ایک طالب علم کو جب کبھی مضمون لکھنے کو کہا جاتا وہ اس میں اونٹ کا ذکر گھسیڑ دیتا۔ استاد نے کہا ’’میرا بہترین دوست‘‘ پر لکھو طالب علم نے مضمون یوں شروع کیا!اسلم میرا عزیز ترین دوست ہے۔ اس کے پاس کئی جانور ہیں۔ وہ سب سے زیادہ اپنے اونٹ سے پیار کرتا ہے‘ اونٹ صحرا کا جہاز ہے‘ اونٹ کی گردن لمبی ہوتی ہے…… استاد نے کہا کہ ’’میرا سکول‘‘ پر مضمون لکھو ۔طالب علم نے یوں آغاز کیا! میرا سکول بہت کشادہ ہے۔ اس کی دیواریں اونچی ہیں مگر پاس سے گزرنے والے اونٹ اندر سے دکھائی دیتے ہیں۔ اونٹ صحرا کا جہاز ہے۔ اونٹ کی گردن لمبی ہوتی ہے… وغیرہ وغیرہ۔ استاد اسے ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گیا اور مسئلہ اونٹ پیش کیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب جدید تعلیم سے آراستہ تھے۔ انہوں نے غور سے معاملہ سنا اور پھر بچے کو کمپیوٹر پر مضمون لکھنے کو کہا۔ طالب علم نے قلم پکڑا اور لکھا! کمپیوٹر ڈیٹا ٹرانسفر کی مشین ہے۔ اس کی مدد سے ہم جان سکتے ہیں کہ پاکستان میں کتنے اونٹ ہیں۔ اونٹ صحرا کا جہاز ہے۔ اونٹ کی گردن لمبی ہوتی ہے… کچھ ایسا حال ان دنوں ہمارا ہے۔ لکھنا چاہتے ہیں کہ شعرو شاعری وقت کا ضیاع نہیں۔ اپنے کچھ اشعار سنانا چاہتا ہوں۔ سردی کے موسم میں آگ تاپتے ہوئے جو سلگتے مصرعے دماغ پر دستک دیتے ہیں وہ لکھنا چاہتا ہوں مگر… ذہن بھٹک کر سیاست کی طرف آ جاتا ہے اور میں اس کی لمبی گردن کی گردان میں پھنس جاتا ہوں۔ میں حکومت کی پالیسیوں کا تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔ بتانا چاہتا ہوں کہ اسے ذرائع ابلاغ کو صرف چند ادارے نہیں سمجھنا چاہیے یہ ایک مشین ہے جسے میڈیا کا نام دیا گیا ہے۔ اس مشین کے ساتھ تعلق کو متوازن ہونا چاہیے مگر دماغ ساہیوال پہنچ جاتا ہے۔ آخر اونٹ پر لکھنے کا ارادہ باندھ لیا۔ جنگل‘ درخت‘ پھول اور فطرت پر۔ گزشتہ دس روز کے دوران دوبار کوہاٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک وسیع رقبے پر درخت‘ پھلوں کے باغات اور تفریحی پارک کا منصوبہ زیر عمل ہے۔ میں اس منصوبے کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ منسلک ہوں۔ اخبار سے چھٹی والے دن سے پہلے رات بھر سفر‘سارا دن کوہاٹ میں میٹنگز اور سروے‘ شام کو لاہور روانگی ‘ رات پھر سفر میں اور اگلے دن نائنٹی ٹو نیوز میں حاضری۔ ہمیں پچاس ایکڑ کے رقبے پر کام کرنا ہے۔ جنگل کی صورت پھیلے ہزاروں درخت پہلے سے موجود ہیں۔ مزید ہزاروں لگیں گے ترتیب کے ساتھ۔ میں نے املتاس‘ چیل‘ گل مہر‘ اشوک ‘ پام‘ سرو‘ وِلو اور زیتون کا انتخاب کیا ہے۔ منصوبے کی مدت تکمیل کا تعین ہو گیا ہے۔ انشاء اللہ تین ماہ میں سارا کام ہو جائے گا۔ کنو‘ انجیر ‘لیچی اور امرود کے کچھ باغات لگائے جائیں گے۔ مسلسل کام کے باوجود تھکن نہیں ہوتی کیونکہ دل کو اطمینان ہے کہ رزق حلال کما رہا ہوں‘ اللہ کی زمین کو خوبصورت بنانے کی کوشش کر رہا ہوں اور پرندوں کے لئے محفوظ مسکن بن رہے ہیں۔ کوہاٹ چھوٹا سا شہر ہے جو ایک پٹی کی شکل میں شمالاً جنوباً پھیلا ہوا ہے۔ شہر کو بلند پہاڑیوں نے تین اطراف سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ زمین کہیں پتھریلی اور کہیں مٹی سے بھر پور ہے۔ کاشت کاری کے لئے ماحول انتہائی سازگار ہے۔ پنجاب کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں جانے کا اکثر اتفاق ہوتا ہے۔ یہاں سڑکوں پر کوڑا کرکٹ عام نظر آتا ہے۔ سڑک پر ریڑھیوں اور تجاوزات کی بھر مار ہوتی ہے۔ کوہاٹ میں سڑکیں اور گلیاں نسبتاً صاف دکھائی دیں۔ شہر کے لوگ پنجابی‘ پشتو اور ہند کو سمجھ سکتے ہیں۔ ابھی مجھے یہاں کے ادیبوں‘ شاعروں اور صحافیوں سے ملنا ہے پھر یہاں کی لسانی نفسیات پر لکھوں گا۔ کوہاٹ شہر سے ایک رستہ قبائلی اضلاع کی طرف جاتا ہے۔ دوسرا بنوں کو چلا جاتا ہے۔ دہشت گردی نے اس علاقے کو خاصا متاثر کیا تھا۔ شہر کی تفریح گاہیں اجڑ چکی تھیں۔ کئی عمارتوں پر دہشت گردوں کے حملے ہوئے ایک جگہ دہشت گردوں کی فائرنگ کے نشان اب تک موجود ہیں۔ پاک فوج نے یہاں موثر کارروائیاں کیں۔ دہشت گردوں کا خاتمہ کیا‘ شہریوں کو تحفظ کا احساس دیا۔ اس وجہ سے شہر اب زندگی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ یہ ہرقسم کی تجارت اور کاروبار کے لئے موزوں ہے۔ کوہاٹ کا امرود ہمارے شرقپور اور مانانوالہ کے امرود کی طرح مشہور ہے۔ خمیرے آٹے کے تہہ دار پراٹھے چائے کے ساتھ کھائیں۔ مقامی قہوہ گڑ کی ڈلی کے ساتھ دستیاب ہو گا، گڑ منہ میں رکھیے اور قہوے کی ننھی منی سی پیالی سے چسکی لیں۔ کوہاٹ کا موسم برفباری والا نہیں البتہ صبح اور رات کے وقت سرد ہوا ہڈیوں تک وار کرتی ہے۔ گرمیوں میں درجہ حرارت راولپنڈی جیسا ہوتا ہے۔ ایسے شہر کو درختوں‘ پھولوں اور پھلوں سے مزید سجانے کی بہت گنجائش ہے۔ یہاں ابھی کونوکار پس جیسے پانی دشمن پودے نہیں پہنچے۔ مقامی سطح پر پانی کی ضروریات محدود ہیں۔ اسی لئے 65سے 80فٹ تک بہترین پانی دستیاب ہے۔ ہمارے واٹر ایکسپرٹ راشد زیدی کا کہنا ہے کہ یہاں زمین سے نکالا گیا پانی بازار میں فروخت ہونے والے منرل واٹر سے زیادہ بہتر معیار کا ہے۔ اب بتائیے حکومتی اتحادیوں کے شکوے شکایات کی وجوہات کو تلاش کرنے سے یہ بہتر نہیں کہ پاکستان کو سرسبز اور خوبصورت بنانے والے کچھ عملی منصوبوں کی بات کر لی جائے۔ جھگڑوں‘ سیاسی تلخیوں بلیک میلنگ کلچر اور آلودگی سے دور پرواز کرتا نیل کنٹھ دیکھ کر بھلا کوئی سڑاند دیتے موضوعات پر لکھنا چاہے گا؟ نقطے بے خود دھمال ڈالیں تو لفظ، تحریر کیسے باندھے گی تم کو دیکھے گا‘ خوب دھڑکے گا دل کو دلگیرکیسے باندھے گی