تحریک انصاف اپنے اقتدار کے دو سال مکمل کر چکی ۔ ان دو برسوں میں عوام نے تو مہنگائی اور بے روزگاری کا جو جبر بھگتا سو بھگتا خود حکومت پر بھی یہ 24ماہ خاصے بھاری رہے۔ عمران خان کو اس عرصے میں چومکھی لڑنا پڑی۔ ان کومعاشی بدحالی اور غیر ملکی قرضوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے کشکول اٹھانے کے ساتھ بیورو کریسی کے عدم تعاون کا بھی سامنا رہا۔ یہ افسر شاہی کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کا نتیجہ تھا کہ حکومتی رٹ ختم ہو کر رہ گئی اور حکومت جس معاملے کا بھی نوٹس لیتی وہ بحران کی صورت آن کھڑا ہوتا۔ حکومتی رٹ کا یہ عالم تھا کہ وزیر اعظم کے بار بار نوٹس لینے یہاں تک کہ سپریم کورٹ کا چینی 70روپے میں فروخت کرنے کی ہدایت بھی افسر شاہی کو موثر اقدامات پر مجبور نہ کر سکی۔تحریک انصاف کے دو سال کے اقتدار میں آٹا 35روپے سے 70روپے اور چینی 55 روپے سے 95روپے تک پہنچ گئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا بھی ہوا کہ ملک میں وافر تیل ہونے کے باوجود پٹرول پمپس پر پٹرول میسر نہ تھا اور حکومت کو پٹرولیم کمپنیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور پٹرول کی قیمت میں25روپے اضافے کے بعد ہی پٹرول میسر آ سکا۔ روپے کی قدر میں 35فیصد کمی کے بعد ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 30ہزار ارب سے بڑھ کر 43ہزار ارب تک پہنچ گیا۔ معاشی مجبوریوں کے باعث ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کا حکومتی خواب خواب ہی رہا۔یہاں تک دیکھیں تو بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ: اپنے قولِ وفا کو بھول گئے تم تو بالکل خدا کو بھول گئے تحریک انصاف پہلے دو برسوں میں اپنے قول وفا بھول گئی یہ کہنا نا انصافی ہوگی۔ بلاشبہ عوام کے ساتھ حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا رہا مگر اس عرصے میں حکومت کے ملکی مفاد میں سخت اور مشکلوں کے ثمرات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ حکومت اس عرصے کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ جو 2018ء میں 19ارب 19کروڑ 50 لاکھ ڈالر تھا کم کر کے 2ارب 96کروڑ 60ڈالر پر لانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔اس طرح کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 16 ارب 22کروڑ ڈالر کی کمی کر کے معاشی طور پر مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت اپنے دو برسوں میں پانچ ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کرنے کے قابل ہوئی۔ رواں برس 2700ارب روپے قرض ادا کیا جائے گا ۔ یقینا حکومت کو اتنے بڑے قرض کی ادائیگی کے لیے مزید قرض بھی لینا ہو گا پھر بھی اگر حکومت اسی پالیسی پر گامزن رہی تو اپنے دور اقتدار کے آخر تک غیرملکی قرضوں پر انحصار کافی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس کی امید اس لیے بھی کی جا سکتی ہے کہ بقول عبدالحئی تاباں: آشنا ہو چکا ہوں مَیں سب کا جس کو دیکھا سو اپنے مطلب کا وزیر اعظم عمران خان اب افسر شاہی کے ساتھ اپنی پارٹی سے بھی آشنا ہو رہے ہیںاور اپنے راستے کے کانٹے ایک ایک کر کے چن رہے ہیں ۔ حکومت کی دوسری بڑی کامیابی کورونا وبا کا حکومتی اقدامات سے قابو میں رہنا ہے۔ عمران خان کی حکومت کے اقدامات کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ حکومت نے لاک ڈائون کے دوران ایک ہزار 240ارب روپے کا پیکیج دیا جس کے تخت مستحق افراد کو بلا تفریق 12ہزار روپے فی خاندان کی مالی اعانت فراہم کی گئی۔ دو سال کی محنت کے بعد حکومت آئی پی پیز کو لگام ڈالنے میں کامیاب ہوئی اور مستقبل میں 45 ہزار ارب کے ریلیف کی توقع کی جا رہی ہے۔ احتساب کے حوالے سے تحریک انصاف کی پنجاب میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو جہاں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی احتساب کے کٹہرے میں کھڑے نظر آ رہے ہیں وہاں پنجاب میں متعدد میگا منصوبوں پر عملی طور پر کام بھی شروع ہو چکا ہے۔ پنجاب میں 13انڈسٹریل پارک صنعتی انقلاب کی نوید بن سکتے ہیں ۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 15برس سے کاغذوں میں پڑے راوی فرنٹ سٹی کے میگا منصوبے کا قلیل مدت میں افتتاح کیا جس سے لاہور کی شکل بدل جائے گی۔ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں پنجاب میں جس ادارے کی کارکردگی کو مثالی قرار دیا جا سکتا ہے وہ ایل ڈی اے ہے‘ ایل ڈی اے جہاں لاہور میں 35ہزار رہائشی یونٹس کے میگا منصوبے پر کام شروع کر چکاہے وہاں گزشتہ 16برس سے التوا میں پڑے ایل ڈی اے ایونیو ون کے منصوبے کے تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے ان دو برسوں میں ایل ڈی اے نے ایونیو ون کے 9نجی رہائشی کالونیوں کے ساتھ تنازعات کو طے کیا اور ان میں ترقیاتی کاموں کے لئے بجٹ بھی رکھ دیا گیا۔ ایل بلاک کے معاملات طے کئے گئے اس طرح 16برس سے نامکمل اس منصوبے کی تکمیل کی راہ ہموار ہو چکی۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے رانا ٹکا کے مطابق ایل ڈی اے ایونیو ون کے مسائل کے حل کے لئے طویل عدالتی جنگ کے علاوہ ان کو دھونس دھمکیوں کا بھی سامنا رہا۔ ایل ڈی اے کے افسران پرتشدد کیا گیا مگر ایل ڈی اے نے عوامی مفاد پر سمجھوتہ نہ کیا اور آخر کاراس منصوبے کی تکمیل میں حائل تمام رکاوٹیں دور کر دی گئی ہیں۔ ایل ڈی اے کے دائرہ اختیار میں لاہورسمت چار اضلاع آتے ہیں اگر ایل ڈی اے باقی اضلاع میں بھی لاہور کی طرح میگا پراجیکٹس شروع کرے تو پنجاب میں تحریک انصاف کی کارکردگی کا چہرہ بن سکتا ہے بس حکومت کو اس ادارے میں شفافیت اور اہل افسران کی تعیناتی پر توجہ دینا ہوگی۔ ایسا کرنے سے ہی لاہور میں مسلم لیگ ن کا اثر و رسوخ کم کرکے تحریک انصاف اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔ ان دو برسوں کی کارکردگی کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو جہاں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ اس عرصے میں حکومت عوام کو خاطر خواہ ریلیف فراہم نہیں کر سکی وہاں اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دو برسوں میں حکومت نے کم از کم پائیدار معیشت کا روڈ میپ عوام کے سامنے رکھ دیا ہے اور اگلے تین برس میں گورننس کے معاملات سمیت معاشی مسائل میں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔