فرانسیسی مفکر ہانورے ڈی بال زیک کے مطابق بیورو کریسی ایسا دیو ہیکل میکنزم ہے جس کو کج فہم لوگ چلاتے ہیں۔ قائد اعظم پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ سیاستدانوں کی کوتاہ اندیشی کے سبب بیورو کریسی نے اسلام پوٹھوہار کی پہاڑیوں میں آباد کیا اور ملک کو اپنی چراگاہ بنا لیا۔ سات دھائیوں سے سیاستدان اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ملک وہ چلا رہے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ اقتدار میں جو بھی سیاسی پارٹی ہو حکومت افسر شاہی کی ہی ہوتی ہے۔ سیاست دانوں کا کام تو بس کرسی اور کچھ ذاتی مفادات کے بدلے میں افسر شاہی کے منصوبوں کی ذمہ داری قبول کرنا ہے۔ لوٹ مار کا دروازہ سرکار کے یہ روشن دماغ اپنے انہی طلسمی منصوبوں کی کنجی سے کھولتے ہیں۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے ایک تقریب میں یہ اعتراف کیا ہے کہ روپے کی قدر 35فیصد گرنے سے ملک میںمہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ کہ خطہ کے ممالک بھارت ،سری لنکا اور بنگلہ دیش ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ ذکر مگر وزیر اعظم کے اس انکشاف کا کرنا مقصودہے کہ ہم موجود وسائل استعمال کر کے بہتری کا منصوبہ متعارف کرانے پر غور کر رہے ہیں وزیر اعظم یہ بتانا بھول گئے کہ یہ غور کون کررہا ے؟ تحریک انصاف یا ’’بیورو کریسی‘‘؟ تبدیلی سرکاری نے اب تک جو منصوبہ بندی کی ہے اس کے اثرات تو بقول میر : مریض عشق پر رحمت خدا کی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی مرض‘ مریض اور دوا کی بات ہے تو محکمہ صحت کی بہتر منصوبہ بندی کو تحریک انصاف کے تبدیلی کے آئینے میں دیکھ لیتے ہیں۔ ویسے محکمہ صحت میں تبدیلی کا آغاز تو تحریک انصاف کی حکومت سے بھی پہلے شروع ہو گیا تھا۔ گزشتہ حکومت نے جب عوام کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے محکمہ صحت پنجاب کا بجٹ دوگنا کیا تو بیورو کریسی نے اس دوگنے اضافے کو اپنے تصرف میں لانے کے لئے افسروں کی تعداد بھی دوگنی کر دی تھی۔ دو وزیر صحت دو سیکرٹری صحت اور ان کے دو سیکرٹریز کی دوگنی فوج ظفر موج۔ کھانے والوں کی تعداد کے حساب سے ’’عوامی بہبود کے منصوبوں‘‘ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔افسر شاہی نے عہدوں کو خوبصورت نام دے کر حیثیت اور عہدے کے اختیار کے مطابق 15لاکھ روپے ماہوار تک تنخواہ بھی خود ہی تجویز کر کے سیاسی حکومت سے منظوری لے لی۔ گزشتہ حکومت نے بعد میںآنے والے برسوں میں صحت کے بجٹ میں جتنا بھی اضافہ کیا وہ عالی دماغ منصوبہ سازوں کی کرشمہ سازی کی نذر ہو گیا۔ حکومت نے دیہی علاقوں میں بنیادی مراکز صحت میں عوام کو علاج معالجے کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لئے وسائل فراہم کئے تو افسر شاہی نے سیاستدانوں کو یہ وسائل اپنے چہیتے منظور نظر افسروں میں بانٹنے کی راہ دکھا دی۔ پنجاب ہیلتھ فیسلٹی مینجمنٹ کمپنی کے نام سے وسائل ہڑپ کرنے کا ’’عوام دوست منصوبہ ‘‘بنایا گیا۔ اس منصوبے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی تنخواہ 6لاکھ روپے مقرر کی گئی تو شہروں کے بڑے ہسپتالوں کے انتظامی افسروں، جو پہلے کام کر رہے تھے، کے عہدے تبدیل کرکے تنخواہ میں کئی گنا اضافہ کیا گیا۔ اس منصوبہ بندی کی لوٹ مار کا ثبوت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے معاملہ کی سماعت کے بعد 55لاکھ کی رقم صرف تین افسروں کو واپس خزانہ میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔ لوٹ مار کی بہتی گنگا میں اس حد تک ہاتھ دھوئے گئے کہ ایک محکمہ کے سیکرٹری ایک کمپنی میں عہدہ لے کر 15لاکھ اضافی تنخواہ وصول کرتے رہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اپنے پہلے بجٹ میں صحت کے لئے مختص کی گئی رقم میں 20فیصد اضافہ کا فیصلہ کرتے ہوئے عوام کو بہتر طبی سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا اور صحت کے شعبہ میں زندگی بھر خدمات سرانجام دینے والی ڈاکٹر یاسمین راشد کو وزیر صحت کا قلمدان اس امید سے سونپا کہ قومی وسائل کا بہترین استعمال بھی ممکن ہو گا۔ وزیر صحت کی اپنے محکمہ پر گرفت اور معاملات چلانے کے اختیار کا اندازہ گزشتہ روز اخبارات میں شائع ہونے والی خبر سے ہو جاتا ہے کہ جناح ہسپتال کی سی ٹی سکین مشین 3ماہ سے اور ایم آر آئی مشین6ماہ سے خراب ہے ، انجیو گرافی مشین 3ماہ سے بند پڑی ہے معاملہ صرف جناح ہسپتال تک محدود نہیں جنرل ہسپتال میں نیورو ڈیپارٹمنٹ کی سی ٹی سکین ‘ انجیو مشینیں بھی دو ماہ سے بند پڑی ہیں۔ میو ہسپتال تو اس لحاظ سے سب سے بازی لے گیا کہ یہاں ایک سال سے سی ٹی سکین مشین خراب ہے اور کوئی سوال کرے کہ محکمہ صحت کے بجٹ میں ہر سال کئے جانے والا اضافہ آخر کہاں جاتا ہے تو اس کا آسان اور سادہ جواب یہ ہے کہ بہترین منصوبہ بندی کے کھاتے میں ۔اگر بجٹ میں اضافہ سے سہولیات میں بہتری کے بجائے بہترین منصوبہ بندی ہی ہونا ہے تو پنڈت جگموہن ناتھ کا کہا ہی سہی ہے : بس اپنی چارہ سازی سے اے شوق باز آئے جس سے کہ درد اور بھی دل میں سوا ہوا تحریک انصاف نے صحت کے بجٹ میں 20فیصد اضافہ تو عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے کیا تھا مگر یہ بھی افسر شاہی کی بہترین منصوبہ بندی کی نظر اس طرح ہو گیا کہ جس اضافے سے مریضوں کے لئے ہسپتالوں میں ادویات خریدی جانی اور مشینیں ٹھیک ہونا تھیں یہ ان وسائل سے صحت کارڈ کی صورت میں انصاف کیا جا رہا ہے۔ افلاطونی دماغ افسروں نے انصاف صحت کارڈ کے لئے صحت کے بجٹ سے 5ارب کی خطیر رقم نکال لی ہے۔ حکومت اس رقم سے ایک کروڑ 30لاکھ گھرانوں کو 7لاکھ 20ہزار تک علاج معالجے کے لئے 150نجی ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت فراہم کرے گی۔ مریض کے لواحقین کو ایک ہزار روپے سفری اخراجات ادا کرنے کا سبزباغ ہی نہیں دکھایا گیا ہے بلکہ نجی ہسپتالوں میں علاج کے نام پر لوٹ مار کی نئی ’’بہترین منصوبہ بندی ‘‘بھی کر لی گئی ہے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت بھی اس قسم کی منصوبہ بندی سے تبدیلی لانے کے خواب دیکھ رہی ہے تو عوام کے پاس اس دوہائی کے سوا اور چارہ ہی کیا رہ جاتا ہے: کس کام یہ آئے مسیحائی تمہاری احسان کرو عاشق بے جاں کی خبر لو