کاش !حکیم الامت حضرت علامہ اقبال آج زندہ ہوتے کشمیریوں کاعزم آزادی اوربیش بہاقربانیوں سے عبارت انکی عظیم ترین جدوجہدکودیکھتے توکوئی شک نہیں کہ پکاراٹھتے کہ میری اس قوم میں حصول آزادی کے لئے بہ کمال وتمام اور بدرجہ اتمام وہ سب خصائل موجودہیں جوایک بہادراوردلیرقوم میں موجزن ہوتے ہیں،وہ کشمیرکے بوڑھے ،ضعیف القویٰ اورخمیدہ کمر والدین کے کندھوں پرانکے جوان بیٹوں کی لاشیں دیکھ کرانکی ہمت کو داددیئے بغیر نہیں رہتے۔وہ ان کشمیری مائوں کودیکھ کرحضرت اسماء اورحضرت خنساکویادکرتے کہ جواپنے جوان بیٹوں کی لاشوں پردولہے کی طرح پھول ،مٹھائیاں اوربادام نچھاورکرتی ہیں۔حضرت علامہ وادی کشمیر میں تاحدنظرپھیلے مزارات شہداء دیکھ کربول پڑتے کہ قوم کاشمیرکوآزادی کے حصول سے اب کوئی روک نہیں سکتا۔ پورے برصغیرکی طرح مقبوضہ جموںوکشمیرمیں بھی 21اپریل ہفتے کوحکیم الامت حضرت علامہ اقبال کایوم وصال نہایت ہی عقیدت اوراحترام سے منایاگیا۔اس سلسلے میں سب سے بڑی تقریب کشمیریونیورسٹی سری نگرمنعقدہوئی جس میں علامہ کی عبقری شخصیت پرمقالے پڑھے گئے اورشاعر مشرق کوشاندارالفاظ میں خراج عقیدت پیش کیاگیا۔ علامہ اقبال نے جن حالات میں آنکھ کھولی میں مسلمانان ہند غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور انہوں نے اس غلامی کو اپنا مقدر سمجھ لیا تھا۔ اس غلام قوم کے ہاں جنم لینے والے اس صاحب بصیرت شاعر نے اپنی قوم کے قابل رحم حال کو دیکھ کر اس کو بدلنے کی تمنا کی اور اپنی شاعری، فلسفیانہ افکار، تحریروں اور خطبات کے ذریعے اسے نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر کی تلقین فرمائی۔ علامہ نے غلامی کو مقدر ماننے کی بجائے آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کا درس دیا۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو بالواسطہ طور پر اقبال کی تمام شاعری اور افکار آج کے کشمیر کے لیے تازہ محسوس ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اقبال نے تمام کلام کشمیر میں موجود آج کے حالات کو مد نظر رکھ کر لکھا ہے۔ اقبال کو سر زمین کشمیر سے جو نسبت اور کشمیر کی تحریک آزادی سے جو قربت رہی ہے اس کے پیش نظرکشمیریوں کی بے بسی اقبال کی زندگی، شخصیت، اور شاعری کے مختلف گوشوں پر حاوی رہی ہے۔اقبال نے نظم ’’گل خیابان جنت کشمیر‘‘لکھ کر اپنے کشمیری نثراد ہونے پر فخر کیا ہے ۔اقبال نے آزادی کے دروس میںمسلمانان برصغیرکے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسلمانوں کو بھی بالخصوص مخاطبِ کلام بنایا۔ ارمغان حجاز میں ملا زادہ ضیغم لولا بی کشمیری کا بیاض کے عنوان کے تحت کشمیر اور اہل کشمیر کے حوالے سے انیس نظمیں تحریر کیں۔ ان نظموں کی پہلی نظم میں وادی کشمیر کو وادی لولاب کہا ۔ مرغان سحرتیری فضائوںمیں ہیں بے تاب گرصاحب ہنگامہ نہ ہومنبر ومحراب دین بندہ مومن کاموت ہے یاخواب اے وادی لولاب! کشمیر کے ساتھ اقبال کی وابستگی خاندان کے حوالے سے بھی ہے۔ علامہ کے آبائوو اجداد کا تعلق کشمیر سے ہی ہے۔ اہل کشمیر کے دلوں میں اقبال کے لئے جو عقیدت اور محبت کا جذبہ موجود ہے، اس کا اظہار لفظوں میں ممکن نہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر اقبال اہل کشمیر کے لئے ایک موضوع نہیں بلکہ کشمیر کی روح کا حصہ ہے ۔ تعلیمی اداروں کی بات کرلیں توہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اقبال کے نام پر درجنوں تعلیمی ادارے اور لائبریاں ہیں ۔صحیح معنوں میں بولا جائے تو اہل کشمیر کے لئے ذکر اقبال ذکر محبوب کی حیثیت رکھتا ہے۔علامہ اقبال کشمیر کی عظمت کوبیان اور قوم کاشمیر کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ قوم زیرک اور تیز بیں، خوش شکل ہے ان کی ہنر مندی دنیا کے لیے مثال ہے۔ یہ لوگ محنتی ہیں اور ان کے ہاتھ مزدوری کرنے والے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ لوگ صف شکن، جنگجو، جانباز اور حوصلہ مند رہے ہیں۔ آج وہ کشمیری غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جو اپنی نفاست، ذہانت، دانشمندی اور تہذیب و شائستگی کے لحاظ سے ایرانیوں کے ہم پلہ ہیں۔اقبال کشمیری قوم کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد خطہ کشمیر کی خوبصورتی کا تذکرہ کرتا ہے۔ کشمیر کا چمن جو مجھے دل پذیر ہے اور جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے۔ پھر اس جنت کی خوبصورتی کا ذکر مختلف استعاروں میں کرتے ہیں۔ کبھی گل لالہ کو لالہ آتشیں پیرہن کہتے ہیں تو کبھی آتش چنار۔ کبھی وادی کشمیر میں پھولوں کے کھلنے کو کتب خانہ گل کے کھلنے سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ کبھی کشمیر کو ایران صغیر کہتے ہیں تو کبھی جنت نظیر کے الفاظ میں اس کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ کشمیر کے برف پوش پہاڑ اور آتشیں دست چنار کو دیکھ۔ یہ خطہ موسم بہار میں پتھروں سے لعل رنگ پھول اگاتا ہے اور اس کی خاک سے ایک طوفان رنگ اٹھتا ہے۔ اس کے پہاڑوں اور وادیوں میں بادل کے ٹکڑے اس طرح پھرتے ہیں جیسے دھنیے کی کمان سے دھنکی ہوئی روئی۔ یہاں کے پہاڑ، دریا اور غروب آفتاب کا منظر اتنا خوبصورت ہے کہ وہاں اللہ تعالی کا جمال بے نقاب نظر آتا ہے۔علامہ اقبال کا دل کشمیر اور اہل کشمیر کی غلامی پر درد مند رہتا تھا۔ اقبال نے غلامی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کشمیریوں کو جنت نظیر کی آزادی کی راہ دکھائی۔ وہ کہتے ہیں کہ سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک، اس وادی کو غلامی کی حالت میں دیکھ کر میرے سینے سے ایک آہ نکلتی ہے۔ آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر علامہ نے کشمیریوں کو جگانے اور ان میں آزادی کی تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ سکھ دورکی لوٹ کھسوٹ اور بد نظمی کے دور ان کشمیری مسلمانوں کے لیے امن و عافیت کے ساتھ ساتھ کسب معاش کی راہیں بھی مسدود ہو گئیں۔ اس پر آشوب زمانے میں بیشتر کشمیری خاندانوں جن میں بٹ ،شیخ ،میر،لون اوربیگ خاندان شامل تھے نے پنجاب کا رخ کیا۔ اقبال کے آباوو اجداد جن کاشیخ خاندان سے تعلق تھانے بھی کشمیرکے جنوبی علاقے سے پنجاب کا رخ کیا اور سیالکوٹ میں سکونت اختیار کر لی۔