مولانا احمداللہ شاہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ(1787 - 1857ئ)’ شیرِ ہند‘ ٹیپو سلطان رحمۃ اللہ علیہ کی فکرو عمل کی بازگشت ہیں۔ ٹیپوسلطان کی شہادت 4مئی 1799ء کے وقت آپ کی عمر تقریباً 12سال تھی۔آپ چنیا پٹن تعلقہ پورناملی نزدمدراس ، جنوبی ہند کے نواب سیدمحمد علی کے بیٹے تھے ۔آپ کااصل نام ’سیداحمد علی‘،’ضیاء الدین‘ لقب جب کہ ’دلاور جنگ‘ خطاب تھا اورآپ کی مادری زبان اردو تھی۔آپ نے عربی ،فارسی اوربعدازاں انگریزی زبان سیکھی۔آپ خوب صورت اور خوب سیرت شخصیت کے مالک تھے ۔آپ نے عملی زندگی کا آغاز حیدرآباد دکن میں فوج کی ملازمت سے کیا۔آپ نے دوران ملازمت انگریزوں کو بہت قریب سے دیکھاجانااوربعض انگریز رفقا کی ترغیب سے برطانیہ کاسفرکیا،پھر مصرگئے ،حجازمقدس کی زیارت کی،حج کیا، بعدازاں ترکی،ایران اورافغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان لوٹے ۔ آپ نے یہ سیر وسیاحت اپنے دور جوانی میں کی۔القصہ آپ ایک جہاندیدہ اور باہمت شخصیت کے حامل تھے ۔گو کہ آپ کی پرورش اورتعلیم وتربیت نوابی یعنی امیرانہ ماحول میں ہوئی مگر آپ کی طبیعت میں بچپن سے ہی فقراورغناغالب تھی۔آپ کوتصوف سے خاص شغف تھا۔اسی روحانی جستجونے آپ کو سارے ہندوستان کی سیاحت کرائی۔ بیکانیر اورسانبھر میں 12سال ریاضت،مجاہدہ اور چلہ کشی کی۔آپ کی پہلی بیعت جے پورکی روحانی شخصیت میرقربان علی چشتی رحمہ اللہ کے دست مبارک پر ہوئی۔بعدازاں آپ گوالیارکے قادری بزرگ محراب شاہ قلندر گوالیاری رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضرہوئے اور بیعت کی۔اس طرح آپ کو بیک وقت چشتی اورقادری سلسلے سے خلافت کا اعزاز میسر تھا۔آپ سماع کے دلدادہ تھے ۔آپ کے شیخ کامل محراب شاہ قلندرگوالیاری رحمہ اللہ نے آپ کو غاصب انگریز کے خلاف جہاد کا حکم دیااور اس حوالے سے قوم کو ترغیب دلانے کا بھی فرمایا۔اس لئے آپ گوالیار سے دہلی آئے ،دہلی کے علماواولیا سے مصاحبت مشاورت رہی۔دہلی کے صدر الصدور مفتی صدرالدین آزردہ رحمہ اللہ نے 1846ء میں آپ کوجہادی جدوجہد کے لیے آگرہ بھیجاجہاں آپ نے ’مجلس علما‘ بنائی جنھوں نے جنگ آزادی 1757ء میں اہم کردار اداکیا۔آپ نے دہلی اورآگرہ کے بعد میرٹھ، پٹنہ،بِہار،کلکتہ وغیرہ کے بھی دورے کیے اور ان علاقوں میں عوامی جہادی مراکزقائم کیے ۔ان کی جہادی پالیسی کااہم نکتہ مزاحمتی جہادی یکجہتی تھاجوشیرِہندٹیپوسلطان کی ریاستی پالیسی کا مرکزی رہنمااصول تھا کہ غاصب انگریز کے خلاف مقامی وبین الاقوامی مزاحمتی محاذ بنایاجائے ۔مولانامدراسی نے ہندوستان کے اندرمزاحمتی جہاد کوعوامی تحریکِ آزادی میں بدل دیا۔سیدخورشیدمصطفی لکھتے ہیں: ’’تحریک 1857ء کے لیے پورے ملک کوتیارکرنے میں مولانااحمداللہ شاہ مدراسی کانام سرفہرست آتاہے ،وہ ملک کے گوشے گوشے میں دورے کرکے بغاوت کے لیے عوام کوآمادہ کررہے تھے ۔‘‘ انگریز مورخ میلیسن(Malleson) لکھتاہے :’’بے شک 1857ء کی(جنگ آزادی)تمام سازش کا راہنما، لیڈر مولوی احمداللہ شاہ مدراسی تھے اوریہ سازش تمام ہندوستان میں پھیلی ہوئی تھی میں سمجھتاہوں کہ یہی شخص بغاوت کی سازش کادماغ اوردست وبازوتھا۔اپنے سفرکے دوران اسی شخص نے وہ سکیم تیار کی جو’جیالی سکیم‘ کہلاتی ہے ۔‘‘(تاریخ جنگ آزادیِ ہند،ص205) جی۔ڈبلیوفاسٹر(ہسٹری آف انڈین میوٹنی)میں لکھتاہے :’’یہ بتانا ضروری ہے کہ’’مولانااحمداللہ شاہ مدراسی عالم باعمل ہونے کی وجہ سے مولوی،روحانی طاقت کی وجہ سے صوفی اور جنگی مہارت کی وجہ سے سپاہی اور سپہ سالار تھے ۔‘‘حقیقت یہ ہے مولانامدراسی غیرمعمولی آدمی تھے اور جنگ آزادی کی اہم ترین شخصیت تھے ۔ا ن کی فوجی حکمت عملی نے اس وقت کے موجودہ انگریز سپہ سالاروں کی تمام تدبیریں کئی بارناکام بنائیں۔اگر محب وطن کی تعریف یہ ہے کہ :’’وہ اس آزادی کے لیے جنگ کرتا ہے او رجال بچھاتاہے جس سے اسے بلا سبب محروم کردیا گیاہو۔‘‘تو اس تناظرمیں مولانامدراسی ایک سچے اور مخلص مومن تھے ۔آپ نے اپنی تلوار کو(میدان جنگ سے باہر)کسی کو دغابازی سے قتل کر کے رنگین نہیں کیااورنہ ہی کسی کوکسی مارنے یاہلاک کرنے میں حیلے بہانے سے کام لیا۔آپ نے کھلے میدان میں مردانگی کے ساتھ، صدق وصفا سے ایسے لوگوں کا مقابلہ کیا جنہوں نے ان کے وطن پر قبضہ کررکھا تھا ،دلیری اور سچائی کی قدر کرنے والے خواہ کسی بھی قوم کے ہوں ، ان کی یاد کو ہمیشہ عزیز رکھیں گے ‘‘ انگریز مؤرخ ہومز(Holms) کہتے ہیں کہ ’’ اگر چہ مولوی مدراسی ، حیدر علی اور شیوا جی کے ہم پایہ نہ تھے لیکن ہندوستانی غدر( آزادی) میں جو آدمی ہمارے خلاف لڑے ،ان میں وہ غالبًا سب سے بڑھ کر قابل اور یقینا سب سے زیادہ صاحب عزیمت تھے ‘‘ میک میوٹن نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ’’ برطانیہ کے اس سخت ترین دشمن کا غیر متوقع انجام سرکالن کیمیل کی ساری طاقتور فوج کے مقابلے میں ، پروپیگنڈا کے اندر اَمن قائم کرنے کے لیے زیادہ مؤثر ثابت ہوا ‘‘ (جنگ آزادی میں علماء وصوفیاء کا کردار، ص 175،176 ) جنگ آزادی 1857ء کے مخلص مجاہدین کی فہرست خاصی طویل ہے مگر اس تحریک کا نقص(Tragic Flow) یہ ہے کہ اس کی کوئی مرکزی قیادت تھی اور نہ ایک محاذِ جنگ۔یہ پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی مختلف ٹولیاں اور گروہ تھے جن کے اغراض ومقاصد مختلف اور بعض اوقات متصادم تھے ، جب کہ مخلص مجاہدین مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی ،مفتی آزردہ ، مولانا رضا علی خان بریلوی ،سید کفایت علی کافی، جنرل بخت خان ،خان بہادر خان ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ،مرزا مظہر جان جاناں ،امام بخش صہبائی وغیرہم کی خدمات تحریک پاکستان کی بنیاد بنی۔ شہنشاہ ِ ہند بہادر شاہ ظفر کو میرٹھ کے مجاہدین کو پناہ دینے کے الزام میں رنگون میں قید کیا گیااور ان کی اولاد کو شہید کردیا ،جھانسی کی رانی جنوری 1858ء تک انگریزوں سے اپنے لے پالک بیٹے کے لیے نوابی کی ناکام سعی کرتی رہیں ۔اودھ کی بیگم حضرت محل اپنے کم عمر اکلوتے بیٹے برجیس قدر کی نوابی کا پروانہ انگریزوں سے مانگتی رہیں ۔لکھنو کے واجد علی خان کو انگریز سرپرست سے سبکدوشی کا غم تھاوغیرہ وغیرہ دریں حالات مولانا احمداللہ شاہ مدراسی نے اپنے چند ہزار مخلص مجاہدین کی مدد سے غاصب انگریز کو بار بار جنگی ناکامی اور پریشانی میں ڈالے رکھا ۔مولانا مدراسی نے میرٹھ ، فیض آباد، اودھ ، لکھنو ، شاہجہان پور وغیرہ میں جنگی جوہر دکھائے ۔آپ نے لکھنو کی شیعہ برداری کے ساتھ تعاون اس بنیاد پر کیا کہ ’تبراگوئی‘ سے اجتناب کریں گے ۔مزاحمت کے دوران اودھ کی بیگم حضرت محل ،آپ کے درِ دولت پر پناہ گزین تھیں، آپ چہنٹ ،دلکشا،قیصر باغ ،عالم باغ ، سکندر باغ ، ریزیڈینسی وغیر ہ میں دادِ شجاعت دی ،لکھنو پر انگریزوں کے تسلط کے بعد آپ شاہجہان پور اور بعدازاں قصبہ محمدی میں مجاہدین کی سرکار سازی میں کامیاب ہوگئے ۔قصبہ محمدی میں قائم ہونے والی حکومت کے مولانا مدراسی امیر تھے ،جنرل بخت خان فوجی کمانڈراور نانا صاحب کو دیوان یعنی وزیر اعظم بنا یا گیا ۔ آپ نے محمدی حکومت کے تحت اردگردانگریزوں پرکامیاب حملے کیے ۔مگر آپ اپنوں کی نااہلی ، احمقانہ دراندازی ، انگریزون کی منظم فوجی سرگرمیوں ،مال وزر کے شوق ِ فضول،مخبری کے زرتعاون، بھوک ، غربت ، بیروزگاری سے تنگ عوام کے فکر وعمل سے خاصے نالاں تھے ۔آپ نے قصبہ محمدی سے شاہجہاں پور جاتے وقت ایک درویش الف شاہ سے شہادت کی خواہش کا اظہار کیا ۔انگریزوں نے آ پ کے سر کی قیمت 50 ہزار مقرر کررکھی تھی ۔ آپ کے ایک مرید فتح محمد تائب ؔ نے آپ کے کارناموں کو مثنوی ’ تواریخ احمدی‘ میں محفوظ کیا ۔ضلع شاہ جہان پور کے پوائین کے راجہ جگن ناتھ نے آپ کو تعاون کی پیشکش کی اورپوائین آنے کی دعوت دی۔پوائین،اودھ اوربندھیل کھنڈکی سرحد پر واقع ہے ۔جب مولانامدراسی پوائین پہنچے تو راجہ مگن ناتھ نے حویلی کا دروازہ بند کردیا اور اندر سے گولی چلا کر آپ کو شہید کردیا ۔آپ کے دست ِ راست شفیع اللہ خان رئیس نجیب آباد بھی موقع پر شہید ہوگئے ۔جگن ناتھ کے بھائی بلدیو سنگھ نے آپ کا سرقلم کرکے انگریزمجسٹریٹ کو پیش کیا اور 50ہزار کی رقم زرِ تعاون پائی ۔ آپ کے جسد خاکی کا مثلہ کرکے جلا دیا گیا اور بعدازاں موضع جہاں گنج کی ایک جھوٹی سی مسجد کے قریب ان کے سر کی تدفین کی گئی ۔مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی نے تاحیات انگریزوں کی خلاف مزاحمت کی اور ان کو بار بار ناکام کیا ۔1857ء کی جنگ آزادی وسائل کی کمی مگر حوصلوں کی زیادتی سے لڑی گئی بقول علامہ اقبال ’ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ‘ شاعر نے بجا فرمایا خدا رحمت کند ایں عاشقان ِ پاک طینت را