شیخ رشید نے دو تین اہم خبریں بریک کی ہیں۔ فرمایا ہے کہ آصف زرداری کے ساتھی رقم واپس کرنے پر تیار ہو گئے ہیں اور اگر نواز شریف یا ان کے ساتھی بھی رقم دینے پر آمادہ ہو جائیں تو ان کی بات بھی بن سکتی ہے۔ ان کی بات بھی بن سکتی ہے۔ یعنی آصف زرداری کی بات بن گئی ہے یا بننے والی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ کیسی رقم ؟‘ کسی رقم کی واپسی کا وعد ہ نہیں کیا گیا۔ ویسے بات رقم واپس کئے بغیر بھی بن جایا کرتی ہے۔ جیسے کہ سنجرانی ماڈل کی تشکیل کے دوران زرداری صاحب کی بات اچھی خاصی’’ڈن‘‘ ہو گئی تھی۔ اسی بنا پر انہوں نے واشگاف انداز میں میاں نواز شریف کو مخاطب کیا تھا کہ میاں صاحب‘ میں آپ سے پنجاب کی حکمرانی بھی چھین لوں گا۔ پھر بعد میں نہ جانے کیا ہوا کہ بنی بنائی بگڑ گئی اور اب جیل میں ہیں۔ اس سابقہ ماجرے کا حوالہ دینے کا مطلب یہ ثابت کرنا ہے کہ بات بنانے کے لئے پیسے دینے ضروری نہیں۔ کچھ قومی مفاداتی سلسلے ہیں‘ سب کچھ انہی کے پس و پیش منظر میں ہوتاہے۔ ٭٭٭٭٭ شیخ جی مستند صادق و امین ہیں۔ صداقت و امانت کی سند جاری کرنے والی اتھارٹی نے بنفس نفیس ان کی انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا تھا۔ اس لئے ان کی بات کی تردید کرنا کاذب و خائن ہونے کی سند گلے میں باندھنے والی بات ہے۔ انہوں نے جو یہ فرمایا کہ نواز شریف بھی رقم دینے پر تیار ہو جائیں تو ان کی بگڑی بھی بن سکتی ہے‘البتہ محل نظر ہے۔ اس لئے کہ انہی کے پائے کے ایک اور صادق و امین جان اچکزئی چار پانچ روز پہلے اس انکشاف کا اعادہ کر چکے ہیں کہ نواز شریف بارہ ارب ڈالر واپس دینے پر تیار ہو چکے ہیں۔ ایک صادق و امین اینکر پرسن بھی اپنے پروگرام میں‘ کل پرسوں‘ یہ کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف ایک تگڑی رقم دینے کے لئے تیار ہو گئے‘ بس رقم ملنے ہی والی ہے۔ ان موخر الذکر صادق و امین حضرات کی بات اگر سچ ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ شیخ صاحب کی معلومات اپ ڈیٹ نہیں ہوئی ہے؟ ادھر اتنی بڑی ’’ڈویلپمنٹ‘‘ ہو گئی اور شیخ جی کو خبر ہی نہیں؟ ٭٭٭٭٭ بارہ ارب ڈالر یعنی پندرہ بیس کھرب روپے۔ بہت بڑی رقم ہے۔ یہ مل جائے تو آئی ایم ایف کا قرضہ اس کی بھیجی گئی دو جڑی بوٹیوں سمیت واپس کیا جا سکتا ہے لیکن اندر کی کہانی کچھ اور ہی ہے۔ جو شیخ صاحب کی کہانی سے میل کھاتی ہے نہ موخر الذکر دو صدقا و امنا حضرات کی خبر سے۔ گمان تو یہی کرنا چاہیے کہ اس اصل کہانی کا علم شیخ صاحب کو بھی ہو گا لیکن وہ بوجوہ نقلی مال کی نمائش کر رہے ہیں۔ جیسے ان کے محکمہ ریلوے کا خسارہ بڑھتا جا رہا ہے لیکن وہ ہر پریس کانفرنس میں بتاتے ہیں کہ گھاٹا اتنا کم ہو گیا۔ اور اصل کہانی یہ ہے کہ نواز شریف پر ان دنوں پھر ’’زور‘‘ دیا جا رہا ہے کہ وہ مان جائیں۔پہلے زور اس بات پر دیا جاتا تھا کہ صاحبزادی کے ہمراہ چار سال کے لئے باہر چلے جائیں ‘ باقی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس بار چار سال کی مدت میں بقدر نصف کے کمی کر دی گئی ہے۔ کچھ واقفان راز کا کہنا ہے کہ بات چلی تو اس تحفیف شدہ مدت پر بھی نظر ثانی ہو سکتی ہے یعنی مزید کمی کا امکان ہے۔ لیکن نواز شریف تب بھی انکاری تھے۔ اس بار بھی ہاں نہیں کہہ رہے۔ رقم کا اس کہانی میں ذکرکہاں ہے؟ شیخ صاحب کو زیادہ پتہ ہو گا۔ اب بیل کو منڈھے چڑھانا خاصی ٹیڑھی کھیر ہے۔ ٹیڑھے گھی سے بھی زیادہ ٹیڑھی ۔ انگلی سیدھی بھی کر دیکھی۔ الٹی بھی اور بات پھر بھی نہیں بن رہی۔ کیا فرمائیں گے اس بیچ میں شیخ جی ؟ سچ سچ بتائیے گا شیخ جی۔ آپ کو کرتار سنگھ راہداری کی قسم! ٭٭٭٭٭ شیخ جی نے مزید انکشاف کیا کہ مسلم لیگ ن کا ایک اور دھڑا بننے والا ہے جس کی قیادت چودھری نثار اور شہباز شریف میں سے کوئی ایک کرے گا۔ شہباز شریف کا نام تو انہوں نے تجسس کے لئے ڈال دیا ہے۔ ورنہ نام تو ایک ہی ہے۔ فرمایا ہے کہ چودھری نثار پنجاب میں سرگرم ہوں گے اور مسلم لیگ کا یہ موعودہ مولود دھڑا ان کی حمایت کرے گا اور معاملہ نومبر میں طے پا جائے گا۔ بات کھل کر نہیں کی لیکن پھر بھی کھل کر سامنے آ گئی۔ چودھری نثار مطلوبہ حمایت حاصل کر کے کس عہدے کے امید وار ہوں گے؟ ظاہر ہے ان کی نظر فیاض الحسن چوہان کی وزارت پر تو نہیں ہو گی!یعنی میاں بکر وال واپس چلے جائیں گے؟ ٭٭٭٭٭ مزید فرمایا‘ جب تک زندہ ہوں‘ سمجھوتہ اور تھر ایکسپریس بند رہے گی۔ ان ٹرینوں پر منشیات فروش سفر کرتے تھے۔ کرتار پور کھلا رہے گا۔ کراچی‘ حیدر آباد اور لاہور میں بالخصوص‘ ملک بھر میں بالعموم دسیوں لاکھ مسلمان گھرانے ایسے ہیں جن کے قریبی رشتہ دار بھارت میں ہیں اور بہت سے بھارتی مسلمانوں کے رشتے دار پاکستان میں ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس اور تھر ایکسپریس میں زیادہ تر انہی گھرانوں کے لوگ آتے جاتے ہیں۔ تھر ایکسپریس میں تھوڑی سی تعداد ہندو برادری کے لوگوں کی بھی سفر کرتی ہے۔ ان افراد کے بارے میںایسا ’’رحم دلانہ‘‘ اور منصفانہ تبصرہ شیخ صاحب ایسی ہستی ہی کر سکتی ہے۔ خدا انہیں اور کرتار پور والوں کو خوش رکھے۔ ٭٭٭٭٭ پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ سلیکٹیڈ حکومت 3ہزار ارب کا خسارہ کیسے پورا کرے گی؟ سخت ناانصافی کی بات ہے کہ سارے کام حکومت پر چھوڑ دیے جائیں۔ حکومت نے 3ہزار ارب کا خسارہ پیدا فرمایا اور تھک گئی‘ خسارہ پورا کرنے کا بوجھ کسی اور کو اٹھانا چاہیے۔