’’ ناسٹیلجیا ‘‘ ۔ ایک تصویر،جزئیات سمیٹے ہوئے ایک بڑی تصویر ۔ اس تصویر کے ایک گوشے میں، مَیں کھڑا ہوں اور ایک شفیق باپ کو اپنے پیارے بیٹے کو پیار کرتے دیکھتا ہوں۔یہ وہ محلہ وہ گلی ہے جس میں سلمان باسط کے والد اپنے کنبے کے ساتھ رہتے ہیں۔ مگر ٹھہرئیے۔یہ تو وہ گلی بھی ہے جس میں میرے والد اپنے گھرانے کے ساتھ رہتے ہیں۔ایونگ روڈ،نیلا گنبد لاہور کی مسجد والی گلی ۔یہ محلہ جہاں ہم سلمان کو چلتے پھرتے اور اپنے گھر میں گھومتے دیکھتے ہیں، یہاں تو ہم سب بھی چلتے پھرتے اور اپنے گھروں میں پھرتے ہیں ۔یہ ہمارا محلہ بھی تو ہے۔ معلوم نہیں یہ کیسے ہوا کہ جہازی سائز کا وہ بڑا سا ریڈیو جس کے چہرے پر پیلے سے رنگ کی جالی اور جالی کے دونوں طرف کانوں کی طرح کے دو لٹو تھے جنہیں گھما کر سوئی چلتی دیکھی جاسکتی تھی یا آواز کم اور زیادہ ہوتی محسوس کی جاسکتی تھی اور جس کے سامنے کی طرف نچلے حصے پر ہاتھی دانت کی طرح پلاسٹک کے چھ سات بٹن تھے ،جنہیں دبا کر آپ میڈیم ویو اور شارٹ ویو کی لہروں پر چھلانگ لگا کر سوار ہوجاتے تھے،اور جسے زیادہ جاننے کی کوشش کرنے پر مجھے ایسا زوردار کرنٹ پڑتا تھا کہ بس۔اور جس کے اوپر سفید جالی کا ،یا کروشیے کا رومال امی نے ڈال رکھا تھا۔معلوم نہیں کہ وہ جہازی ریڈیو کون اٹھا کرسلمان کے گھر میں ڈال آتا تھا۔لیکن چونکہ سلمان بھی ایسے ہی ریڈیو کا ذکر کرتے ہیں تو یقیناً میری بے خبری میں کوئی اٹھا کر وہاں لے جاتا ہوگا۔یہ ریڈیو نہیں توسنِ تخیل تھا۔اسی ریڈیو کے سامنے بیٹھ کر ریڈیو سیلون،ریڈیو پاکستان ،بناکا گیت مالا،چوٹی کے گیت ،آل انڈیا ریڈیو، جشن تمثیل ،وہ ڈرامے جو اس وقت کچھ بھی سمجھ نہ آتے تھے لیکن سنتے اور بڑے بہن بھائیوں سے انہیں سمجھتے تھے۔سب کچھ اسی توسنِ تخیل پر ۔تو ان دیکھی بستیوں کی سیر کرانے کے لیے جو کام تخت ِسلیمانی کرتا تھا اسی طرح کا کام اب’’ کلک ِسلمانی ‘‘ نے بھی کیا ہے۔ ہر سرگزشت شاید ٹائم مشین کی طرح ہوتی ہے۔ ماضی اور حال کے درمیان سفر کرواتے ہوئے ۔ کبھی کبھی مستقبل بینی کا بھی کام کرتے ہوئے ۔ کوئی پراسرار سی وجہ ہے کہ یاد داشتیں اور آپ بیتیاں لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ۔کتنی ہی آپ بیتیاں ایسی ہیں جو عمر بھرمیرے ساتھ رہی ہیں۔ غبارِ خاطر‘ نقش حیات‘ جہان ِدانش‘تذکرۂ غوثیہ‘ یاران ِکہن، سرگزشت‘ بوئے گل نالۂ دل‘ زرگزشت‘ مولانا زکریا کی آپ بیتی‘ اپنا گریباں چاک‘ ذکرِ یار چلے‘ لوح ِایام‘ کاروانِ زندگی‘ طوفان سے ساحل تک‘ شہاب نامہ‘ مولانا دریا بادی کی ’’آپ بیتی‘‘ سمیت بے شمار دریا ہیں جن کا پانی اپنا اپنا ذائقہ رکھتا ہے ۔پھر قرۃ العین حیدر نے تو خیر اپنے بے مثال اسلوب میں ’ ’ کار جہاں دراز ہے ‘ ‘ کے نام سے شجرۂ نسب ہی محفوظ کردیا ۔ پھرنقوش نے ’ ’ آپ بیتی‘ ‘ نمبر شائع کرکے گویاایک خزانہ یکجا کردیا۔تازہ ترین آپ بیتی میرے عم مکرم مولانا تقی عثمانی صاحب کی ’ ’ یادیں ‘ ‘ ہیںجس کی ہر قسط کا مجھے انتظار لگتا ہے اور جس کی کمال حلاوت ہے ۔ یہ تحریریں ان نامور لوگوں کی ہیںجن سے میںنے حروف بنانے سیکھے ہیں۔ لیکن اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو سلمان باسط کی ’ ’ ناستٹیلجیا‘ ‘ شاید میرے ہم عمروں اور دوستوں میں پہلی آپ بیتی ہے ۔ اسی لیے اس کی انفرادی حیثیت بالکل الگ سی ہے ۔یاد ِ ماضی اگر اپنے ساتھ ایک ہی زقند میں قاری کو اسی ماحول، اسی زمانے میں نہ لے جا سکے تو پھر گویااس نے اپنا مقصد پورا نہیں کیا۔سلمان کی یہ تحریر ابتدا ہی سے قاری کو مصنف کے ساتھ لا کھڑا کرتی ہے۔ اس تحریر کا ایک فطری بہاؤ ہے ۔اس طرح کہ میدانوں میں کھیلتے بچوں کی اڑائی ہوئی دھول اپنے چہرے پر پڑتی اور گرمی کی تندی اور تیزی اپنے بدن کو جھلستی محسوس ہونے لگتی ہے۔اور ایک فطری بہاؤ پورے عہد کا ہے۔وہ عہد جو بہت دور کا نہیں لیکن پھر بھی بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ جہاں سادگی،خلوص،محبت اور روایات کی پاسداری کے عناصر اربعہ سے زمین و آسمان بنے ہیں ۔شہری ،قصباتی دیہاتی زندگیاں اس تحریر میں اس طرح الجھی ہوئی ہیں جیسے رنگارنگ دھاریاں بل کھا کر بیلوں کی طرح آپس میں لپٹ جائیں۔استاد،طالب علم ، ہمسائے، ہم عمر،مرد ،عورتیں، بچے، پالتو مویشی اور جانور سب اس تحریر میں ایک رہائشی کالونی کی طرح مقیم ہیں۔وقت یہاں منجمد ہوگیا ہے اور اس کے نقشِ پا بھی اسی کالونی میں مقیم ہوچکے ہیں۔اس آپ بیتی سے یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ اس زمانے میں سلمان اچھے بچے تھے ۔ ساری کسریں بڑے ہوکر نکالی گئی ہیں بعض اوقات تو سلمان نے کردار دھول سے اٹھائے ہیں اور پھول بنادیے ہیں۔سلمان کی والدہ کا کردار ایک علیحدہ کشش احترام اور تقدس بھرا پیکر ہے جوسلمان کی کردار سازی میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے اور سلمان کو یہ فیض ساری عمر پہنچتا رہے گا۔سلمان کی والدہ کے ذکر سے یہ خیال آتا ہے کہ یہ جو سلمان کے درو دیوار ہمیشہ صاف ستھرے نظر آتے ہیں،یہ جو اس کے برتن جگمگ کرتے قلعی کیے ہوئے نظر آتے ہیں ،یہ جو اس کو اپنے سچے عقیدے سے عقیدت ہے اور اس پر بھرپور اعتماد ہے،یہ جو اس کی روشنائی سے روشنی پھوٹتی ہے تو یہ سب اسی لیے کہ کتنے رنگریزوں، کتنے قلعی گروں، کتنے معلموں ،کتنے خوشنویسوں نے سلمان پر محنت کی ہے ۔ یہ آپ بیتی قلم کی ایسی رو سے تخلیق ہوئی ہے جوسلمان کی اپنی قلمرو ہے ۔قلم کی بوقلمونی بھی عجیب ہوتی ہے ۔لفظ سب کچھ سچ سچ بتا دیتے ہیں۔کون سی بات دل سے نکلی ہے اور کون سی زبان یا قلم سے اور لفظ ایسے بے مروت اور بے لحاظ دوست ہیں کہ سب بتا دیتے ہیں ،اور وہ ایسا نہ کیا کریں تو ان کی دوستی اور سچائی سے ایمان ہی اٹھ جائے ۔ سلمان نے کیفیات جابجا رقم کی ہیں ۔ گرم دوپہروں کی پراسراریت عجیب ہوتی ہے ۔بچپن اور لڑکپن کی بہت سی یادیں انہی دوپہروں سے وابستہ ہوتی ہیں۔شاید آپ اتفاق کریں گے کہ یادیں پرانے کپڑوں کی گھٹڑی کی طرح ہوتی ہیں۔ایک بار کھل جائے تو باندھنا مشکل ہوجاتا ہے،کیوں کہ ہر پرانے لباس کے ساتھ گزرا ہوا وقت تقاضا کرتا ہے کہ دوبارہ اس کے ساتھ وقت گزارا جائے۔ اپنے اس ماضی کی طرف مڑ کر دیکھنا جو اب نیلگوں دھند کے اس پار ہے، جہاں مٹی صندلی ہے اور در و دیوار حنائی۔جہاں کم وسائل والا متوسط طبقہ نہایت مالدار ہے۔اس کے پاس وہ اثاثے ہیں جنہیں تجوریوں کی احتیاج نہیں اورجہاں لکڑی کے شہتیروں والی چھت اور ادھڑتے سیمنٹ کے فرش والا کرائے کا گھر ان کے ثروت مند ہونے پر مہریں ثبت کرتا ہے۔ اس نواب گھرانے کے پاس علم و دانش کی طلائی اینٹیں اور قناعت اور سکون کی منقش صندوقچیاں ہیں اور وہ جہاں منتقل ہوتا ہے، یہ دولت اڑے رنگوں کے ٹین کے بکسوں میں بند کرکے لے جاتا ہے۔ سلمان باسط جس عہد اور جس طبقے کی نمائندگی کرتا ہے اس کے خد وخال دھندلانے لگے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان نقش و نگار پر سنہرا قلم پھیر کر اسے جلا دی جائے۔ سلمان باسط نے یہ کام کیا ہے۔ اس کے رنگ اس کے نقش و نگار نہ صرف اس کے اندرمحفوظ ہیں بلکہ اس نے کاغذ پر بھی یہ گیلے رنگ بکھیر دئیے ہیں ۔ ہاتھ لگائیں تو ہاتھ رنگین ہوجاتا ہے ۔میں انہی روشن ،چپکتے اور گیلے رنگوں میں رنگا ہوا ہوں،آگے بڑھیے کہ یہ گلال آپ کے لیے بھی ہے ۔