا تھا، وہی کھانا جو تین ٹائم کھایا جاتا ہے اور مولوی صاحب یہ سمجھے کہ وزن بس ان تین اوقات کی خوراک سے بڑھتا ہے۔ اگر وہ خوراک کہدیتا تو 24 گھنٹوں کا احاطہ ہوجاتا۔ مگر خیر یہ کم غنیمت ہے کہ ڈاکٹر قتل ہونے کے بجائے تجدید ایمان کی نعمت سے سرفراز ہوا !